چناب کہانی

دریائے چناب پاکستان کے وجود میں خون کی صورت دوڑتے پانی کی ایک ایسی شہ رگ کہ جسے دشمن بھارت روز اول سے سب سے زیادہ دبا رہا ہے۔ کہنے کو تو چناب کا لفظ ’’چن‘‘ یعنی چاند اور ’’آب‘‘ یعنی پانی سے مشتق ہے لیکن بدطینت بھارت کے ہاتھوں اس کے چاند جیسے پانی والے دریا میں کبھی خشکی کی چاندی اتر آتی ہے تو کبھی یہ یوں بہہ نکلتا ہے کہ اپنے ہی پیاروں اور پیاسوں کو غرقاب کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ دنیا کی 10 بلند ترین چوٹیوں میں سے 9 چوٹیاں رکھنے والے پہاڑی سلسلے کوہستان ہمالیہ سے نکلنے والا یہ دریا دوچھوٹے پہاڑی دریاؤں چندرا اور بھاگا کے ملاپ سے اس وقت تشکیل پاتا ہے جب یہ ہمالیہ کے اس سلسلے میں ٹنڈی کے مقام پر باہم مل جاتے ہیں۔ ٹنڈی بھارتی ریاست ہماچل پردیش کے ضلع لاہول میں واقع ہے۔ دریائے چناب ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے سے گزرتا ہوا مقبوضہ جموں سے ہو کر سیالکوٹ کے شمال سے پاکستان میں داخل ہو جاتا ہے۔ سیالکوٹ میں مرالہ ہیڈ ورکس سے بہت بڑی نہر اپرچناب نکال کر وطن عزیز کو سیراب کرنے کا اہتمام ہوتا ہے اور اپرچناب سے نکلنے والی ایک نہر بی آر بی (بمبانوالہ راوی بیدیاں) بھارت کے خلاف دفاع بھی مہیا کرتی ہے۔

960کلومیٹر لمبائی رکھنے والا یہ دریا جھنگ میں واقع ہیڈ تریموں سے دریائے جہلم کو اپنے دامن میں سمیٹ کر آگے بڑھتا ہے تو اس کا سامنا بھارت کی جانب سے پانی کی مکمل بندش کے باعث خشکی سے لبریز ’’دریائے‘‘ راوی سے بھی ہوتا ہے۔ پھر اوچ کے مقام پر بھارت کا مارا دوسرا خشک دریا یعنی ستلج اس سے ملتا ہے تو پنجند تشکیل پاتا ہے۔ آگے چل کر پھر مٹھن کوٹ کے مقام پر یہ دریائے سندھ سے جا ملتا ہے۔ دریائے راوی اور دریائے ستلج بھارت کی جانب سے اس لئے خشک ہیں کہ 19ستمبر 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کے نتیجے میں یہ دریا بھارت کے حصے میں آئے تھے تو اس نے ان دونوں دریاؤں کا پانی مکمل طور پر بند کر کے آبپاشی کے لئے مشرقی پنجاب، ہریانہ اور راجستھان پہنچا کر انہیں مکمل نابود کر دیا تھا۔ سندھ طاس معاہدے میں طے یہ پایا تھا کہ اس فروختگی کے بدلے پاکستان کو چوراسی کروڑ روپے ملیں گے جس سے پاکستان دریائے سندھ، دریائے جہلم اور دریائے چناب سے نہریں نکال کر خشک دریاؤں راوی اور ستلج میں ڈال کر انہیں رواں رکھے گا اور اس پیسے سے ڈیم بھی بنائے گا۔ ستم بالائے ستم سندھ طاس معاہدے میں یہ شق بھی رکھ دی گئی تھی کہ بھارت پاکستان کے حصے میں آنے والے تین دریاؤں چناب، جہلم اور سندھ کے چلتے پانی پر بجلی پیدا کرنے والے پاور ہاؤس بھی بنا سکتا ہے اور (بہاؤ روکے بغیر) ان کا پانی زراعت کیلئے بھی استعمال کر سکتا ہے۔ اب بھارت اس شق سے کیا تماشا کر رہا ہے؟ اس کا حال دیکھنا ہو تو دریائے چناب کو دیکھ لیجئے کہ جس پر بھارت سب سے زیادہ ڈیم بنا رہا ہے۔ اس دریا پر بدنام زمانہ بگلیہار ون بنا جس کا پانی 11کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ اب اس پر بگلیہار ٹو مکمل ہونے والا ہے جو پہلے سے بڑا ڈیم ہے۔ اسی پر سلال ڈیم بنا ہے تو اسی پر ساول کوٹ کا ایک بڑا ڈیم زیرتعمیر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے چھوٹے بڑے ڈیم بھی زیر تعمیر ہیں جن پر پاکستان اعتراض اٹھاتا اور شور مچاتا ہے لیکن دنیا میں اس کی بات کوئی نہیں سنتا۔ اسی دریائے چناب اور اس کے مرالہ ہیڈ ورکس سے پاکستان کی 21چھوٹی بڑی نہریں وابستہ ہیں۔ اگر ہیڈ مرالہ سے پانی رکے تو وطن عزیز کی 72لاکھ ایکڑ زرعی اراضی متاثر ہوتی ہے اور اگر اس دریائے چناب میں پانی چھوڑ دیا جائے تو پنجاب کا بڑا حصہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے کہ پاکستان کے پاس اس دریا پر ڈیم بنانے کی کوئی گنجائش نہیں۔

گزشتہ کئی سال سے بھارت اسی چناب کو عفریت کی شکل میں یک لخت چھوڑ دیتا ہے اور پھر ہمارا کیا حشر ہوتا ہے؟ وہ ایک عالم دیکھتا ہے…… لیکن ہمارے ہاں سے بولتا کوئی نہیں۔ 15 اپریل اور 22اپریل کو اس دریائے چناب کے کنارے آباد شہروں جھنگ اور چنیوٹ جانا ہوا تو ایک بار پھر چناب رُت نے اپنی جانب کھینچ لیا۔ چنیوٹ سے جماعت کے نوجوان و پرعزم ساتھی محمد عثمان بتانے لگے کہ یہی دریائے چناب تھا اور گزشتہ سال کا سیلاب تھا اور ہم تھے۔ یہاں ڈوبتے لوگوں کو بچانا ہماری سب سے بڑی لگن تھی۔ پنجاب کے ہنگامی مواقع پر امداد پہنچانے والے سب سے بڑے امدادی ادارے کی ٹیم یہاں کشتی سمیت آئی تھی۔ دریامیں پلوں کے نیچے جہاں سب سے زیادہ پانی کا بہاؤ اور گہرائی ہوتی ہے، ان کی کشتی پھرتی دکھانے کی کوشش میں الٹ گئی۔ مخصوص جیکٹیں پہنے ہونے کے باعث رضاکاروں کی جانیں تو بچ گئیں لیکن ان کی حالت دیدنی تھی کہ بغیر کشتی واپس گئے تو نجانے کیا بیتے گی؟ کہ کسی کی جان بھی نہ بچائی اور کشتی بھی گنوا کر آ گئے، اور کشتی تھی ایک سرے سے الٹنے کے باعث پھنس چکی تھی۔ فلاح انسانیت کے ایک سیدھے سادے جانباز ابو عبیدہ جو گاڑی چلاتے ہیں، نے دریا کی موجوں سے لڑتے بھڑتے طویل جدوجہد سے کشتی باہر نکال ڈالی تو ان رضاکاروں کی جیسے جان میں جان آئی۔ شام کا وقت اور اندھیرا تھا چھا رہا تھا۔ حکومتی ہنگامی سروس کے ادارے کے مقامی سربراہ کھڑے تھے کہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے رضاکاروں نے بتایا کہ ہماری کشتی سیلاب میں پھنسے لوگوں کو نکالنے گئی ہے۔ وہ حیران ہوئے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کشتی کے ذریعے ریسکیو آپریشن ہو اور وہ بھی دن کی روشنی کے بغیر۔ یہ تو دنیا کی کسی ریسکیو سروس کا ریکارڈ نہیں کہ ایسا کرنے کی اجازت بھی نہیں۔ یوں ادھر ہی کھڑے 4گھنٹے بیتے تو فلاح انسانیت کی کشتی 40 لوگوں کو سیاہ اندھیرے اور پانی کے دھارے چیرتی بچا لائی تو وہ افسر بھی کہہ اٹھے کہ یہ ا نسانوں نہیں، فرشتوں کا ہی کام لگتا ہے۔ FIF کے رضاکاروں نے یہیں ڈوبنے والے ایک نوجوان کی لاش ایسے ہی جان جوکھم سے نکال کر ورثاء کے حوالے کی گئی جس کی حالت ایسی تھی کہ اس لاش کو ہاتھ لگانے پرتیارنہ تھا۔ اسی شہید نوجوان کا بھائی چند روز بعد جماعۃ الدعوۃ چنیوٹ کے مرکز المدینہ میں کھڑاکہہ رہا تھا کہ مجھے جماعت کا پرچم چاہئے۔ پوچھا گیا کہ کیوں؟ تو وہ کہنے لگا کہ جیسے آپ نے میرے بھائی کا جسد خاکی نکال کر دیا ہے، یہ تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں نے جماعت کا پرچم بھائی کی قبر پر لگا رکھا تھاجو اب وہ پرانا ہو گیا۔ میں اسے تبدیل کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر رضاکاروں نے اسے سمجھایا کہ ہماری خدمت اور آپ کی محبت اپنی جگہ لیکن یوں قبروں پر پرچم لگانا درست نہیں۔ اس پروہ حیران ہی نظر آ رہا تھا کہ یہ کیسے لوگ ہیں کہ جنہیں اپنا پرچم لگوانا بھی گوارا نہیں۔ اس سیلاب کے دوران تو کتنے اعلیٰ سرکاری افسران یہاں آتے ،داد و تحسین پیش کرتے اور یہ تک کہتے کہ آپ لوگ اس حوالے سے دیگر امدادی اداروں کو تربیت کیوں نہیں دیتے؟ کہ سبھی ایسے کام کریں۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے رضاکار بھی سوچنے لگ جاتے کہ ہم کیا بتائیں کہ یہ سب ہماری کسی تربیت کا نہیں بلکہ صرف اﷲ کی مدد کا نتیجہ ہے، وگرنہ ہمارے پاس تو حکومتی امدادی ادارے جیسے جدید سے جدید سامان کا معمولی سا حصہ بھی نہیں۔

یہ سیلاب جھنگ کی طرف بڑھا تو اٹھارہ ہزاری کے مقام پر حفاظتی بند توڑاور اس چھوٹے شہر کو ڈبویا اور جھنگ شہر کو بچایا گیا تھا۔اٹھارہ ہزاری میں ہیڈ تریموں کا مقام جہاں چناب میں جہلم آ ملتا ہے ،ایک مسحور کن مقام ہے کہ یہاں پانی ،سبزے اور رنگا رنگ پرندوں کی بہاریں ہیں۔یہاں خشکی و تری کے ملن کا قدرت کا ایک منفرد منظر یہ بھی ہے کہ یہاں سے چند ہی کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بڑا صحرا ’’صحرائے تھل ‘‘ بھی شروع ہو جاتا ہے۔یہاں کے دوست ناصررحمن بتانے لگے کہ جب بند ٹوٹا تھا تو اس سے بھی پہلے ہم لوگ یہاں مصروف عمل تھے۔یہاں حکومتی اداروں کے پہنچنے سے کئی دن پہلے ہی ہم سیلاب میں پھنسے لوگوں کو نکال رہے تھے اور امداد پہنچا رہے تھے۔یہاں کے ہمہ وقت غلبہ دین کے جذبے اور دعوت دین کی لگن سے سرشارجناب ڈاکٹر عبدالوارث کی دریائی مچھلی اور دیسی مرغ کے ساتھ کھانے کی محبت بھری دعوت بھی یاد رہے گی۔

آج ایک بار پھر ملک بھر میں بارشیں جاری ہیں توکچھ ایسے ہی مناظرصوبہ خیبر کے ضلع کوہستان میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں کہ جہاں حکومت کہہ رہی ہے کہ کوئی بڑا حادثہ نہیں بس معمولی سا ہی تو ریلا آیا ہے۔ پریشانی والی کوئی بات نہیں لیکن مصیبت اور تکلیف کا احساس تو اسے ہوتا ہے جو اس میں مبتلا ہو۔
Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 136720 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.