فکری کشکمش کا شکار معاشرہ

ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں پورا معاشرہ انتشار اور کشمکش کی کیفیت کا شکار ہے۔ ملک کے مختلف طبقات پاکستان کے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مفادات کی خاطر ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں۔ دن بدن اس کشمکش میں اضافہ ہورہا ہے اور مختلف طبقات کے مابین کھینچی لکیریں مزید گہری ہوتی جارہی ہیں۔ ایسی باتوں پر بھی اتفاق نہیں کیا جارہا ہے،جو مختلف الخیال و مختلف النظریات لوگوں کے مابین مشترک ہیں۔ ہر کوئی ہر حال میں اپنی ہی بات منوانے پر تلا ہوا ہے اور فریق مخالف کی ہر اچھی بری بات کی مخالف کرنا ضروری خیال کرتا ہے۔ برصغیر میں اپنی غلامی کو آزادی میں بدلنے کے لیے ہر مکتبہ فکر کے تمام مسلمانوں نے مشترکہ طور پر جدوجہد کی، جس کے نتیجے میں قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں برصغیرکے مسلمانوں کی وحدت ویک جہتی اور اخلاص پرمبنی جدوجہد رنگ لائی اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک ایسا ملک عطا کیا، جو دنیا بھر میں ہر لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ جو جغرافیائی اعتبار سے اپنے اندر ہر خوبی سموئے ہوئے ہے، لیکن بدقسمتی سے دنیا کی عظیم نعمت کے باسی مذہب سے لے کر سیاست تک نت نئے انتشار و اختلافات کا شکار ہوگئے ہیں، جن میں سے سب سے زیادہ خطرناک نظریاتی و فکری انتشار ہے۔ ملک میں جاری اس نظریاتی و فکری تصادم کا پس منظر سیاسی ہے اور عاقبت نااندیش رہنماﺅں نے سیاسی محرکات کی بنا پر اس کشمکش کو پروان چڑھا کر قوم کو آپس میں صف آرا کیا ہوا ہے۔
ملک میں اسلام پسند اور سیکولر دو طبقوں کے درمیان ایک عرصے سے زبردست کشمکش جاری ہے، ان میں سے ہر ایک فریق مخالف کو تقریبا دشمن ہی تصور کرتا ہے۔ اسلام پسندوں کے نزدیک نفاذ اسلام ہی پاکستان کی منزل ہے، کیونکہ پاکستان مذہب کے نام پر تخلیق کیا گیا تھا، جبکہ سیکولر طبقہ سیکولرازم کے نفاذ کو کامیابی کی منزل بتلاتا ہے۔ دونوں دھڑے اپنی بات کی توثیق کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کی تقریروں کے اقتباسات پیش کرتے ہیں۔ اسلام پسند قائداعظم کی وہ تقریریں سامنے لاتے ہیں، جن میں بانی پاکستان نے پاکستان کو ایک اسلامی مملکت بنانے کا اعلان کیا تھا، جبکہ سیکولر طبقہ ان کی 11 ستمبر کی تقریر کا حوالہ دیتا ہے۔ دونوں دھڑے پاکستان کی تخلیق کی وجہ تسمیہ کو اپنے موجودہ نظریات کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ملک میں سیکولر طبقے کے نزدیک موجودہ دور میں اسلامی قوانین نافذالعمل نہیں ہیں، بلکہ مغربی قوانین میں ہی ہمارے مسائل کا حل ہے، جبکہ اسلام پسندوں کے نزدیک مذہب انسان کی فطری ضرورت ہے۔ یہی بہتر طریقے سے معاشرے کی تشکیل، ترتیب اور تعمیر کرسکتا ہے۔ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور یہ زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سیکولرز کی تمام ترکوششوں کے باوجود اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ مذہب سے محبت کرنے والا معاشرہ ہے، جو اپنی فلاح سیکولرازم میں نہیں بلکہ اسلام میں سمجھتا ہے۔ یہاں کی اکثریت کا تعلق اسلام پسندی کے ساتھ ہے۔ پاکستان میں اسلام پسندوں کی اکثریت جانفشانی اور یکسوئی سے اخروی جذبے کے پیش نظر کام کرتی ہے۔ ملک میں اسلام پسندوں اور علمائے کرام کی سرتوڑ مشترکہ سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان میں”قرارداد مقاصد“ منظور ہوئی، آئین میں یہ بات طے کر دی گئی کہ عوام کے منتخب نمایندے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کے دائرے میں رہتے ہوئے اس ملک کا نظام چلائیں گے۔ اس قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد اسلام کو پاکستان کا سرکاری مذہب قرار دے دیا گیا۔ اس کے ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے ذمے ملک میں رائج قوانین کو اسلامی ڈھانچے میں ڈھالنے کا کام سونپا گیا، ان تمام کامیابیوں اور جدوجہد کے باوجود اسلام پسند پاکستان میں مکمل اسلامی قوانین کا نفاذ کرنے میں ناکام رہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان میں اسلامائزیشن کے عمل میں ناکامی کی بڑی وجہ خود اسلام پسندوں کے رویے ہیں۔ اسلام پسندوں کے مزاج میں دن بدن تشدد، تعصب اور نفرت شامل ہورہا ہے۔ مسلک، فرقے اور نظریے کا اختلاف خلاف اور نزاع، تصادم و ٹکراﺅ اور جنگ و جدل کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ برداشت و رواداری دم توڑ چکے ہیں۔ ایک عرصے سے ہر فورم پر اسلام پسندوں کے ”اقدامات“ موضوع بحث ہیں، جس سے یقینا اسلام پسندوں کے بارے میں قوم پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور قوم بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوئی ہے۔ اسلام پسندوں کی تصادم و ٹکراﺅ پسندانہ سوچ نے خود ان کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اسلام پسندوں کا المیہ یہ ہے کہ ہر ایک اپنے دائرے میں مگن ہے اور اس نے اپنے گرد خود ساختہ حساسیت کے دائرے کھینچ رکھے ہیں۔ تمام مذہبی گروہوں پر فقہی تعصبات کا غلبہ ہے۔ ایسے مسائل جن کی حیثیت راجح ومرجوح سے زیادہ نہیں ، ان پر دسیوں آرا پائی جاتی ہیں، جن پر دلائل کا انبار اور جواب الجواب کی لامحدود تفصیلات بھی عام دستیاب ہیں۔ جبکہ معاشرے کو درپیش مسائل معاشرت و سیاست اور تعلیم وصحافت کے موضوع پر اسلامی نقطہ نظرکی ترجمانی اور جدید معاشرے میں درپیش مسائل پر اسلام کا موقف اکثر وبیشتر بے توجہی کا شکار ہے اور اسلام پسندوں کی جانب سے اس سلسلے میں معاشرے کی رہنمائی کا فرض ادا نہیں کیا جارہا۔ اسلام پسندوں کے معاشرے کو مایوس کرنے والے یہی رویے ان کی ناکامی کا سبب بنتے ہیں۔ اسی لیے سیکولرز کے نزدیک اختلافات کا مزاج رکھنے والے اسلام پسند ریاست کو ٹھیک طور پر چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ علمائ، مساجد اور عوام تقسیم ہیں، اسلامی قوانین کے نفاذ کی صورت میں فقہی اختلافات کو فروغ حاصل ہوتا ہے، جو کسی طرح بھی معاشرے کے لیے مفید نہیں اور سیکولرازم ہی تمام مذاہب، رنگ و نسل، فرقے اور طبقات کو مساوی درجہ دیتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ قوم اسلام سے فطری محبت کی بنا پر سیکولرازم کا نفاذ نہیں چاہتی، لیکن دوسری جانب اسلام پسندوں کی اکثریت کے تعصب آمیز رویوں سے بھی مایوس بیچ چوراہے پر کھڑی بیچ کا راستہ تلاش کررہی ہے۔ ان حالات میں اس ملک میں موجود اسلام پسند اور سیکولر کی تقسیم کو ختم کرنا تو ممکن نہیں، کیونکہ انسان کامختلف الخیال ہونا ایک فطری امر ہے۔ معاشرہ مختلف الخیال لوگوں سے ہی مل کر تشکیل پاتا ہے، لیکن اگر دونوں طبقے چاہیں تو اس فکری انتشار کو کم از کم اس حد تک محدود کرسکتے ہیں ، جو ملک و قوم کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔ موجودہ انتشار ملک و قوم کے لیے انتہائی نقصان کا باعث بن رہاہے، کیونکہ فریقین ضد میں ایک دوسرے کی ایسے امور میں بھی مخالفت کرتے ہیں جن کو ماننے سے کسی کے نظریاتی تشخص کو کوئی نقصان نہیں ہوتا، لیکن ملک ضرور نقصان سے دور چار ہوتا ہے۔ اس وقت ہمارا معاشرہ تصادم کی صورتحال سے دوچار ہے، جس سے نجات کا ایک ہی حل ہے کہ فریقین ضد میں آکر فریق مخالف کی ہر بات کی مخالف کرنے کے رویے کو ترک کر کے اپنے اختلافات کو صرف مکالمے تک محدود رکھیں، کیونکہ ملک میں اسلام پسندوںاور سیکولر طبقے کو مشترکہ طور پر بھی بہت سے ملکی مسائل درپیش ہیں، جن سے مل جل کر ہی نمٹا جاسکتا ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700842 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.