کسی بھی اشیاء کی پیداوار کے لئے محنت ،سرمایہ
،زمین او ر بہتر نظم و ضبط کا ہونا لازمی ہے ۔ اگر ان چاروں عاملین پیدائش
میں سے ایک عامل پیدائش میسر نہ ہو تو پیداوار کا عمل رک جاتا ہے ۔علم
معاشیات کے پہلو سے اگر کسی مارکیٹ میں پیداوار یا سرمایاکاری کے عمل کو
فروخت دینا ہو تو ہمیشہ سے قلیل مدت اور طویل مدت سرمایہ کاری کو مد نظر
رکھ کر کیا جاتا ہے۔ اگر ہم ملکی لحاظ سے سرمایہ کاری کی بات کی جائے تو
بہت سارے ایسے ممالک ہیں جو معاشی میدان میں اپنی قدم مضبوط بنانے کے لئے
طویل مدت سرمایہ کاری پر زیادہ توجہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جس سے نہ صرف
وہ ممالک معاشی طور پر مضبوط ہوتے ہیں بلکہ دنیا کے کونے کونے میں وہ اپنی
معاشی جڑیں مضبوط کرنے سے بھی کوئی نہیں روک سکتا ۔ دنیا کی سب سے بڑی
آبادی پر مشتمل ملک چین آج 2.8 ٹریلین ڈالر کے حصص کامالک ہے ۔جس قوم کا
مقصد عظیم ہو اور اچھے لیڈر ہو تو انھیں کسی بھی قسم کے دباؤ معنی نہیں
رکھتی ۔لہذا آج یہی قومیں دنیائے معیشت پر راج کر رہی ہیں۔ جنھوں نے ہمیشہ
سے ملکی معاشی پالیسز پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔اور ان ملکوں کی صف میں چین
آشکار ہوتے نظر آتے ہیں۔جس نے متین پالیسیوں سے کام لیتے ہوئے بڑی سرعت کے
ساتھ معاشی میدان میں عظیم رتبہ پایاہے ۔ اس کے برعکس وطن عزیز معاشی لحاظ
سے دنیا کے اہم اور موزوں ترین خطے پر واقعہ ہونے کے باوجود بد قسمتی سے آج
تک ترقی پزیرممالک کے صف میں گنے جاتے ہیں۔ جس کی ایک وجہ عاملین پیدائش کی
بہتات کہے تو بے جا نہ ہوگا۔ البتہ قدرت کی دی ہوئی کئی انعامات اس خطے میں
موجود ہیں۔ مگر سرمائے کی کمی اور بہتر نظام کے نہ ہونے کی وجہ سے ملک آج
تک ترقی کی منازل طے کرنے میں ہچکولے کھا رہے ہیں ملک کی معاشی پالیسیز کا
ذکر کریں تو ہر حکومت اپنی ادوار میں مختلف معاشی پالیسیاں مرتب کرتے رہے
ہیں۔ جن میں کچھ عرصہ تک پانچ سالہ منصوبے پر عمل درآمد ہوتا رہا ۔جس سے
کچھ حد تک ملک کی معاشی پہیہ پٹری پر آنا شروع ہوا۔ دوسری طرف پچھلی حکومت
کا ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ بہتر تعلقات اور معاشی روابت کو مستحکم کرنے
کی تگ و دو میں رہی ۔ جن میں پاک ایران گیس پائپ لائن سرفہرست تھا جو
بیرونی اور اندرونی مخالفت کاشکار ہو گیا۔ مگر موجودہ حکومت ہمسایہ ملک چین
کے ساتھ معاشی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لئے کمر بستہ ہو گئی ہے۔ جس کی
کامیا بی کے لئے حکومت وقت ہر ممکن اقدامات اور تمام سیاسی جماعتوں کی
حمایت حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔حکومت کی کوششوں میں
کوئٹہ میں بلائے گے اے پی سی سر فہرست ہے۔ جس میں کئی اپوزیشن رہنماؤں نے
کچھ تحفظات ضرور پیش کئے مگر اس منصوبے کو کامیاب بنانے کا عزم بھی ظاہر
کیا۔ مگر یہاں ذہین میں ایک بات ضرورگردش کرتی ہے کہ اس طرح کی کسی بھی
پلیٹ فارم پر گلگت بلتستان کی نمائندگی اور موقف نظر نہیں آتا۔ جو کہ اس
منصوبے کے لئے زیادہ اہم ہے۔ اس منصوبے کو ہرطرح کے اندرونی اور بیرونی
خدشات لاحق ہے جو اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے برسر پیکار ہے ۔ ایسی
قوتیں پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کبھی گوارہ نہیں کرتے ۔ملک کے اندر امن
و آمان اورسکیورٹی کے خراب صورت حال بھی اس منصوبے پر گہرے اثر پڑ سکتے
ہیں۔بچھلے سال چینی صدر کی دورہ پاکستان کی ملتوی کی وجہ بھی ملک میں سیاسی
عدم استحکام کی وجہ سے ہو ا ۔ لہذا حکومت وقت کو ان سب صورت حال کو مد نظر
رکھتے ہوئے اگے بڑھنا چاہیے۔کیونکہ ایسے ملک دوست منصوبوں کو کامیاب بنانے
کے لئے نہ صرف ہر طبقے کے لوگوں کی حمایت ہونی چاہیے بلکہ ملک میں امن آمان
کی فضاء بھی سازگار ہونا چاہیے۔ اس منصوبے سے نہ صرف چینی مال کی برآمداد
کر سکتے ہیں بلکہ پاکستان سے بھی اشیا چین میں برآمدکیا جاسکتے ہیں۔جس سے
ملک کی ترقی نہ صرف اس منصوبے پر مختص رقم پر منحصر رہے گا بلکہ اپنے بھی
پیداوار کو بڑھا کر معاشی میدان میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے ۔ پاک
چائنا اقتصادی راہداری کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیاہے جو کہ قلیل مدت ،
درمیانی مدت اور طویل مدت پر مشتمل ہے ۔عرصہ قلیل کے منصوبے کو 2017 میں
درمیانی منصوبے کو 2025 میں اور طویل مدت منصوبے کو 2030 میں پایئے تکمیل
کو پہنچائی جائے گی۔ان منصوبوں سے ملک کے کئی دوسرے شعبے بھی مستفید ہو
سکتے ہیں۔ جن میں توانائی ، ترقیاتی پراجیکٹس ،تعلیم ، صحت اور دوسرے کئی
شعبے شامل ہیں۔ دوسری طرف گوادر اور خنجراب کو اپس میں ملانے والی یہ سڑک
تقریبا 2395 کلو میٹر پر مشتمل ہے جو کہ قراقرم کے دشوار گزار پہاڑی اورکئی
میدانی اور شہری علاقوں کو چھوتے ہوئے گزرے گی جس سے بہت سارے شہروں میں
روزگار کے مواقعے بھی میسر ہو سکتے ہیں۔ اس سڑک کی تعمیر اور توسیع کے لئے
تقریبا 12سو بلین روپے کی لاگت بتائی جاتی ہے۔ اگر ہم اس منصوبے سے مستفید
ہونے والے اداروں کا ذکر کریں تو سی پیک منصوبے میں انرجی کو نمایاں ترجیح
دے رہا ہے ۔ کیونکہ ایک طرف انرجی کی کمی سے ملک میں معاشی ترقی ماند پڑھ
رہا ہے تو دوسری طرف موجودہ حکومت اپنی منشورمیں بھی انرجی کوصف اول پے
رکھا گیا ہے لہذا ان سب چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے توانائی کے لئے مختص کئے
ہوئے رقم 33 بلین ڈالر بتایا جاتا ہے۔جن میں کوئلے سے حاصل ہونے والی پانچ،
پن بجلی سے حاصل ہونے والے دو اور شمسی توانائی کے ایک منصوبے شامل ہے ۔ اس
کے ساتھ ساتھ تھرمل پاور پراجیکٹ ، قائد عظم سولرپارک بہاولپور اور دیامر
بھاشا ڈیم بھی اس منصوبے کی خوشبو سے مہک سکتا ہے۔ دوسری طرف پاک چین
اقتصادی راہدری کے ثمرات میں سڑکیں اور تعمیر و ترقی کے لئے 5.9 بلین ڈالر،
ریل کے شعبے میں 3.69،لاہور میں زرائع آمدورفت کی ترقی کے لئے 1.60گوادر کی
بندرگاہ کے لیئے 0.66جبکہ پاک چائنا فائبر آپٹک کے لئے0.04 بلین ڈالرز
بتائے جاتے ہیں۔گوادر میں صاف پانی کی فراہمی، ہسپتال ، وکیشنل ٹرینگ سینٹر
کا قیام بھی اسی منصوبے کے حصہ ہے۔مذکورہ تمام پروجیکٹس اپنے اپنے اعتبار
سے اہمیت رکھتا ہے ۔ مگر ساتھ ساتھ اس بات کو بھی ملحوض خاطر رکھنا چاہیے
کہ گلگت بلتستان کا خطہ پاک چین اقتصادی راہداری کے لئے خاصا اہمیت کے حامل
ہونے کی حیثیت سے حکومت کو چاہئے کہ اس خطے کی عوام کی دیرینہ مسئلے کو بھی
کرتے ہوئے کچھ پرجیکٹس سے اس خطے کو نوازیں تو کوئی حماقت والی بات نہ
ہوگا- |