ہاں ٹھیک ہے وزیراعظم صاحب، واقعی یہ منہ اور مسور کی دال
والے اپوزیشن کی جماعتوں کے رہنماوزیراعظم کو اپنی مرضی سے بھلا کیوں اور
کیسے گھر بھیج سکتے ہیں..؟؟ وزیراعظم کو پانامالیکس یا پاجامہ لیکس پر صرف
قانون اور قانون ہی گھر بھیج سکتاہے وہ بھی اِس طرح جب وزیراعظم قانون کے
کٹہرے میں آئیں اور اپنی صفائی پیش کریں اگر قانون کے نزدیک وزیراعظم کی
پیش کردہ صفائی درست نہ ہوئیں تو پھر قانون ہی فیصلہ دے گاکہ اِنہیں کس طرح
اور کب گھر جاناچاہئے؟؟؟ ورنہ نہیں، یہ تو وزیراعظم نوازشریف بھی جانتے ہیں
کہ حکومتی ٹی اوآرز پر اپوزیشن جماعتوں کو تحفظات ہیں تو چلیں وزیراعظم ہی
بڑے دل کا مظاہرہ کریں اور اپوزیشن جماعتوں کے پیش کردہ ٹی اوآرز کی روشنی
ہی میں ایساجامع اور مفصل اور مشترکہ ٹی اوآرز تشکیل دیں اور پاناما
انکشافات پر جوڈیشنل کمیشن تشکیل دیں ،اور قانون سازی بھی اپوزیشن کی
مشاورت سے کی جائے اور صاف وشفاف احتساب کا آغاز اپنی ذا ت اور اپنی فیملی
سے کرکے مُلکی تاریخ میں ایک نئی تاریخ رقم کرکے امر ہوجائیں ۔
آج یہ توسب ہی جانتے ہیں کہ اِن دِنوں مُلک میں پاناماپیپرز لیکس نے سیاسی
ماحول کو گرمارکھاہے حکومت دامن بچاکر نکل بھاگنے کے چکرمیں لگی پڑی ہے تو
دوسری جانب اپوزیشن ہے کہ جو حکومت کا دامن چھوڑنے کا نام نہیں لے رہی ہے
الغرض یہ کہ ابھی پچھلے ہی یعنی کہ پاناماپیپرزلیکس کی آنے والی پہلی ہی
قسط پر حکمرانوں کے چہرے اُترے اور اپوزیشن کے سینے تنے ہوئے ہیں تو ایک
خبر یہ بھی آگئی ہے کہ9مئی 2016کو پاناماپیپرزلیکس اپنی دوسری قسط کا بھی
بڑازورداردھماکہ کرنے والی ہے ،اطلاعات کے مطابق نو مئی کو جاری ہونے والی
پاناماپیپرزلیکس کی فہرست میں لگ بھگ 400یا زائدپاکستانی سیاستدان اور
کاروباری افراد کے نام آشکارکئے جارہے ہیں اِس فہرست کے عیاں ہوتے ہی ایک
مرتبہ پھر مُلک میں تہلکہ مچ جائے گااور بہت سے آف شور کمپنیوں کے مالکان
اپنے خفیہ اعمال ناموں کے ساتھ قوم کے سامنے آجائیں گے اَب نو مئی کو کیا
ہونے والاہے ؟؟ آئیں اِس کا انتظارآپ بھی بے چینی سے کریں اور میں بھی
کرتاہوں۔
ویسے ایک بات یہ ضرورہے کہ جس طرح بُرے سے بُرے شخص کے بھی کچھ کام اچھے
ہوتے ہیں یکدم اِسی طرح ہرزمانے کی ہرتہذیب کے ہر مُلک و معاشرے کے
حکمرانوں اور سیاستدانوں کے سارے کام غلط نہیں ہوتے ہیں یقینااِن کے کچھ
کام ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی یہ لوگ اپنے اپنے اندازسے مالا جپتے ہیں اور
پھراِسی بنیاد پر یہ سیاسی کھلاڑی عوام کو بیوقوف بھی بناتے رہتے ہیں یہاں
میں اپنی اِس بات کو مزید سمجھانے کے لئے یہ کہناچاہوں گاکہ یہ تو زمانے کے
حکمرانوں اور سیاستدانوں کی خاص خصلت میں شامل ہے کہ اِن سے جب کبھی (مزاقاََخدانخواستہ
غلطی سے یا )کسی اور وجہ یا ذرائع سے ایک آدھ اچھاکام سرزد ہوجائے تو پھر
یہ اپنے ا چھے کام یا کاموں کو تاحیات کیش کراتے رہتے ہیں اور اِسی بنیاد
پر اپنی سیاست چمکاتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں یعنی کہ حکمرانوں اور
سیاستدانوں سے جب کبھی غلطی سے کوئی کام اچھاہوجائے تو پھر وہ اپنی ساری
سیاسی زندگی اِسی کے گن گاتے پھر تے ہیں اور عوام کو اپنا گرویدہ بنائے
رکھتے ہیں آج تک بدقسمتی سے میرے دیس پاکستان میں بھی ماضی اور حال کے
حکمران اور سیاستدان یہی کچھ کرتے آئے ہیں اور لگتاہے کہ یہ مستقبل میں بھی
ایسا ہی کریں گے ۔
شیکپئیرکا کہنا ہے کہ ’’ جو لوگ حکمرانی کے اندازنہیں جانتے اِنہیں اطاعت
کرنے کا ڈھنگ سیکھ لیناچاہئے‘‘تاہم آج اگرہم اپنے موجودہ سیاسی ماحول کا
جائزہ لیں توہیں یہ ضرور لگے گااور محسوس ہوگاکہ ہمارے حکمرانوں اور
سیاستدانوں کو شیکپئیر کے اِس قول کو سمجھنے اوراِس پرفوری عمل کرنے کی اشد
ضرورت ہے،جب تک یہ اِس پر غور وفکر نہیں کرلیتے اِنہیں مثالی حکمرانی کے
انداز سے محروم ہی رہنا پڑے گا۔
جبکہ آج مُلکِ پاکستان کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی خصلت اُس کسان کی طرح
ہے جو ہلکی پھلکی محنت و مشقت کے بعد اپنی فصل کو پروان چڑھانے کے لئے بارش
کی دُعائیں مانگتاہے جبکہ دوسری طرف مُلک کے موجودہ گرماگرم سیاسی ماحول
میں پریشان حال اپوزیشن والوں کی حیثیت اُس ملاح جیسی ہے جو بارش کے لئے
دُعائیں مانگنے والے کسان کو بددُعائیں دیتے ہیں ۔اَب اِن دونوں باتوں کی
روشنی میں ، میں اِس نتیجے پر پہنچاہوں کہ دونوں جانب سے بہت کچھ ایسا ضرور
ہے جس کی وجہ مُلک کا سیاسی درجہ حرارت بڑھتاہی جارہاہے اور آنے والے دِنوں
میں لگ پتہ جائے گاکہ سیاسی ہیٹ اسٹروک کا کس پر کتنااثرہوتاہے؟؟ اور کون
سیاسی ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے اپنا سیاسی مقام زمین بوس کردے گا؟؟ اِس موقع
پر بس ایک بات یہ ضرورکہناچاہوں گاکہ حزبِ اقتداراور حزبِ اختلاف دونوں
جانب کے لوگوں میں اتنی قابلیت ضرورہونی چاہئے کہ یہ موجودہ سیاسی گرماگرمی
میں سیاسی ہیٹ اسٹروک سے بچنے کے لئے اپنی اپنی صفوں میں اتحاد پیداکریں
اور صفو ں کی تعدادبھی بتدریج بڑھاتے جائیں تو سیاست بہتر رخ اختیارکرسکتی
ہے ورنہ دونوں جانب کے لوگوں کے ہاتھ سوائے وقت کے ضیائع کے کچھ نہیں آئے
گا۔
تاہم گزشتہ دِنوں وزیراعظم نوازشریف نے ارکان قومی اسمبلی سے الگ الگ
ملاقاتوں کے دوران اظہارِخیال کرتے ہوئے یہ ضرور کہاہے کہ’’کچھ لوگ حکومت
پرناجائز تنقیدکرکے ہمیں ترقی کے سفرسے ہٹاناچاہتے ہیں، ایسے لو گ اپنے
مقاصدمیں ناکام ہوں گے، اپوزیشن 2018تک نہیں اِ س کے بعد بھی صبر کرے،ہم آپ
کے کہنے سے گھر چلے جائیں، یہ منہ اور مسور کی دال، اُن کو نہیں پتہ کہ اُن
کا کن سے واسطہ پڑگیاہے، وزیراعظم نے ضروررت سے زیادہ سخت لب و لہجہ
اختیارکرتے ہوئے کہاکہ چند لوگوں نے کرپشن کا شورمچایا تو ہم نے انکوائری
کے لئے کمیشن بنادیا اِس کی رپورٹ چندروز میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی
ہوجائے گا، چندضدی اور نادان دوستوں اور چند مصالحت پسندی کا مظاہرہ کرنے
والی اپوزیشن جماعتوں کے شورمچانے ، احتجاج اور افراتفری کے ماحول سے
سرمایہ کاری نہیں آتی، حکومت کا اصل مقصدتو عوام کو ریلیف دینا(مگر
وزیراعظم صاحب، آج ایسانہیں ہورہاہے، جیساکہ آپ فرمارہے ہیں، پیٹرولیم
مصنوعات کی قیمتوں میں اونٹ کے منہ میں زیرہ جتنی کمی جوکی گئی تھی اِس میں
پندرہ روز میں دوسری مرتبہ پھر یکم مئی 2016سے بے تحاشہ اضافے کا اعلان
متوقعہ )ہے اورآپ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ہم اِس طرح ہماراکام عوام کی خدمت
کرناہے، (کیااِسے آپ اپنی حکومت میں غریب عوام کے لئے خدمت کہتے ہیں جس میں
جب کبھی بھولے سے پیٹرولیم منصوعات میں کمی واقع ہوجائے تو مُلک کے غریب
عوام کو پھر بھی روزمرہ کی استعمال کی اشیائے ضرورت دال ، چاول ، چینی ،
گھی ، آٹااور دودھ مہنگے ہی داموں خریدنے پڑتے ہیں وزیراعظم صاحب کیااِسے
آپ غریب عوام کی خدمت کہتے ہیں اگرآپ کو میرے کہے پر یقین نہ آئے توپھر روپ
بدل کر کسی روزبازارجائیں خود کو حقیقت معلوم ہوجائے گی)اگر اِسے آ پ اپنی
حکومت میں غریب عوام کی خدمت گردانتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے وزیراعظم صاحب، آپ
اُوپر کی جانب درست سمت میں اور مُلک کے غریب اور مہنگائی کے مارے نیم مردہ
جسموں کے ساتھ عوام مہنگائی کے ہاتھوں زندہ درگورہوکر نیچے قبر کی طرف
جارہے ہیں ۔
بہر حال ،گزشتہ دِنوں پاناما پیپر لیکس پر اپوزیشن جماعتوں کا اپنی نوعیت
کا ایک انتہائی اہم نوعیت کا اجلاس اعتزاز احسن کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا
جس کی دونشتیں لگیں مگر اِس کے باوجود بھی کوئی ایسافیصلہ نہیں ہوسکاجو
ملکی سیاست میں تاریخ ساز ہلچل کا باعث ہوتااور موجودہ حکومت ہل جاتی اگرچہ
،اِس اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، مسلم لیگ
ق، اے این پی، ایم کیو ایم،قومی وطن پارٹی اور بی این پی عوامی نے شرکت کی،
اجلاس میں مشترکہ طور پر جن اپوزیشن کی جماعتوں نے بلا کسی جھجک وزیراعظم
نوازشریف سے استعفے کا مطالبہ کیااِن میں پاکستان تحریک انصاف، پاکستان
پیپلزپارٹی،ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ق سرفہرست تھی جبکہ
وزیراعظم سے پانامالیکس کے معاملے پر استعفے ٰ کا مطالبہ کرنے سے اے این
پی،قومی وطن پارٹی اور بی این پی عوامی ہچر مچر کا مظاہرہ کیا ہے یعنی کہ
اِس اجلاس کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ اپوزیشن کی جماعتیں وزیراعظم سے
استعفے کے معاملے پر بٹ گئی ہے۔
جبکہ آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاناماپیپرزلیکس نے ن لیگ کی حکومت کی
کشتی میں سُوراخ کردیاہے اور اَب ن لیگ کی حکومتی کشتی ڈوبنے کو ہے ،کشتی
کا ناخدا(وزیراعظم نوازشریف اپنے اور اپنی فیملی ممبران پر) لگنے والے
الزامات کی صفائی پیش کرنے سے تو قاصردکھائی دیتاہے مگراِس کے باوجود بھی
حکومتی کشتی میں سوارحکومتی چیلے درباری ٹائیں تائیں کرتے ہوئے کشتی کو
ڈوبنے سے بچانے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں جبکہ یہ بھی سب ہی جانتے
ہیں آج اگر غیرجانبدارای اور بغیر کسی سیاسی دباؤ اور ذاتی و کاروباری
مصالحتو ں اور مفاہمتی ضروریات کے بغیر صاف و شفاف تحقیقات کی گئی
غیرجانبداری سے احتسابی عمل کیا گیاتوپھر اُمید ہے کہ اِس تحقیقات اور
احتسابی عمل کے بعدجو نتیجہ سامنے آئے گا وہ یہی ہوگا کہ وزیراعظم
پاناماپیپرزلیکس پر اپنی قدر کھوچکے ہیں اوراَب وہ بحیثیت وزیراعظم پاکستان
نہیں رہے ہیں ۔ |