آزادی صحافت۔ ۔باتوں کی حد تک!

آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر کالم نگار سہیل احمد مغل کی خصوصی تحریر
 دسمبر 1993 ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے 3 مئی کو آزادی صحافت کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا گیا تھاجس کے بعد 3 مئی 1994 ءکو پہلی بار دنیا بھر میں عالمی یوم آزادی صحافت منایا گیا تھا آج آزادی صحافت کا عالمی دن دنیا بھر میں منایا جائے گا۔ آج آزادی صحافت کے بنیادی اصولوں کا جشن منایا جائے گا اور آزادی صحافت کے حوالے سے دنیا بھر کے حالات کا جائزہ بھی لیا جائے گا ۔ جن صحافیوں نے اپنے صحافتی فرائض کی انجام دہی کے دوران زندگیاں گنوا دیں انہیں خراج عقیت پیش کرنے کےلئے تقاریب بھی منعقد کی جائیں گی۔لیکن حقیقت میں یہ دن بھی صرف علامتی طور پر منایا جاتا ہے صحافیوں کے مسائل پر دنیا بھر کی صحافتی تنظیمیں پروگرامز منعقد کر کے صحافیوں کو درپیش مسائل کا جائزہ تو ضرور لیتی ہیں اور مسائل حل کرنے کے بلند وبانگ دعوے بھی کیے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر آج تک اقوام متحدہ یا صحافتی تنظیموںنے کچھ نہیں کیا گیا ۔ سچ لکھنے اور حقائق سامنے لانے کی پاداش میں صحافیوں پر نہ صرف جھوٹے مقدمات درج کیے جاتے ہیں بلکہ تشدد کا نشانہ بنانا یا قتل کر دینے کے واقعات بھی آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں لیکن ایسے واقعات کی روک تھام کےلئے آج تک کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا گیا ۔ایک بین الاقوامی تنظیم کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2015 ءآزادی صحافت کے اعتبار سے گزشتہ 12 برس کا بدترین سال رہا جس میں عالمی سطح پر آزادی صحافت مختلف طرح کے مسائل کا شکار رہی، اس رپورٹ میں 199 ممالک اور خطوں میں آزادی صحافت کا جائزہ پیش کیا گیا جس کے مطابق دنیا بھر میں صرف 13 فیصد آبادی کو آزاد صحافت میسر ہے ۔گزشتہ برس آزادی صحافت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں صحافیوں پر حملے اور دھمکیوں جیسے معاملات رہے ۔ ان میں سب سے زیادہ مشکلات مشرق وسطیٰ میں دکھائی دیں جہاں حکومتوں اور عسکری گروپوں کی جانب سے صحافیوں اور صحافتی اداروں کو دباﺅ کا شکار بنایا جاتا رہا تاکہ وہ رپورٹنگ کرتے ہوئے جانبداری کا مظاہرہ کریں ، ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے دشمن ہو جیسا ماحول پیدا کیا گیا اور مخالفت میں لکھنے یا بولنے والوں کو حملوں اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ میکسیکو میں بھی صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کےلئے ان پر حملے کیے گئے جس سے آزادی صحافت کو شدید نقصان پہنچا ہے اسی طرح ہانگ کانگ میں چین کےخلاف آواز اٹھانے والے پانچ ارکان کی گم شدگی نے بھی صحافتی حلقوں میں خوف کی فضا پیدا کی جس سے آزادی صحافت متاثر ہوئی اور چین صحافتی اداروں پر پابندی کے حوالے سے سر فہرست رہا۔ فرانس میں بھی گزشتہ برس شارلی ایبدو پر ہونے والے حملے اور متعدد صحافیوں کی ہلاکت نے صحافی برادری میں سلامتی کے حوالے سے خدشات پیدا کیے۔ ترکی ، بنگلہ دیش، گمبیا، سربیا، برونڈی اور یمن میں بھی صحافیوں کو مختلف پابندیوں اور شدید مشکلات کا سامنا رہا ۔رپورٹ میں پاکستانی صحافیوں رضا رومی اور حامد میر پر قاتلانہ حملوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس سے پاکستان میں بھی آزادی صحافت شدید متاثر ہوئی ۔گزشتہ سال پاکستان میں بھی آزادی صحافت کےلئے بدترین سال رہا اور صحافیوں پر جھوٹے مقدمات ، قاتلانہ حملے اور دھمکیوں سمیت ہرطرح سے انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ 2000ءسے ابتک پاکستان میں 75صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں پچاس صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی سے روکنے کےلئے دانستہ طور پر ہدف بنا کر قتل کیا گیا جبکہ باقی پچیس صحافی خطرناک ڈیوٹیوں کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے قتل کے صرف دو ایسے مقدمات ہیں جن میں قاتلوں کو سزا سنائی گئی اور باقی صحافیوں کے ورثاءآج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ گزشتہ سولہ سالوں میںصحافیوں کے قتل کے سب سے زیادہ واقعات بلوچستان میں پیش آئے جہاں بائیس صحافیوں کو قتل کیا گیا ۔دوسرا نمبر خیبر پختونخوا کا ہے جہاں انیس صحافیوں کو قتل کیا گیا اسی طرح سندھ میں پندرہ، فاٹا میںگیارہ، پنجاب میں پانچ اور اسلام آباد میں تین صحافی قتل ہوئے ۔ صحافیوں پر تشدد کے سب سے زیادہ ایک سو چالیس واقعات سندھ میں پیش آئے جبکہ پنجاب میں 80، اسلام آبادمیں 77 ، خیبر پختونخوا میں 50، بلوچستان میں 46 اور فاٹا میں 31واقعات پیش آئے۔اسی طرح پاکستان میں صحافیوں کےخلاف جھوٹے مقدمات ، تشدد اور دھمکیوں کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں پیش آئے، سندھ دوسرے، بلوچستان تیسرے، خیبر پختونخواہ چوتھے، فاٹا پانچویں اور اسلام آباد چھٹے اور آخری نمبر پر رہا ۔صحافیوں کی آواز کو دبانے اور جھوٹے مقدمات درج کرنے میں پنجاب کا ضلع اوکاڑہ سر فہرست رہا جہاں گزشتہ سال جنوری سے ابتک صحافیوں کےخلاف 16سے زائد مقدمات درج کیے گئے اور ملک بھر کے مقابلے میںصحافیوں کےخلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سب سے زیادہ مقدمات بھی اسی ضلع میں درج کر کے صحافیوں کی آواز کو دبایا گیا ۔آزادی صحافت کے عالمی دن سے صرف چار روز قبل ملک کے نامور صحافی و اینکر پرسن قیصر خان کےخلاف جھوٹا مقدمہ بھی اسی ضلع میں درج کیا گیا ہے۔ اسی طرح سندھ اسمبلی کی ناقص سیکیورٹی کا راز فاش کرنے پر نامور صحافی سید اقرارالحسن کےخلاف بھی دو مقدمات درج کرکے انہیں یوم آزادی صحافت سے صرف تین روز قبل گرفتار کرلیا گیا ۔پاکستان میں گزشتہ سال فوجی عدالتوں کے قیام کے بعد فروری میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کا پاکستان بھر میں پہلا مقدمہ بھی قومی اخبار کے کالم نگار سید اعجاز حسین گیلانی کےخلاف درج کیا گیا تھا ۔اسی طرح پاکستان میں سچ لکھنے اور مظلوموں کا ساتھ دینے پرسینکڑوں صحافیوں کےخلاف جھوٹے مقدمات درج کیے گئے اور کئی صحافیوں کو قید و بند کی مصیبتیں بھی برداشت کرنا پڑی ۔اس طرح کے واقعات پرویز مشرف کے دور آمریت میں بھی دیکھنے کو نہیں ملے تھے جس طرح آج جمہوری حکومتوں نے صحافیوں پر پابندیاں لگا رکھی ہیں اور ان کےخلاف جھوٹے مقدمات درج کیے جارہے ہیں اور بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔افسوسناک بات ہے کہ حکمران، پولیس اور دیگر ادارے صحافیوں کی آوازخاموش کروانے کے در پے ہیں ۔ آج تک حامد میر پر قاتلانہ حملے کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر نہیں آسکی جس سے صاف ظاہر ہیں کچھ طاقتیں ہمارے معاشرے کو اندھا‘ بہرا اور گونگا بنا دینا چاہتی ہیں ۔ صحافیوں کےخلاف جھوٹے مقدمات ، تشدد اور دھمکیوں کے واقعات کا خاتمہ اسوقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک صحافیوں کی آواز کو دبانے کےلئے ان کےخلاف جھوٹے مقدمے درج کرنیوالوں اور قاتلانہ حملے و تشدد کرنے والوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا ۔
Sohail Ahmad Mughal
About the Author: Sohail Ahmad Mughal Read More Articles by Sohail Ahmad Mughal: 19 Articles with 12867 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.