عوام شدید بے چینی اور اضطراب میں ہے،انہیں اندازہ نہیں
ہو پاتا کہ غلطی کہاں پر ہے……؟ہر کسی کی بانسری دوسرے کو غلط کہنے کی راگنی
الاپتی ہے، اپنے گریبان میں جھانکا نہیں جاتا کہ خود ان کی صفوں میں کون
کون مفاد پرست، خود غرض اور بے حس ہے، آستین کے ان سانپوں نے کبھی عوام کا
اور نہ ہی ملک کا بھلا ہونے دیا، یہ کسی کے سگے نہیں ہیں ،انہیں غرض ہے تو
صرف اپنے مفادات سے ہے،اُس کے لئے وہ اپنے ملک ،عوام،انسانیت ،عزت و وقار
الغرض ہر چیز کو داؤ پر لگانے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔موجودہ دور میں
ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی پیداوار بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اور مزید تیزی سے
بڑھ رہی ہے،یہ ایک وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے۔
کسی بھی شعبہ ہائے زندگی پر نظر دوڑائیں ، ایسے لوگوں کی تعداد میں بتدریج
اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔عوام روز بروز مسائل میں گھرتے چلے جا رہے ہیں
،ان کے لئے نان جویں کا مسئلہ ہی سوہان روح بن چکا ہے۔وہ کبھی تو خود ہی
پھانسی پر جھول جاتے ہیں اور کبھی بیوی ،بچوں کو خود اپنے ہاتھوں سے مار کر
اپنی زندگی کا خاتمہ کر کے ان ابن الوقتوں کے غلام معاشرے سے جان چھڑا لیتے
ہیں ،اس کے باوجود ان کی جانب کسی کی توجہ نہیں ،جس کو جو موقع مل رہا ہے،
اُسے ذاتی مفاد کے لئے بھر پورطریقے سے استعمال کر رہا ہے،کیونکہ ہمارے
اندر انسانیت اور اخلاقیات جیسی خصوصیات نا پید ہو چکی ہیں۔آپ صحت کے شعبے
کو دیکھ لیں،بیماری انسان کے لئے حساس ترین مسئلوں میں سے ایک ہے،کیونکہ
صحت سب سے قیمتی چیز ہے، جب زندگی ہی نہیں ہو گی تو باقی معاملات سے کسی کو
کیا غرض رہ جاتی ہے ۔اگر کسی کا اپنا عزیز موت کی کشمکش میں مبتلا ہو گا
اور وہ صرف ادویات میسر نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا جائے،تو
سوچئے اس پر کیا گزرے گی……؟ ہسپتالوں میں ہر روز ایسا سینکڑوں نہیں،بلکہ
ہزاروں لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے،یہی غریب اور بے سہارا لوگ جب اشرفیہ کو
بڑے بڑے پرائیویٹ ہسپتالوں اور بیرون ممالک میں علاج کی غرض سے جاتے ہوئے
دیکھتے ہیں تو ذہنی بے چینی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ملک کے چاروں صوبوں میں پنجاب وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف کی سربراہی
میں بظاہر توبہترین کارکردگی دکھا رہا ہے،ان کی شدید خواہش ہے کہ وہ ملک کو
اس بد ترین صورت حال سے نکال سکیں،مگر صرف خواہش کرنے سے تو مسائل حل نہیں
ہو سکتے ۔اس کے لئے عملاً بہت کچھ کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔یہاں بھی صحت کے
معاملے میں خستہ حالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، دوسرے صوبوں کا اندازہ
لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔80فیصد سے زیادہ لوگ اپنی صحت کے معاملے میں
بالکل غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہیں،لیکن وہ بھی کیا کریں ،انہیں معاشی
اور دیگرمسائل نے ایسا گھیر رکھا ہے کہ وہ صحت کے معاملات پر توجہ دینے کے
قابل ہی نہیں ہیں۔ہمارے ہاں مڈل کلاس طبقہ ختم ہو چکا ہے، غریب غریب تر اور
امیر امیر تر ہو رہا ہے،غریب بیمار بھی زیادہ ہوتا ہے، ان کے لئے حکومت نے
سوشل سروسز سنٹر کا انتظام کر رکھا ہے،یہ ایک اچھاحکومتی قدم تھا،جہاں غریب
اور مستحق لوگوں کو مفت ادوایات دی جاتی ہیں،یہ ادارے محکمہ زکوٰۃ و عشر کے
زیر نگرانی چلائے جاتے ہیں،مگر ان اداروں میں بھی تسلسل نام کی کوئی چیز
نہیں ہے۔ چند مریضوں کو کچھ سستی ادویات پر ٹرخا دیا جاتا ہے، جبکہ بے شمار
لوگ خالی ہاتھ ہی واپس جانے پر مجبور ہو تے ہیں،اس بات کا خیال رہے کہ
ہمارے ملک میں زکوٰۃ کسی طور پر کم اکٹھی نہیں ہوتی ۔اگرزکوٰۃ و عشر کے
محکمے سے کرپشن ختم کر دی جائے تو غریب اور مستحق لوگوں کے بہت سے مسائل حل
ہو نے میں کوئی دشواری نہ رہے گی،لیکن اس محکمے کی کرپشن کی داستانیں چیخ
چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ غریب کا حق کیسے مارا جا رہا ہے،مگر حکومت وقت ٹس سے
مس نہیں ہوتی۔ہسپتالوں میں ادویات کے حصول کے لئے آنے والے سینکڑوں بے بس ،
غریب مریضوں کو مایوس لوٹنا پڑتا ہے، مختلف جان لیوا بیماریوں میں مبتلا
مریض مہنگی ادویات خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔میڈیکل سوشل سروسز سنٹر میں
تھیلیسیمیا اور گردوں وغیرہ کے رجسٹرڈ مریض، جن میں بچے بھی شامل ہیں ،ان
کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ہسپتالوں کی خستہ حالی، وہاں کی بے کار
مشینری سب کو واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔مریضوں کے لواحقین ڈیوٹی پر موجود
ڈاکٹروں کے گریبان پکڑ رہے ہوتے ہیں ،انہیں گالی گلوچ سے نواز رہے ہوتے
ہیں،لیکن ڈاکٹر اپنی جگہ مجبور ہوتے ہیں ،وہ انہیں کیا سمجھائیں کہ جہاں
مریض کے ٹیسٹوں کا انتظام نہ ہو،ادویات موجود نہ ہوں،ضروری آلات نہ ہوں
،آپریشن تھیٹر کے حالات تشویش ناک ہوں ،مشینری بیس سال پرانی ہو اور وہ بھی
کام نہ کر رہی ہو،حکومت کی جانب سے کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہو ،ایم ایس
صاحبان صرف اپنی نوکری بچانے اور تعلقات بنانے میں مصروف ہوں ،وہاں اچھے سے
اچھا ڈاکٹر کیا کرے گا!جہاں ڈاکٹر اپنے مسائل میں گھرا ہوا ہے، اسے ایک
کلرک سے بھی کم تنخواہ ملتی ہے، اسے دیگر سہولتیں بھی میسر نہیں ، ملک کے
انتہائی ذہین لوگوں کے ساتھ ایسا گھناؤنا سلوک کیا جاتا ہے جس کی مثال نہیں
ملتی ۔حکمرانوں سے ایسی صور ت حال کے حوالے سے پوچھا جائے تو بجٹ نہ ہونے
کا رونا روتے ہیں،جس ملک میں صحت کا بجٹ انتہائی کم ترین ہو اور اس میں سے
بھی 80فیصد کرپشن کی نذر ہو جائے ،پھر نتیجہ تو ایسا ہی ہو گا۔
ایسے حالات کو دیکھ کربعض اوقات تو وزیر اعلیٰ بھی جھنجلا جاتے ہیں کہ
اربوں روپے کی سالانہ مفت ادویات ہسپتالوں میں بھیجی جاتی ہیں،مگر وہ عوام
تک نہیں پہنچ پاتیں،اس کے علاوہ ملک میں جعلی ادویات بھی عام ہیں،جو سرکاری
ہسپتالوں میں دے کر خانہ پُری کر دی جاتی ہے،یہ مافیا اتنا مضبوط ہے کہ اسے
پکڑے جانے کا کوئی خطرہ نہیں ، قصور کس کا ہے؟یہاں حکومت ،انتظامہ برابر کی
قصور وار ہیں۔عوام حکومت کو ٹیکس کی مد میں رقم دیتے ہیں، حکومت عوامی پیسے
کی حفاظت کی ذمہ دار ہے ،اسے اس معاملے میں امین ہونا چاہئے ، ایک ایک پیسے
کا حساب رکھنا اس کی اولین ذمہ داری ہے۔اگر کوئی بھی اس رقم کو خورد برد
کرنے کا سوچے تو اس کو عبرت کا نشان بنا دینا بھی حکومت کا کام ہے،لیکن
حکومت نہ تو عوامی پیسے کی محافظ بنی ہے، نہ امین اور نہ ہی اسے لوٹنے
والوں کو سزا دے سکی ہے، اُن کی تمام تر توجہ ذاتی معاملات اور اپنے اقتدار
کو بچانے کی جانب رہتی ہے۔ملک کو معاشیاتی بحران سے نہیں بلکہ اخلاقی پستی
سے انتہائی نقصان ہوتا ہے،ہم ایسی ہی اخلاقی پستی میں گر چکے ہیں،جہاں
انسان کی جان کی قیمت ایک کوڑی کی نہیں رہی ،ہم اپنی عیاشیوں اورخواہشات کے
اس قدر غلام بن چکے ہیں کہ غریب بچوں اور بوڑھوں کا حق مارتے ہوئے ہمیں
قطعاً شرم نہیں آتی۔ہم نے تو یہ سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے کہ ہماری ان حرکتوں
سے نہ ہمیں دنیا میں سکون ملے گا اور نہ ہی آخرت میں چین ملے گا۔ ہم تمام
باتوں کو جانتے ہوئے بھی آنکھیں بند کر لیتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس
نہج پر کھڑے ہیں ،جہاں سے نکلنا ایک خواب تو ہو سکتا ہے، حقیقت نہیں۔ |