عمران اور شریف برادران کے جنگجویانہ
مزاجوں اور طبیعتوں کو آجکل انگڑائیاں آئی ہوئی ہیں دونوں کی طرف سے وہ خود
اور ان کے مفاد پرست بغل بچے ایک دوسرے پر لفاظی کی توپیں داغ ہی نہیں رہے
بلکہ ان کی توپیں آگ اگل رہی ہیں۔میں رائیونڈ کا گھیراؤ کروں گا،جو رائیونڈ
کی طرف بڑھے گا اس کی ٹانگیں تو ڑ ڈالیں گے،مجھ سے استعفیٰ مانگ رہے ہو یہ
منہ اور مسور کی دال،قائدین حکم دیں تو بنی گالہ کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالیں
گے ۔پی ٹی آئی کو بوری میں بند کردیں گے ،کتے بھونکتے رہتے ہیں اور کارواں
چلتا رہتا ہے غرضیکہ جس کے منہ میں جو اول فول آرہا ہے وہ پورے زور سے بَک
بَک اور جھک جھک کررہا ہے۔ فریقین عوام کو الو ہی نہیں بلکہ الو کا پٹھا
سمجھتے ہیں۔مفاد پرست سیاسی طبقات جو کہ دراصل سرمایہ دارانہ مفادات کے
علمبردار ہیں۔یہ سبھی غریب بے کس اور نچلے طبقے کے افراد کو بیوقوف سمجھتے
ہیں مگر دراصل وہ خود بیوقوفوں کے دادا حضور ہیں بھلا غریب آدمی جو دو وقت
کی نان جویں کو ترس رہا ہے اور وہ افراد جو بمعہ ننھے بچوں کے جل مر رہے
اور خود کشیاں کر رہے ہیں انھیں اس بات کی ضرورت اور سوچنے کی فرصت کب ہے
کہ اقتدار میں شریف رہیں ،عمران آئیں یا کوئی دوسرا تخت پر براجمان ہو ان
کے لیے سبھی ایک ہیں وہ تو ہر وقت خدا کے حضور گڑ گڑاتے سجدہ ریز ہو کر
دعائیں مانگ رہے ہیں کہ کوئی ایسی طوفانی بارش سیلاب آئے یا خونی آندھی چلے
۔جس سے مفاد پرسست سیاسی افراد شدید متاثر ہوں یا پھر آسمانی بجلی گر کر
انھیں بھسم کرڈالے ۔وہ دریا برد نہیں بلکہ سمندر غرق ہو جائیں۔لو گ انھیں
در بدر کرڈالنے اور ٹھوکریں کھانے پر چھوڑ دینے واالوں کے لیے جھولیاں
پھیلا کر بد دعائیں کر رہے ہیں کہ مولا کسی طرح ایسی نام نہاد سیاسی
اشرافیہ کو زندہ درگور کرڈالو کہ کوئی تو خود بمعہ اپنی اولادوں کے مقتدر
رہ کر ملکی سرمایہ ہڑپ کر کے بیرون ملک دفنا رہا ہے اور کوئی اقتدار
انجوائے کرکے بمعہ مال و متال بھاگ کر بیرون ملک پناہ گزین ہے اوپر بیان
کردہ جتنے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ سبھی
ملک کے کسی حصہ میں مقتدر ہیں اور دوسری جگہ حزب اختلاف کی چابی جیب میں
ڈالے پھرتے ہیں عمران خان اور مولانا صاحب بھی مقتدر ہیں اور شریف برادران
تو تخت لاہور و اسلام آباد پر براجمان ہیں دراصل جھگڑا صرف پورے کا پورا
مال ہڑپ کرنے کاٹھہرا ہے۔یہ اونچے طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں۔ ان
کے رائے ونڈی،بلاول ہاؤسز اور بنی گالائی محلات ایکڑوں پر مشتمل ہیں جب کہ
غریب کو جھونپڑیاں تک بھی نصیب نہ ہیں اب صورت یوں ہے کہ اگر یہ آپس میں
جھگڑا نہ کریں تو اﷲ اکبر ،اﷲ اکبر کے نعرے تحریک کی صورت لگانے والوں کا
جم غفیر بذریعہ انتخابات بھی قابض ہو سکتا ہے۔وگرنہ لوگ تو ان کی آپس کی
لڑائیوں میں ملوث ہو کر انھی سے ہی کسی کے بوٹوں کا تسمہ بننے پر مجبور ہیں
سرمایہ دارو ں کا یہ گھن چکر یوں ہی رواں دواں ہے۔اور انھی مال دار طبقات
میں سے ہی کوئی نہ کوئی عوام کی گردنوں کے اوپر سے پھلانگ کر حکومتی تخت پر
قابض رہتا ہے۔ اب بھلازرداریوں، شریفوں گیلانیوں ،ترینوں،قریشیوں یا کٹھ
ملائیت کے علمبردار درباری ملاؤں کو مزدوروں کسانوں کے مسائل کا کیونکر
الہام ہو گا انھوں نے شدید گرمیوں اور برفانی سردیوں میں کبھی مزدوری نہ کی
ہے اور نہ کھیتوں کو سیراب کیا،اس میں فصلیں بوئی ہیں نہ کاٹی"جس تن لاگے
اس تن جانے"کی طرح مزدور کا مسئلہ مزدور اور کسان کا مسئلہ کسان ہی سمجھ
سکتا ہے اور لازماًاسے حل کرنے کے لیے کوشاں ہو گا۔جاگیردار وڈیرے تو اپنی
جاگیروں اور راجھدانیوں کے قریب کوئی سکول تک بننے نہیں دیتے کہ پھر ان کے
حُقوں کی چلمیں کون جلائے گا۔ اور انکی بھینسوں اور ڈھور ڈنگر کو چارا کون
ڈالے گا؟انھیں یہ بخوبی علم ہوتا ہے کہ مظلوم غریبوں کا بچہ جو انکی جوتیاں
سیدھی کرتا اور سر پر تڑاخ تڑاخ کھاتا ہے اگر پڑھ لکھ گیا تو ہو سکتا ہے کہ
انھی کے متعلقہ تھانے میں آکر تھانیدار لگ جائے تو پھر ساری پرانی کسریں
لازماً نکالے گا۔ اور انھیں ہی گرفتار کرکے"آجا میرے بالما تیرا انتظار ہے"
کا مزا چکھا سکتا ہے اپنے ہی پاؤں پر کون کلہاڑی مارتا ہے اسلئے ظالم
تمنداروں کی منشاء اور مرضیوں کے مطابق "گلشن کا کاروبار" چلتا رہتا
ہے۔خزانوں سے اربوں روپے قرضے لے کر معاف کرانے والوں کی تمام جائدادیں ضبط
کی جانی چاہیں جب کہ جس غریب نے مکان کی تعمیر کے لیے قرضہ لیا اور ادائیگی
نہ کرسکا اس کا مکان قرق کرلیا جاتا ہے موجودہ مغربی لادینی جمہوریت کی
سیاسی پیداوار تو ایسے ہی افراد رہیں گے جب تک انتخابی قوانین تبدیل کرکے
ہر طبقہ کے افراد کے لیے بلحاظ تعداد آبادی اسمبلیوں کی سیٹیں مختص نہیں کی
جاتیں اور ایسے امیدواروں کی انتخابی مہم حکومتی خرچوں پر نہیں چلتی۔
وگرنہ98فیصد ممبران اسمبلی نو دولتیے سود خور سرمایہ دار،انگریزوں کے پیدا
کردہ ظالم جاگیردار،کرپٹ وڈیرے اور سود در سود وصول کرنے والے ناجائز منافع
پرست صنعتکار ہی منتخب ہوتے رہیں گے اور عوام کو دکھانے،ورغلانے اور انھیں
الو بنائے رکھنے کے لیے آپس میں اقتداری ہڈی کو حاصل کرنے کی جعلی لڑائیاں
،دھرنے بازیاں ،جلسوں میں الزام تراشیاں اورگالی گلوچ کے مقابلے ہی دیکھنے
کو ملتے رہیں گے۔صدر ایوب کی اولاد نے پہل کی،پھر بھٹو پارٹی میں شامل
جاگیرداروں نے خوب کمائیاں کی اسلامی مارشلائی ضیاء الحقی دورمیں باقاعدہ
کلہ مضبوط کرنے کے لیے ہر نامزد ممبر مجلس شوریٰ کو ڈھیروں سرمایہ ملنے لگا
اور کئی نو دولتیے گھر آباد ہو گئے۔فوجی جنرل نے شوریٰ کے اجلاس سے پہلا
خطاب کیا تو اس کی خبر بی بی سی لندن سے نشر ہوئی اور راقم الحروف کی اس پر
تنقیدی خبر اور شوریٰ کے ارکان کو لکھا گیا خط بھی نشر ہوا اور اسی خط کے
لکھنے کے جرم میں فوجی عدالت سے چھ ماہ سزااور تین ماہ مزید جیل کچی پیشیوں
پر بھگتی اس وقت سے لے کر آج تک سرمایہ پرستوں کی ہڈی عوام کے گلوں میں
ایسے پھنسی ہے کہ کسی میجرسرجری سے بھی نہیں نکل پائی وہ نہ اگلی جاسکتی ہے
نہ نگلی۔ شریف برادران کا بوٹا ضیاء الحقی مارشل لاء کے دور میں گملے میں
اگااور آج تو پھل پھول کر تناور درخت بن چکا ہے۔جس کی زیر زمین زہریلی جڑیں
ملک کے تمام اہم طبقات ،بیورو کریسی وغیرہ میں پھیل چکی ہیں جنھیں مسلسل
انسانی خون ہر دور میں سیراب کرتا چلا آرہا ہے اور ہمارے صنعتکاروں کو تو
خون مزدور شرابوں میں ملاکر پینے کی عاد ت سی پڑ چکی ہے اب آپ ان سے ا
قتداری کنجیاں چھیننا چاہتے ہیں ایں خیال است و محال است و جنوں۔ویسے ان کو
ہٹا کر بھی مقتدر ہو جانے کے لیے تیار وہی مخصوص جاگیردار سرمایہ دار تیار
ہیں نئی ہو یا پرانی ہر بڑی سیاسی جماعت پر ان کا قبضہ ہو چکا ہے۔ہاں ان کو
محمد رسول اﷲ ﷺ کے غلاموں کی اور جذبوں ،ولولوں سے سرشار اﷲ اکبر اﷲ اکبرکے
نعرے لگاتی تحریک ہی ہٹا سکتی ہے خدائے عز وجل جسے چاہیں اقتدار بخش دیں
امید قوی ہے کہ آقائے نامدار ﷺ کے نام لیوا اور انکے چاہنے والوں کادو ر
آکر رہے گا کہ بہت ہو چکی تحریک پاکستان میں ہزاروں قربانیاں دے کر شہادتیں
پائی گئیں اس کا تمت بالخیر مقدر ٹھہر چکا ہے۔ |