بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی جو کہ
پاکستان کے قلب وجگر اور مرکزی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع ہے میں ایک
طویل عرصہ سے فرقہ واریت کو فروغ دینے کی کوششیں جاری ہیں اور اس سلسلہ میں
آئے روز ملک کے چھوٹے بڑے اخبارات میں شہ سرخیاں شائع ہوتی رہی ہیں ۔ملک
پاکستان میں دہشت گردی و انتہاپسندی کے خاتمے کے لئے ملک کی فوج بہادری و
جواں مردی سے اگلے مورچوں پر قربانیاں دے رہی ہے جبکہ دسری جانب عین اسلام
آباد کے وسط میں واقع اسلامی یونیورسٹی کی انتظامیہ اور اساتذہ ضرب عضب کی
کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کرنے کے لئے فرقہ پرستی کے ذریعہ کوشاں
ہیں۔بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش اور ان
کے معاون خصوصی عبداﷲ فیفی( جوکہ عملی طور پر یونیورسٹی کے منتظم ہیں) کے
ایماء پر یونیورسٹی میں مخصوص مسلک و فرقہ اور قوم کو ترقی و اختیار دینے
کے ساتھ ساتھ ان پر سعودی ریالوں کی بارش بھی کی جارہی ہے۔اس سلسلہ میں
متعدد پاکستان کے اساتذہ بھاری بھر ریالوں اور کرسی کو حاصل کرنے کے لئے
عبداﷲ فیفی کے اس مجرمانہ عمل (جوکہ ملک پاک کو خاک و خون میں لت پت
کرسکتاہے )میں معاونت کررہے ہیں جن میں کلیہ اصول الدین کے ڈاکٹر ہارون
الرشید ،ڈاکٹر عارف ،عبدالوہاب جان ، پروٹوکول آفیسر حافظ عابد مسعود اور
صدر جامعہ کے ایڈوائزر ڈاکٹر عزیز الرحمن شامل ہیں۔کلیہ اصول الدین کے طلبہ
کا مطالبہ ہے کہ وہ یونیورسٹی میں اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئے ہیں
جبکہ یہاں پر فرقہ واریت و انتہاپسندی کی تعلیم دی جارہی ہے جس سے ناصرف
ہمارا بلکہ ہمارے ملک کا مستقبل داؤپر لگتا نظر آرہاہے۔یاد رہے کہ اصول
الدین فیکلٹی کے طلبہ میں منافرت پر مبنی لٹریچر دوران کلاس تقسیم ہوتاہے
اسی کے ساتھ ہی ملک پاکستان کی مجموعی اکثریت ایک فرقہ کے زیر اثر کرنے کی
خاطر خالص سلفی فکر و نظریات کی عکاسی پر مبنی لٹریچر کی طباعت و اشاعت کا
کام بھی جاری ہے۔ڈاکٹر ہارون الرشید ،ڈاکٹر عارف اور عبدالوہاب جان اصول
الدین فیکلٹی کے مخصوص مکتبہء فکر کے طلبہ کی مالی امداد کررہے ہیں اور ان
میں فرقہ وارانہ لٹریچر بھی تقسیم کرتے ہیں۔جیساکہ آپ جانتے ہیں اسلامی
یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی واضح اکثریت کسی بھی قسم کی
سیاسی و مذہبی ،لسانی و قومی اور قبائلی عصبیتوں کو پسند نہیں کرتی مگر ان
پر حصول تعلیم کے مراحل کو سیاسی و مذہبی اور دیگر غیر قانونی و غیر اخلاقی
سرگرمیوں کی وجہ سے مشکل تر بنادیا گیا ہے ۔یہاں اس امر سے بھی مطلع کرنا
ضروری سمجھتاہوں فرقہ واریت و دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرنے کے نتیجہ
میں مجھ پر قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا ہے اور مجھے خدشہ ہے کہ اسلامی
یونیورسٹی میں موجود انتہاپسند مجھے قتل کردیں گے ۔میں بحثیت محب وطن کے
آرمی چیف جنرل راحیل شریف صاحب،چیف جسٹس صاحب ،وزیر اعظم پاکستان،صدر
پاکستان،وزیرداخلہ پاکستان،قانون نافذ کرنے والے اداروں سے دردمندانہ اپیل
کرتاہوں کہ وہ اسلامی یونیورسٹی کی بگڑتی صورتحال پر فی الفور ایکشن لیں
اور انتہاپسندی و فرقہ پرستی کو ہوادینے کی مدد کرنے والے اساتذہ و طلبہ کے
خلاف کارروائی کریں تاکہ ملک پاک سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دہشت گردی و
انتہاپسندی کے ساتھ ان کی معاونت کرنے والے افراد کا خاتمہ ہوسکے۔ |