’’رب توپہلاں میں ماں کہنا سکھیا‘‘اس پنجابی بول
میں جس قدرماں کی اہمیت بیان کی گئی ہے شاید کسی اور زبان میں اس
قدرموثراندازِ بیان نہ ہو۔وہ الگ بات کے ’’ماں‘‘توسب کی سانجھی ہوتی ہے
اور’’ماں‘‘کسی کی بھی ہوقابلِ احترام ٹھہرتی ہے۔
عباس تابش نے بڑے دلکش انداز سے ماں کی محبت کانقشہ کھینچاہے
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک روزکہاتھامجھے ڈرلگتاہے
جب کہ ماں کی کمی کوشدت سے محسوس کرتے ہوئے احتشام جمیل شامی رقمطراز ہیں
غم دی رات نہ لمی ہوندی
لنگ جاندی جے امی ہوندی
anna jarvisوہ باہمت ورحمدل خاتون تھیں جنھوں نے امریکن سول وارمیں دونوں
طرفین کے زخمی سپاہیوں کی مرہم پٹی کابیڑااُٹھایا۔ایناجاروس ہی ’’مادرڈے‘‘کی
بانی وخالق ہیں۔انھوں نے اپنی والدہ محترمہ کی وفات کے برس 1905سے ہی ’’مادرڈے‘‘منانے
کی مہم کاآغاز کردیاتھا ۔ایناجاروس نے پہلی بارباقاعدہ طورپر’’مادرڈے‘‘کی
تقریب کاآغاز 1908 میں مغربی ورجینیاکے شہرگریفٹن میں کیا۔یہ تقریب سینٹ
اینڈریومیتھوڈسٹ چرچ میں ہوئی جسے اب international mothers day shrine
کامقام حاصل ہے۔1873میں تعمیرشدہ اس چرچ کو یہ مقام پندرہ مئی 1962
کودیاگیا۔
یو۔ایس کی کانگریس نے 1908میں مادرڈے کو سرکاری سطح پرمنانے کے بل کی
مخالفت کردی اورمذاقا کہاکہ پھر ’’بیوی کی ماں‘‘کادن بھی منایاجائے
گا۔1910میں ایناجاروس کی پیدائشی ریاست مغربی ورجینیامیں اس دن سرکاری چھٹی
کردی گئی پھررفتہ رفتہ یہ رواج باقی ریاستوں کواپنی لپیٹ میں
لیتاگیا۔1914میں woodrow wilsonنے اس بل پر دستخط کردیئے جس میں مئی کی
دوسری اتوار کو’’مادرڈے‘‘کے طورپرمنانے کی درخواست کی گئی تھی۔پھروہی
ہواجودنیامیں ہراچھے کام کی بنیادرکھنے والوں کے بعدکیاگیا۔اس دن
کوکاروباری کمپنیوں نے اُچک لیااوراس دن روایتی کارڈز چھاپنے کی طرح ڈال دی
گئی۔اس ساری صورتحال نے ایناجاروس کودلبرداشتہ وآزردہ کردیاوہ چاہتی تھیں
کہ ماں کو اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریردے کرہمیں اپنی محبت
اورتشکرکااظہارکرناچاہیے کیونکہ انکے بقول ’’ماں ایک ایسی ہستی ہے کہ
جودنیامیں سب سے بڑھ کرآپ کیلئے کچھ کرتی ہے‘‘۔ایناکاکہناتھاکہ ان کاروباری
لوگوں نے مادرڈے کی اہمیت ختم کی ہے ‘اس دن کی عظمت کومسخ کیاہے‘یہ دن خالص
جذبات سے منانے کاہے نہ کہ منافع کمانے کا‘کیونکہ ماں توسبھی کی سانجھی
ہوتی ہے‘تاجر‘سیاستدان‘انسان‘حیوان‘بیوروکریٹ یاسپاہی سب ہی کوماں سے محبت
کااحساس اجاگرکرناہوتاہے۔
زمانہ بعید کی جانب نظردوڑائی جائے تولوگ ہری گوہ والی دیویوں فرٹائل گوڈیس
کے مجسمے بناکراُس کی پرستش کرتے ۔جس کے ذریعے اپنے معاشرے میں عورت کی
اہمیت کااُجاگرکرنامقصودہوتا۔مشہورفرانسیسی ادیب سڈونی گیری ایلاکالیٹ نے
ایک مرتبہ کہاتھا’’ہم عورتوں کی زندگی صلیب سے عبارت ہے۔جب اپنی والدہ کے
بارے سوچ آتی ہے توشدت سے احساس ہوتاہے کہ وہ بھی تاحیات
خاندان‘معاشرے‘رسومات اورتنگ دستی کی صلیبیں اُٹھائے خندہ پیشانی
اورصبروتحمل سے حیاتی کی دشوارگزارراہوں پرمحوسفررہیں اوردوسروں کیلئے
زندگی کی راہوں کوروشن کرتی رہیں۔‘‘
کویت جامعہ کے معلم یاسین سامی رقمطراز ہیں:’’ماں کالفظ ان گنت وحساب معانی
کا مرقع‘ لاتعداد و شمار خوبیوں کامرصع ہے۔’’ماں‘‘دنیائے الفاظ کاسب سے خوب
صورت ترین گوہرہے‘کلمات کے بیکراں محیطوں کانفیس یاقوت ومرجان ہے‘اس لیئے
جب حسن الفاظ کامقابلہ ہوتاہے توصدارت کی کرسی اسی کیلئے مختص کی جاتی ہے
اورصدرِ کلام کے لقب سے ملقب ہوتاہے‘الفاظ کی دنیامیں سب سے زیادہ استعمال
ہونے کاشرف بھی لفظ’’ماں‘‘کوہی حاصل ہے۔کسی بھی زبان میں پرکھیں تولفظ
’’ماں ‘‘سب سے پیارااورجاذبیت بھراہوتاہے۔بالاجمال چندزبانوں میں ملاحظہ
فرمائیں:ماں‘الام‘مادر‘ماتا‘والدہ‘ماما‘مام۔۔۔وغیرہ کیاہی خوب الفاظ ہیں۔‘‘
لفظ’’ماں‘‘سے بڑھ کرکوئی سُریلالفظ کیاہوگا‘اس سے بڑھ کرردھم‘لے‘راگ‘راگنی
کوئی‘ نہ ہوگی جوروح کوتسکین‘قلب کوطمانیت‘نینوں کوچاشنی‘اوردماغ کوقوت
عطاء کرتی ہو۔’’ماں‘‘ہی توہے جس کے لفظ’’اُٹھ میراپُتر‘‘اک زخموں سے
چُورفردکوبھی دنیاکے سامنے لڑنے کی قوت عطاء کردیتے ہیں ۔’’ماں‘‘ہی توتھی
جس نے ابنِ زبیرکوچندساتھیوں سمیت حجاج جیسے سفاک اوربھاری افرادی قوت
اورجدیداسلحہ سے لیس فوج سے لڑنے کی قوت عطاء کی‘۔ماں ہی توتھی جس کے لب سے
الفاظ نکلے کہ ’’اُٹھ مردِ مجاہد اب جاگ ذرا۔۔۔اب وقت شہادت ہے
آیا‘‘اورخدانے عین انہی لمحات میں مادرِ وطن کی خاطرمیجرشبیرشریف کی قربانی
کوقبول کرلیا۔تب ہی تو نپولین نے کہاتھاکہ ’’تم مجھے اچھی مائیں دو‘میں
تمہیں بہترین قوم دوں گا۔‘‘
بس ’’ماں‘‘ہی تو ہے جس کے ذریعے رب کریم اپنی محبت کااظہارفرماتے ہیں
:’’میں اپنے بندے سے سترماؤں سے بھی زیادہ پیارکرتاہوں۔‘‘ملاحظہ ہوکہ
کائنات میں محبت کی مثال دینے کیلئے سیدنامحمدﷺ کے خدانے فقط لفظ’’ماں‘‘کی
ہی مثال دی۔
’’ماں‘‘ایک ایسالفظ ہے اسے جس زبان میں بھی اداکیاجائے دوہونٹ ایک دوسرے
کوچوم لیتے ہیں۔ماں ایک ایسی چھت ہے جس کے بعد کوئی چھت راحت نہیں
پہنچاسکتی ‘ماں ایک ایساآسراہے جس کے بعد رب کریم بھی پُکاراُٹھتاہے ’’اے
موسی !سنبھل کے آنا۔اس کائنات میں اب وہ ہستی موجودنہیں رہی جوتمہارے
طورپرآنے کے دوران سربسجودہوکرہم سے ایک ہی دعامانگتی رہتی تھی’’اے سب
جہانوں کے مالک میرے فرزندسے کوئی خطاء ہوجائے تواسے معاف کردینا۔‘‘
ڈایپرزکادورہویاپرانازمانہ ’’ماں‘‘جتنی تکالیف کوئی ہستی خندہ پیشانی سے
نہیں سہہ سکتی۔حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اﷲ کی خدمت میں
حاضر ہوکرپوچھا’’میرے حسن صحبت کاسب سے زیادہ حق دارکون ہے؟آپ نے
فرمایا:تیری ماں۔اس نے عرض کیاپھرکون؟آپ نے فرمایا:تیری ماں۔اس نے عرض
کیاپھرکون؟آپ نے فرمایا:تیری ماں۔اس نے عرض کیاپھرکون؟آپ نے
فرمایاتیراباپ۔‘‘صیحح بخاری 5971۔صیحح مسلم 2548۔یہی بات ایک اورروایت میں
اسطرح ہے کہ’’تیری ماں‘پھرتیری ماں‘پھرتیری ماں‘پھرتیراباپ پھرجوشخص تیرے
زیادہ قریب ہے‘وہ اسی قدرزیادہ مستحق ہے۔‘‘مذکورہ بالاحدیت اس بات کی
تائیدوتصدیق کررہی ہے کہ دنیامیں ایک فرزندپرسب سے زیادہ حق اس کی ماں کاہے
یعنی ماں کاتین حصے اورباپ کاایک حصہ‘کیونکہ دنیامیں اولاد کی افزائش
‘پیدائش ‘پرورش‘لڑکپن سے لے کرجوانی تک جس قدرکُلفتیں ماں کی ہستی برداشت
کرتی ہے اتنی کوئی ذی روح نہیں کرسکتی ‘باپ کاچوتھاحصہ اس کے نان ونفقہ کے
بندوبست اورالفت کی وجہ سے۔
ہمارادین ہمیں ماں‘باپ کی کسی بھی لغزش پر’’اُف ‘‘تک کرنے کی اجازت نہیں
دیتا۔سورہ اسرائیل کی آیت بائیس اورتئیس میں فرمانِ خدواوندکریم ہے
’’اورتیرے رب نے خم کردیاہے کہ اسکے سواکسی کی عبادت نہ کرواوراپنے ماں باپ
کے ساتھ حسنِ سلوک کیاکرو۔اگرتیرے پاس ان میں سے ایک یادونوں بڑھاپے کوپہنچ
جائیں توان کوکبھی ’’اُفُ‘‘بھی مت کرنا اورنہ ان کوجھڑکنا‘اوران سے خوب ادب
سے بات کرنااورانکے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا‘اوریوں
دعاکرتے رہناکہ اے میرے پروردگار!ان دونوں پررحمت فرمائیے جیسے ان دونوں نے
مجھے بچپن میں پالاہے‘‘۔ابنِ ماجہ میں حضرت ابوامامہ روایت کرتے ہیں کہ ایک
شخص نے رحمت اللعالمین ﷺ سے دریافت کیاکہ والدین کااولاد کے ذمے کیاحق
ہے؟فرمایا:وہ تیری جنت اوردوزخ ہیں(مطلب خدمت کرے گاتوجنت کاحقدارٹھہرے
گااوراگرحکم عدولی کرے گا‘ان کوستائے گاتوجہنم کی آگ تیرامقدرٹھہرے گی)‘‘
افسوس !صدافسوس!آج وہ زمانہ آگیاہے کہ ہم ’’ماں‘‘جیسی ذیشان ہستی کوبوجھ
سمجھنے لگے ہیں۔وہ ماں جودرجن بھربچوں کوپالتی ہے اسکوآج پندرہ دنوں بعدکسی
اوربیٹے کے گھررہناپڑتاہے‘وہ ماں جواولاد کی خاطرخاوندکاہرظلم ہرعیب سہتی
رہی‘آج اولاد اسکی خاطربیوی کی کج ادائیاں بھی نظراندازنہیں کرسکتے ۔
بیسویں صدی سے شروع ہونے والے اس ’’مادرڈے ‘‘کو آج 103برس بیت چکے ہیں مگر
اولڈہاؤسز کی تعدادبڑھ رہی ہے‘اولاد کی ماں سے نارواسلوک کی شکایات کاحساب
نہیں‘اکثرٹی وی چینلزپرفٹ پاتھ پرموجودمائیں ہماری بدقسمتی کامنہ بولتاثبوت
ہیں۔ہماری کج روی‘اخلاقی بدتری‘سماجی گراوٹ اورروحانی زوال کامنہ بولتاثبوت
ہیں۔
بات یہ نہیں کہ ہم’’مدرڈے‘‘منائیں یانہ منائیں۔بات یہ نہیں کہ یہ یورپ
کاتہوارہے یامشرق کا۔بات یہ ہے کہ ہم اس سارے عمل سے کیاکشیدکررہے ہیں۔جس
تہذیب سے ہم نے یہ رسم مستعارلی ہے وہ آج’’ماں‘‘کوکتنامقام دے رہی ہے؟اسکے
پاس کتنے ایسے فرزندہیں جوماں کے قدموں کواپنی جنت سمجھتے ہیں؟اس کے پاس
کتنی مقدس روایات ہیں یاوہ کتنی ایسی مقدس روایات پرعمل پیراہے جوماں کااصل
مقام پہچانتی ہیں۔یہ سب وہ سوالات ہیں جن کے حوالے سے موجودہ مغربی تہذہب
کسی بھی پیمانے پرپُورااترتی نظرنہیں آتی۔ایناجاروس نے ایک اچھی بنیاد ڈالی
مگرافسوس کہ اس کے حقیقی مقصدکوپسِ پشت ڈال دیاگیا۔
ہم عجب مقام پرکھڑے ہیں ۔ہم یورپ کی قابلِ تقلیدباتوں کوتوپسِ پشت ڈال دیتے
ہیں مگران کی ناقابلِ اصلاح رسموں اوررواجوں کومن وعن اپنے جسم سے لے کرروح
تک میں سمولیتے ہیں۔
یہ دن اس لیئے نہیں رکھاگیاکہ ’’ماں‘‘کوسال بعد یاد کرلیاجائے بلکہ یہ دن
رکھنے کامقصدیہ تھاکہ جولوگ ماؤں کوبھلاچکے ہیں ان کواس دن اپنااحتساب
کرناچاہیئے اورسرکاری‘قومی یاعلاقائی سطح پرایساماحول اپنایاجائے جس سے ماں
کی قدرومنزلت بڑھے مگرسوال یہ پیداہوتاہے کہ کتنے لوگ اس دن اپنی ماؤں
کواولڈہاؤسز سے واپس اپنے گھرلے جاتے ہیں؟کتنے لوگ ماؤں سے حقیقی معافی کے
طلب گارہوتے ہیں؟کتنے لوگ اپنی جنت کوپالیتے ہیں؟اگر اس کاجواب نفی میں ہے
توپھرکیوں نہ ہم دینِ حق کی جانب لوٹ جائیں ‘جہاں سے ہمیں ایسی لافانی
تربیت اورتعلیم ملتی ہے جواس جہان میں اور اس زمانے میں کسی دوسرے کے پاس
ممکن ہی نہیں۔
اتناضرورہے کہ اس دن کچھ مشرقی اورکچھ مغربی لوگوں کے دل نرم ضرورپڑتے ہیں
۔اسی دن توہمیں معلوم ہوتاہے کہ شاخِ نازک پربناآشیانہ دیدہ زیب ضرورسہی
مگرناپائیدارہے ۔یہی دن توہیں جوہمیں سمجھاتے ہیں کہ ارے ماں کیلئے ایک دن
نہیں ہوتابلکہ ہرسال‘ہرماہ‘ہرہفتہ‘ہردن‘ہرگھنٹہ‘ہرلمحہ‘ہرساعت ہمیں ماں
کاممنون رہناہے ۔اس کی چاکری کرنی ہے مگرحق پھربھی ادانہ ہوگا۔
ایک جوان نے ایک درویش سے پوچھاکہ ماں کوکندھوں پربٹھاکرحج
کروالایاہوں‘کیامیں نے ماں کاحق اداکردیا؟جواب ملاتو ں تو ایک اُس شب
کاحساب بھی بے باک نہ کرسکاجب یخ بستہ رات کوتیرے پیشاپ والی جگہ پرماں
سوئی اورتجھے خشک بسترپرسلایا۔‘
دونوں تہذیبوں کے مندرجہ بالاحقائق کوسامنے رکھتے ہوئے ہم باآسانی اس نتیجے
پر پہنچے ہیں کہ ’’ماں‘‘کوجورتبہ‘مقام‘عزت‘عظمت‘بڑائی اورشرف اسلام جیسے
فطرتی وابدی مذہب وتہذہب نے بخشاہے اسکی دوسری مثل موجودنہیں کیونکہ باقی
الہامی کُتب کے مقلداپنی حقیقی تہذیب اوراصل متن سے کٹ چکے ہیں۔ہمارے پاک
نبی نے جس خوبصورت‘جامع اورپرکیف اندازمیں ’’ماں‘‘جیسی ہستی کی عظمت کائنات
کوبتلائی ‘دوجہان اس کی مثال لانے سے قاصرہے۔ ا
مادرِ وطن بھی ایک اصطلاح ہے کیونکہ زمین بھی کھانے کیلئے اناج‘رہنے کیلئے
جگہ اوربڑھنے کیلئے قوت فراہم کرتی ہے۔جولوگ اپنی ماں یعنی اپنی زمین سے
دھوکہ کرتے ہیں انھیں آتی نسلیں بھی لعنت ملامت کرتی ہیں اورانکے نام برائی
کی مثال بن جاتے ہیں ۔سینکڑوں برس بیت گئے مگر برصغیرکی زمین نے آج تلک
میرجعفراورمیرصادق کو معاف نہیں کیااورآج بھی کسی بے وفاکاتذکرہ انہی ناموں
سے کیاجاتاہے ۔اورجولوگ مادرِ وطن سے محبت میں اپنی حیات کاسب سے ’’انمول
رتن‘‘پیش کردیتے ہیں انھیں تاریخ سنہری حروف میں لکھتی ہے ۔کیابرعظیم کے
لوگ ٹیپوسلطان شہید اورجھانسی کی رانی کی قربانی کی آج تک قدرنہیں کرتے ؟یہ
وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنی دھرتی ماں کی حفاظت کی خاطراپنالہوتک بہادیا۔ہمیں
چاہیئے کہ وطن سے محبت کریں اوراپنے ملک پاکستان سے کسی شے کو عزیز تصورنہ
کریں۔لفظ ملک کا آغاز بھی ’’میم‘‘سے ہی ہوتاہے۔
’’ماں‘‘کی دعاجنت کی ہوا‘ایسافقرہ ہے جوآج بھی ہمارے ٹرکوں‘رکشوں اورذاتی
سواریوں پر لکھاہوانظرآتاہے۔جو اس بات کابھی ثبوت ہے کہ اس راکھ میں
چنگاریاں موجود ہیں اوریہ تہذیب ابھی زندہ ہے ‘موہنجودڑواورہڑپہ
نہیں۔لفظ’’ماں‘‘پوری کائنات کااحاطہ کرتاہے۔ماں کی دعااثررکھتی ہے چاہے وہ
کسی جانورکی ماں ہی کیوں نہ ہو۔کیاہم تاریخ سے اس واقعہ کوخارج کرسکتے ہیں
کہ ایک غلام زادہ ’’سبکتگین‘‘ایک ہرن کی ماں کی دعاکے سبب بادشاہ بنا۔
شاعرنے سچ ہی توکہاتھاکہ
پھولوں کی خوشبوبہاروں کی برسات ماں ہی توہے
مہک رہی ہے جس سے میری کائنات ماں ہی توہے
سچی ہیں جس کی محبتیں سچی ہیں جس کی چاہتیں
سچے ہیں جس کے پیارکے جذبات ماں ہی توہے
مشکوۃ میں حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ ساقی ء کوثرﷺنے فرمایا:جوشخص
والدین کا فرمانبردار ہواسکے واسطے جنت کے دودروازے کھل جاتے ہیں۔اوراگران
میں سے ایک ہوتوایک۔اورجوبشروالدین کانافرمان ہوتواسکے لیئے جہنم کے
دودروازے کھل جاتے ہیں‘اوراگران میں سے ایک ہوتوایک۔ایک شخص نے عرض کیاخواہ
والدین اس پرظلم کرتے ہوں؟فرمایا:خواہ ‘اس پرظلم کرتے ہوں‘خواہ اس پرظلم
کرتے ہوں‘خواہ اس پرظلم کرتے ہوں۔‘‘
’’ماں‘‘نوماہ بچے کوپیٹ میں رکھتی ہے ‘’’حمل‘‘جس کے معنی بوجھ اُٹھانے کے
ہیں‘پھردودھ پلانا‘پرورش یہ کٹھن مراحل ممتاکے بغیرممکن ہی نہیں۔سیدناعلی
ؓفرماتے ہیں کہ :نعمت جب پاس ہوتومجہول ہوتی ہے جب کھوجائے تومعلوم ہوتی
ہے۔اسی طرح ’’ماں‘‘کی اصل قدران لوگوں کومعلوم ہے جن سے یہ ساگرچھن چکاہے
اورانکی تشنگی کااب قیامت تک کوئی سدباب نہیں‘جن سے یہ سایہ چھن چکاہے
اوروہ ائیرکنڈیشنڈروم میں بھی تپش محسوس کررہے ہیں۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن
کی جنت اس دنیامیں انکے پاس ہے انھیں چاہیئے کہ مادرڈے ضرورمنائیں لیکن
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس جنت سے حقیقی فائدہ اُٹھائیں اوراولڈہاؤسز
والی تہذیب کی غیراخلاقی سرگرمیوں کودھتکاردیں۔
سائیڈسٹوری
’’ماں‘‘
میری والدہ کواس دنیاسے گزراے ہوئے طویل عرصہ بیت چکاہے لیکن جب اسکی
یادآتی ہے تومحسوس ہوتاہے کہ وہ کام میں مصروف ہے۔آرہی ہے جارہی ہے۔ڈانٹ
ڈپٹ رہی ہے سمجھارہی ہے مسکرارہی ہے میری ماں کافانی جسم منوں مٹی کے نیچے
چلاگیالیکن ممتازندہ رہی اوروہ اس وقت تک نہیں مرسکتی جب تک میری سانسیں
باقی ہیں(جی کنگ)۔
آسمان کابہترین اورقیمتی تحفہ ماں ہے۔(ملٹن)
ماں کے مختصرلفظ میں کتنی وسیع دنیاپوشیدہ ہے(کہاوت)
ماں ‘باپ کی مسرتیں اورخوشیاں پوشیدہ ہوتی ہیں اوروہ اپنے غموں اوراندیشوں
کابھی اظہارنہیں کرتے ۔(بیکن ‘دی فادرآف انگلش essay)
ماں کی عظمت کااحساس مسرت اورخوشی میں زیادہ ہوتاہے۔(نپولین بوناپارٹ)
ماؤں کی خوبصورتی ان کی محبت میں ہوتی ہے ۔میری ماں دنیاکی خوبصورت ماں
ہے۔مولانامحمد علی جوہر
|