زندگی میں بہت سی مہارتوں میں سے ایک مہارت ایسی بھی ہے
جس کو ہم یکسر نظر انداز کرتے ر ہتے ہیں وہ نایاب صلاحیت انداز ِ گفتگو ہے
جس کو ہم اکثر پس پشت ڈال دیتے ہیں، اور وہ ہے۔۔۔گفتگو۔۔۔ گفتگو ہی ایسا
شاندار ہنر ہے جو کسی کو بھی عمدہ انداز ِ بیان سے ہیرو اور بعض اوقات ناقص
و ناگفتہ گفتگو کے سبب زیرو بھی بنا سکتی ہے، ادھر ایک واقعہ بیان کرتے
ہوئے آگے چلتا ہوں کہ ایک بادشاہ کے بارے میں لکھا ہے کہ اس نے خواب میں
دیکھا کہ اس کے سب دانت گرِ گئے ہیں، اس نے خوابوں کی تعبیر جاننے والے ایک
شخص کو بلایا اور اس سے خواب کی تعبیر پوچھی :تو اس نے ناقص انداز ِ گفتگو
کا استعمال کرتے ہوئے خواب سنا تو اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا، وہ کہنے لگا
۔۔۔!!! اعوذباﷲ۔۔۔ اعوذ باﷲ۔۔۔بادشاہ سمیت پورے ماحول میں سناٹا طاری ہو
گیا باآخر بادشاہ نے تعبیر پوچھی تو اس نے بتایا کہ بادشاہ سلامت آپ کی
زندگی سالہا سال کی ہو گی اور آپ کی تمام اولاد اور گھر والے سب مر جائیں
گے اور آپ اپنے ملک میں اکیلے رہ جائیں گئے۔ بادشاہ نے یہ تعبیر سنی تو آگے
بگولا ہو گیا اور اسے سزا کا حکم دیتے ہوئے اس کا سرقلم کردیا، پھر ایک
دوسرے شخص کو دربار میں پیش کیا گیا تو اُس نے خواب سنا اور تو مسکر ا کر
کہنے لگا کہ : بادشاہ سلامت آپ کو خوشخبر ی ہو ، یہ خواب تو بہت اچھی
ہے۔۔۔تو بادشاہ نے حیران ہو کر تعیبر پوچھنے کی خواہش ظاہر کر دی۔۔۔ تو وہ
شخص بولا۔۔۔کہ جی خواب کی تعبیر یہ ہے کہ آپ کی عمر دراز ہو گی اور آپ کی
عمر اس قدر دراز ہو گی کہ آپ سب اپنے اہل و عیال کے بعد فوت ہوں گے ،
بادشاہ سلامت نے اس انداز ِ گفتگو سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اس کو انعام و
اکرام سے نواز ا ۔۔ ۔
زبان بادشاہ ہوتی ہے مگر اس کی ملکہ گفتگو ہو تی ہے، زندگی کی تمام آسائشیں
آپ اندازِ گفتگو سے باآسانی حاصل کر سکتے ہیں مگر گفتگو کے کچھ اصول و
قانون ہوتے ہیں مثال کے طور پر آپ اپنے کسی دوست، ساتھی، رفیق ِ کار یا کسی
رشتے دار سے ملاقات کریں تو دوران ِ گفتگو ایسے موضوعات چھیڑیں جو اس سے
متعلق ہوں اور جن پر بات کر کے اسے خوشی ملتی ہو، یہ انسانی فطرت کا حصہ ہے
، ایک نوجوان جن موضوعات کو زیر ِ بحث لانا پسند کرتا ہے وہ یقینا ان امور
سے مختلف ہوتے ہیں جن پر ایک عمر رسیدہ شخص بات کرنا پسند کرتا ہے، ایک
عالم سے بات کرتے ہوئے آپ جن موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں وہ ان موضوعات سے
میل نہیں کھاتے جن پر ایک جاہل گفتگو کرتا ہے، لازمی نہیں کہ جو بات آپ
اپنی بیوی کے ساتھ کرتے ہیں وہ آپ اپنی بہن سے بھی کریں گئے اور دونوں کے
لیے موضوعات و انداز تبدیل کرنے پڑتے ہیں، ہر موقع و محل میں گفتگو کو الگ
انداز ہوتا ہے۔ ایک باپ کو چاہیے کہ وہ اپنے ہونہار بیٹے سے اسکی ذات کے
متعلقہ امور پر گفتگو کریں الغرض اپنی گفتگو کا موضوع ایسی باتوں کو بنائیں
جن میں لوگ دلچسپی کا اظہار کرتے ہوں نہ کہ ایسے موضوعات جن سے آپ کو
دلچسپی ہو۔ ادھر میں ایک اور بات بیان کرتا جاؤں کہ انسان کامیابی کی کتنی
ہی منازل کیوں نہ طے کر لے بہر حال و ہ ہے تو انسان اور اپنی تعریف سن کر
خوش ہوتا ہے اس لیے کبھی بھی اپنی گفتگو میں کسی بھی لمحہ،کسی بھی موقع پر
اگر کسی کی تعریف کرنی پڑ جائے تو اس مقام پر لالچ کو اپنے ہاتھوں میں نہ
آنے دینا بلکہ کھل کر تعریف کرنے سے آپ کا تو کچھ نہیں جائے گا البتہ آپ
کسی کے دل میں اپنے لیے پیار بھرے جذبات پیدا کر لیں گئے اور وہ ایسے جذبات
ہونگے کہ آ پ کے وہم و گماں سے بھی باہر ۔۔۔ صبح گھر سے نکلتے وقت ناشتہ کر
کے بیوی کی تعریف، کپڑے پریس دیکھ کر بہن کی تعریف، بھائی کو صبح جلدی جاگا
دیکھ کر اس کی تعریف، راستے میں ملے دوستوں کے کپڑوں کی تعریف، آفس میں صاف
ٹیبل اور چائے پی کر اپنے آفس بوائے کی تعریف، سودا سلف خریدتے وقت دکاندار
کے اخلاق کی تعریف، سفر کے دوران ڈرائیور کی تعریف، بچوں کا ہوم ورک دیکھتے
ہوئے ان کی محنت و لگن کی تعریف، کھانے کی تعریف الغرض زندگی کے ہر شعبے
میں ،ہر موقع پر کسی نہ کسی کی تعریف آپ کی زندگی کو چار چاند لگا سکتے ہیں
، میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ کرنا انتہائی مشکل امر ہے، مگر وہ کون سا
کام ، کون سا عمل، کو ن سا کلیہ، کون سا مشن اور کون سی منزل ایسی ہے جو
محنت و عظمت اور جذبہ کے حل نہ ہوتی ہو، انسان سب کچھ کر سکتا ہے اگر اس
میں کچھ کر گزرنے کی ہمت و لگن ہو تو اگر سخت سے سخت منازل کو انسان طے کر
سکتا ہے تو پھر اپنی زندگی کو بدلنے کی یہ چھوٹی سی سہی کیوں کر نہیں کر
سکتا ، آئیے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنی خوشیوں کو اپنے ہاتھو ں میں تھام
لیں۔۔۔یہ وقت ہے تبدیلی کا خود کو تبدیل کر و ، ایک قدم آگے بڑھ کر زندگی
کی کامیابیوں کو تھام لینے میں ہی کامیابی و کامرانی ہے۔۔۔کسی کو اگر الفاظ
سے ہی خوشی دے سکتے ہو تو دے دو ۔۔۔تو خوشی آپ کے دروازے پر بھی دستک دینے
آ پہنچے گئی۔۔۔ |