نواب عبدالوہاب خان۔کرنول
(Ahmed Nisar Syed, India)
|
بھارت کی آزادی کے بعد جنوبی ہند میں
ایک ریاست تھی آندھرا راشٹر ، اس کا دارالخلافہ شہر کرنول تھا۔ لیکن بعد
میں متحدہ آندھرا پردیش کا قیام ہوا تو شہر حیدرآباد کو دارالحکومت بنایا
گیا۔ 2014 میں آندھرا پردیش پھر سے تقسیم ہوا۔ اس نئی ریاست آندھرا پردیش
میں شہر کرنول واقع ہے اور علاقۂ رائل سیما کا ایک بڑا شہر مانا جاتا
ہے۔کرنول کو ’’ گیٹ وے آف آندھرا پردیش ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اس شہر کی تاریخ یہ کہتی ہے کہ سولھویں صدی میں وجئے نگر سلطنت کے ماتحت
رہا۔ اس صدی کے آخری دور میں اراویڈو خاندان نے حکومت کی تھی۔ بیجاپور
سلطنت اوروجئے نگر سلطنت کے آخری راجا، اراویٹی گوپال راجو (Araveeti Gopal
Raju) کے درمیان جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں بیجاپور سلطنت کی فوج کے سپہ سالار
عبدالوہاب خان تھے۔ اس جنگ میں گوپال راجو اپنے ساتھی آنے گونڈی، غنی، اور
پینوکونڈہ کے راجا کی مدد سے عبدالوہاب سے جنگ کی ۔ گوپال راجو اور ساتھیوں
کی طاقت کے آگے عبدالوہاب خان کمزور پڑگئے اور انہیں میدان جنگ چھوڑ کر
بھاگنا پڑا ۔ وہاب خان کا کرنول قلعہ پر قبضہ کرنے کا خواب ادھورا رہ گیا۔
وہاب خان دوبارہ اپنا معرکہ جاری رکھا، اس مرتبہ گوپال راجو کو اپنے دوستوں
سے کسی طرح کی مدد نہ ملی، تنہا جنگ کرنی پڑی، اس بار وہاب خان کی فوج کا
پلڑا بھاری رہا اور گوپال راجو کو شکست ہوئی۔ نواب عبدالوہاب کامیاب رہے
اور کرنول قلعہ پر قبضہ کیا، اس طرح عبدالوہاب خان کا خواب پورا ہوا۔
بیجاپور کے سلطان، عبدالوہاب کی جوانمردی اور کامیابی پر بطور تحفہ
عبدالوہاب کو نواب کرنول کا منسب دیا، اور کرنول علاقہ کا گورنر بھی بنایا۔
نواب عبدالوہاب خان 17 ویں صدی کی شروعات میں عہدہ سنبھالا، اور مسلسل 16
سال تک حکومت کی۔ ان کا دور حکومت، کرنول کی تاریخ میں کافی اہم مانا جاتا
ہے۔ 1686 ء میں اورنگزیب عالمگیر کا نمائندہ داؤد خان پنی عبدالوہاب کے
خاندان کو جنگ میں شکست دے کر کرنول پر قبضہ کرلیا۔ داؤد خان پنی کا خاندان
کرنول پر 1839ء تک حکومت کیا، جس میں آخری نواب غلام رسول خان تھے۔ اس کے
بعد انگریزوں نے اُس دور کے نواب غلام رسول خان کو شکست دے کر کرنول پر
قبضہ کر لیا۔ اس طرح کرنول کئی سلطنتوں اور حکومتوں کے زیر اثر رہا۔
شہر کرنول میں نواب عبدالوہاب خان کا مقبرہ، نواب بنگلہ، قلع کا برج قابل
دید مقامات ہیں۔
اش شہر میں عثمانیہ کالج کے قریب ایک مقبرہ ہے جسے گول گمج، گولِ گمہ، گولے
گنبد بھی کہتے ہیں۔ ویسے مشہور گول گنبد شہر بیجاپور میں واقع ہے۔مگر یہ
گول گمہ نواب عبدالوہاب خان کا مقبرہ ہے۔ یہ مقبرہ، شہر کے راج وہار
چوراستہ کے روبرو راستے سے گذرنے پر ملتا ہے۔ یہ مقبرہ ہندری ندی کے کنارے
واقع ہے۔ اس مقبرے کی تعمیر وہاب خان کی وفات کے بعد 1618 میں ہوئی۔ اس
400سالہ پرانی عمارت میں، دو گنبد، تین سحن، پانچ کمان ہیں۔ انڈو اسلامک
طرز تعمیر پر بنا یہ مقبرہ شہر کرنول میں نوابوں کی حکومت کی داستان سناتا
ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کے ماتحت اس مقبرہ کی دیکھ بھال بھی تسلی بخش مانی
جارہی ہے۔ اس مقبرے کو خوبی کے ساتھ سجا کر سیاحوں اور عوام کے لیے رکھا
گیا ہے۔حال ہی میں محکمہ آثار قدیمہ نے اس کی مرمت بھی کروائی اوراس عمارت
کو خوشنما بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس علاقہ میں مسلمانوں کی حکومت
کے ورثے کی شکل میں موجود یہ مقبرہ سلطنت بیجاپور کی وسعت اور آندھرا پردیش
میں مسلمانوں کے استحکام کا گواہ بنا نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ کرنول میں
نواب کا بنگلہ بھی کافی مشہور مانا جاتا ہے۔ اسی شہر کی سرحدوں پر بناگانا
پلی نوابوں کا ورثہ بھی قابل دید ہے۔
(تصاویر : بشکریہ ویکی پیڈیا، سید ۔ین۔ برید) |
|