مولانا روم ؒ نے سلطان محمود غزنویؒ کا واقعہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ
سلطان شاہی لباس اتارکر عام لباس میں گشت کیلئے نکلے۔ راستہ میں چوروں کا
ایک گروہ ملا جسے دیکھ کر بادشاہ نے کہا کہ میں بھی تم میں سے ایک ہوں۔ پس
چوروں نے انہیں بھی اپنے ساتھ ملالیا پھر باہمی مشورہ ہوا اور ہر چور اپنا
اپنا ہنر بیان کرنے لگا۔
ایک بولا کہ میرے کانوں میں یہ خاصیت ہے کہ میں کتے کی آواز کو سمجھ
لیتاہوں کہ وہ کیا کہہ رہاہے، دوسرا بولا کہ میں رات کے اندھیرے میں جس شخص
کو دیکھ لوں دن کو بھی اسکو پہچان لیتاہوں۔ تیسرا بولا کہ میں اپنے ہاتھوں
سے مضبوط دیوار میں بھی سوراخ کرلیتاہوں۔ چوتھے نے کہا کہ میں سونگھ کر بتا
دیتا ہوں کہ زمین میں کس جگہ خزانہ مدفون ہے۔ پانچویں نے کہا کہ میں بلند و
بالا محل میں اپنے پنجہ کے زور سے کمند کو محل کے کنگرہ میں مضبوط لگا
لیتاہوں اور اسطرح محل میں داخل ہوجاتاہوں۔ ایک چور نے بادشاہ سے پوچھا کہ
آپکے اندر کیا ہنر ہے؟ بادشاہ نے کہا کہ میری داڑھی میں یہ خاصیت ہے کہ وہ
پھانسی کی سزا پانے والے مجرم کو اشارہ کرکے چھڑا لیتی ہے۔ الغرض سب
چورشاہی محل میں چوری کی نیت سے چلے، سب نے اپنا اپنا ہنر آزمایا اور چوری
کا مال آپس میں تقسیم کرلیا۔ بادشاہ نے ہر ایک کا حلیہ پہچان لیا اور خود
شاہی محل میں واپس آگیا۔ بادشاہ نے اگلے دن عدالت میں تمام ماجرا سناکر
سپاہیوں کو حکم دیاکہ سب کو گرفتار کرلو اور قتل کی سزا سنادو۔ جب سب چور
بیڑیاں پہنے حاضر ہوئے تو ہر ایک خوف سے کانپنے لگا لیکن وہ چور جو اندھیرے
میں دیکھ کر دن میں پہچان لیا کرتا وہ مطمئن تھا۔ اس پر خوف کے ساتھ امید
کے آثار بھی نمایاں تھے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ ان سب کو جلاد وں کے سپرد
کرکے سولی دیدی جائے۔ یہ سنتے ہی اس شخص نے عرض کیا کہ حضور ہم میں سے
ہرایک مجرم نے اپنے مجرمانہ ہنر کی تکمیل کرلی یہ اب خسروانہ ہنر کا حسب و
عدہ ظہور فرمایاجائے میں نے آپکو پہچان لیا لہذا اپنی داڑھی ہلادیجئے تاکہ
ہم سب اپنے جرم کی سزا سے نجات حاصل کرلیں ہمارے ہنروں نے ہمیں سولی تک
پہنچادیا اب صرف آپکا ہنر ہمیں نجات دے سکتاہے۔ سلطان محمود مسکرایا اور
کہنے لگا کہ تم میں سے ہر شخص کے کمال ہنر نے تمہاری گردنوں کو قہر میں
مبتلا کردیا۔ بجز اس شخص کے کہ یہ سلطان کا عارف تھا اور اس کی نظر نے رات
کی ظلمت میں ہمیں دیکھ لیا تھا پس اس نگاہ سلطان شناس کے صدقے میں تم سب کو
رہا کرتاہوں۔ مجھے اس پہچاننے والی آنکھ سے شرم آتی ہے کہ میں اپنی داڑھی
کا ہنر ظاہر نہ کروں۔ مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے سبق ملتاہے کہ
سلطان حقیقی (اﷲ تعالی) جہاں کہیں بھی جرم کا ارتکاب کیاجائے وہ ساتھ ہوتے
ہیں اگرچہ کسی مصلحت پر فوراً سزا نہ دیں ۔ اس واقع سے دوسرا سبق یہ ملتاہے
کہ قیامت میں کوئی ہنر کام نہیں دے گا بلکہ وہ تمام ہنر جو جرم کے ارتکاب
میں معاون ہوں گے وہ چوروں کے ہنر کی طرح ہلاکت اور بربادی کا سبب بنیں گے۔
البتہ صرف ایک شخص کا ہنر کام آیا اور اس کی برکت سے دوسروں کو بھی نجات
ملی۔ یعنی سلطان نگاہ شناس اس طرح اگر اس دنیا کے ظلمت کدے میں ہمیں بھی
خدا شناسی اور معرفت خداوندی حاصل ہوجائے تو وہ ہمیں بھی اور ہمارے ساتھیوں
کو ہلاکت و عذاب سے بچاسکتی ہے۔
اﷲ کرے کے ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو بھی اصل سلطان (اﷲ تعالی) کی معرفت
حاصل ہوجائے تو پھر ہمارے لئے چوری، رشوت، کمیشن لینا اور سرکاری خزانے ،
املاک اور دوسروں کے حقوق کو غصب کرنا مشکل او رناممکن ہوجائے گا۔ لیکن
افسوس کا مقام ہے کہ ایسا نہیں ہورہا ۔ آئے دن ملک میں کرپشن کی وباء پھیل
رہی ہے کبھی زرداری کے سوئزرلینڈ کے بینکوں میں پڑے اربوں روپے کا زکر
ہوتاہے تو کبھی رینٹل پاور کرپشن کا ، کبھی پی آئی آے کا اربوں روپوں کا
سکینڈل سامنے آتاہے تو کبھی سٹیل مل اور سٹاک ایکسچینج کرپشن کا، کبھی جعلی
ڈگریوں کا ذکر ہوتاہے تو کبھی حج کرپشن، معاملہ سامنے آتاہے۔ کبھی اورنج
ٹرین اور لاہور، اسلام آباد میٹروبس سروس میں بھاری اخراجات و کرپشن کے
چرچے ہمیں سننے کو ملتے ہیں۔ اب پانامہ لیکس کے ذریعے نوازشریف کے بیٹوں پر
اربوں روپوں کے غیر قانونی طورپر بیرون ملک منتقل کرنے کا الزام لگایا
جارہاہے۔ الزام لگانے میں مخالفین ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں لگے ہوئے
ہیں۔ لیکن قانونی پیچیدگیوں اور سابقہ تاریخ کو دیکھتے ہوئے لگتا ایسا ہی
ہے کہ ہونے والا کچھ بھی نہیں ہے۔ کرپشن کا جادو گذشتہ 65سالوں سے سر چڑھ
کر بول رہاہے اور یہ ناسور دن بدن بڑھتا ہی جارہاہے۔ عسکری اور سویلین
دونوں حکومتیں اس میں ملوث رہی ہیں لیکن تاحال کوئی بھی ٹھوس اقدام اس
ناسور کو روکنے کیلئے نہیں کیا گیا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 70 اور
80کی دہائی میں کرپشن کی صورتحال اس قدر ناگفتہ بہ نہ تھی۔ اگر کسی افسر یا
اہلکار کے خلاف کرپشن یا بے قاعدگی کی کوئی خبر شائع ہوجاتی تھی تو اسکا
ٹرانسفر تو کم از کم ہوہی جاتا تھا۔ پہلے ہمارے صوبائی و مرکزی محکمہ
انفارمیشن کے ادارے ہر شکایتی خبر کی کٹنگ متعلقہ ادارے کو ارسال کرتے رہتے
تھے ۔ بیوروکریسی بھی قدرے بہتر اور محترک تھی لیکن اب کرپشن کا رونا ہر
کوئی روتا نظر آتاہے۔ میڈیا بھی پہلے سے زیادہ متحرک ہے لیکن کرپشن کی سطح
دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ ہم صرف حکمرانوں کو کرپشن کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں
لیکن اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ جسکا جہاں بس چلتاہے وہ ہیر اپھیری سے باز
نہیں آتا۔ ہمارے ڈاکٹرز ادویات کو فروخت کردیتے ہیں ۔ بھاری کمیشن لیکر غیر
ضرور ی ادویات تجویز کرتے ہیں۔ اساتذہ ڈیوٹی نہیں دیتے، مفت درستی کتب کو
فروخت کرنے کے علاوہ فرنیچر ودیگر سامان کی رقم خوردبرد کرلیتے ہیں۔ تاجر
ذخیرہ اندوسزی، کساد بازاری، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، دو نمبر اشیاء کی
فروخت میں ملوث ہیں ۔ ہم دودھ، گھی، تیل، پیٹرول ادویات میں ملاوٹ کرتے
ہیں۔ ہمارے نمائندے فرضی سکیموں کے ذریعے سرکاری خزانے کو چونا لگاتے ہیں۔
سیلاب زدگان تک کی خیرات، زکوۃ، امداد تک کو خردبرد کرلیتے ہیں۔ زراعت صنعت
کے کاروبار سے وابستہ لوگ اربوں روپوں کا قرض سود پر لے کر ایک طرف تو اسے
معاف کروالیتے ہیں تودوسرے طرف اﷲ کے ساتھ جنگ پر آمادہ ہیں۔ ہماراکوئی
ایسا ادارہ ، دفتر نہیں ہے ماسوائے موٹروے پولیس کے جو یہ کہہ سکے کہ ہم
کرپشن میں مبتلا نہیں ہیں۔ ایسا کیوں ہے ہمارے حکمران اور عوام خوف خدا سے
عاری ہوچکے ہیں۔ ہم نے اپنے اصل سلطان خدا کی ذات کو پہچانا ہی نہیں ۔
ہمارے اندر تقوی نہیں ہے ہم دنیاوی قانونی بیساکھیوں اور داؤ پیچ کا سہارا
لے کر اس دنیا میں تو شاید بچ جائیں لیکن ایک ایسی عدالت اور دن کا سامنا
ہم سب نے کرنا ہے جہا ں ہمارے تمام اعضاء ہمارے تمام گناہوں کی گواہی دیں
گے اور وہاں مال و دولت والوں کا سخت حساب ہوگا اور جس نے قومی امانت کو
لوٹا ہوگا یا کرپشن کی ہوگی یاکسی کا مال دبایا ، کھایا ہوگا وہ اپنی
نیکیاں ان کے حوالے کرے گا ۔ نیکیا ں دینے کے بعد بھی جب حقوق العباد سے
فارغ نہ ہوگا تو دوسروں کے گناہ اس کے سر تھونپ کر جہنم واصل کیاجائیگا۔ اﷲ
ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو ہدایت نصیب فرمائے او رحقوق اﷲ اور حقوق العباد
پورا کرنے کی ساتھ ساتھ معرفت الہی نصیب کرے ۔ آمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |