بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
یہ عنوان تھا بینر کا اور خاص اس تقریب کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھاجو اولین
نگران حریم ادب محتر مہ عذرا جمال کی یاد میں منعقد کی جارہی تھی ۔چراغ
روشنی کا استعارہ ہے جو رہنمائی کرتا ہے مگر شمعیں جلانے کا یہ فعل لادینیت
سے منسوب ہوکر رہ گیا ہے ۔(کچھ اصطلا حات جن میں شہید بھی شامل ہے اسی طرح
سے ہر مکتبہ فکر میں بلا استثنا استعمال ہورہا ہے!) جب ہم اس لفظ پر
قابونہیں رکھ سکتے تو پھر چراغ کو اس کے صحیح مفہوم کے ساتھ کیوں نہ
استعمال کر یں ؟بس یہ ہی سوچ کر اس عنوان کے تحت اپنی محفل مرتب کرنے کا
پروگرام طے کر لیا۔
تقریب کے انعقاد کا قصہ کچھ یوں ہے کہ اجتماع عام میں حریم ادب کا اسٹال
مرکزی شعبہ جات کے ساتھ تھا۔ اس پر ہم نے پرانے مجلے رکھے تھے۔ اس کی ورق
گردانی کرتے ہوئے انجم خالق نے عذرا جمال کے افسانوں کو دکھاتے ہوئے مسرت
بھرے لہجے میں کہا کہ یہ میری امی کا لکھا ہواہے ! جس وقت وہ یہ کہہ رہی
تھیں ان کا چہرہ دمک رہاتھا ’یہ میری امی نے بنایا ہے !‘ والافخریہ جملہ جو
ہر بچہ ضرور اپنی ماں کے بارے میں کہتا ہے صاف نمایا ں تھا۔انجم خالق اور
شاہینہ احمدسے بہت پرانا تعلق ہے مگر عذرا جمال کی بیٹیاں ہونے کی خبر نے
جیسے کڑ یاں جوڑ دیں ماں کی تربیت اولاد میں ضرور جھلکتی ہے ! اسی وقت انجم
خالق نے اپنی امی کی یاد میں ایک نشست رکھنے کی پیشکش کی جو ہم نے فوراً
قبول کرلی۔
اجتماع سے واپسی پر تھکن اتارنے کے بعد جیسے ہی پروگرام کوعملی جامہ پہنانے
کی کوشش کی سانحہ پشاور نے ہم سب کی قوتیں سلب کرلیں اور پھر اس کی وجہ سے
تعطیلات میں اضافہ کے باعث پروگرام کے انعقادمیں تاخیر ہوتی گئی۔ بہر حال
جنوری کی ۲۴ تاریخ ہم نے باہم مشورے سے طے کرلی۔ اس دوران جتنی خواتین سے
رابطہ ممکن اور ضروری تھا کرتے رہے۔ ای میل، فیس بک ؍موبائیل پیغامات کے
ساتھ ساتھ براہ راست فون کے علاوہ اخبار میں بھی اطلاع دے دی ۔کافی حوصلہ
افزا ردّ عمل تھا۔ عذرا جمال کی شخصیت ایک قوس و قزح کی مانند ہے لہذا جتنے
رنگ اتنے ہی طرح کے شرکاء! خاندان سے لے کر احباب، معاشرتی سے لے کر ادبی
محاذ کے ساتھی․․․․․
ہم نے بھی حریم ادب کے نگران کی حیثیت سے اپنی معلومات کو تازہ کیا۔ مجلے(
جو بڑی مشکل سے دستیا ب ہوئے تھے) کے مطابق حریم ادب ۱۳؍ جنوری ۱۹۸۴ء کو
ایک منظم ادارہ بن کر نمودار ہوئی ۔ کراچی میں عذرا جمال کے گھر پہلا بڑا
اجتماع ہوا جس میں پورے ملک سے قلمکاروں نے شرکت کی۔ باقاعدہ انتخاب کے
ذریعے عذرا جمال نگران، عقیلہ اظہر صدر، فریدہ ظہیر جنرل سیکریٹری منتخب
ہوئیں ۔ جیسا کہ ہم سب کے علم میں ہے کہ بارش کے ہونے سے پہلے فضا کیسے
تیار ہوتی ہے! سورج ، ہوا ، بادل ، بخارات بارش سے بہت پہلے اپنا کام شروع
کردیتے ہیں ! بالکل اسی طرح سے ادبی محاذ بہت پہلے سے سر گرم تھااور قلم کے
مجاہدین اپنے جوہر دکھارہے تھے مگراب ایک منفرد نام کے ساتھ باقاعدہ آغاز
ہوا۔ ان معلومات کو پڑھ کر خوشی ہوئی اور حسن اتفاق کہ حریم ادب کی یاد
گاری محفل بھی ماہ جنوری میں منعقد ہورہی تھی۔
پروگرام کا وقت بارہ بجے رکھا گیا تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو شر کاء کی اچھی
خاصی تعداد وقت کی پابندی پر عمل کرتے ہوئے موجود تھی ۔ معلوم ہوا کہ قلم
کاروں کا ایک قافلہ غزالہ عزیز کی رہنمائی میں کراچی جنوبی سے روانہ ہوچکا
ہے چنانچہ ان کی آمد تک ہم سب آپس میں ملاقاتیں کرتے رہے ۔شرکاء بڑی دلچسپی
سے نشست کے باقاعدہ آغاز کے منتظر تھے ۔ ہال کمرے کی مشرقی دیوار کے ساتھ
تخت پر خوبصورت جھالر کے ساتھ لگے گاؤ تکیے میزبانوں کے ذوق کا مظہر تھا تو
اس کے اوپر آویزاں تہنیتی بینر جو اس تقریب کے لیے خصو صی طور ڈیزائن کیا
گیا تھا شر کاء کے جذ بہ شوق کو بھڑ کا رہا تھا۔ تخت کے دوطرف کرسیاں لگی
تھیں جبکہ خوبصورت فرشی نشست کے درمیان میں سبز اور گولڈن آرائشی جھالر
بچھی جس پر گلدستہ رکھا تھا۔ارد گرد کشن پر مہمانوں کے بیٹھنے کی جگہ
تھی۔کشادگی کا احسا س لیے نشست گاہ میں آسودگی اور رونق باہم موجود
تھے!مناسب آرائش کے ساتھ ایک بے تکلفی اور اپنائیت کا ماحول تھا بناوٹ اور
مصنوعیت سے پاک ! شاید یہ اس شخصیت کے مزاج کا پرتو تھا جس کی یاد میں محفل
سجائی گئی تھی۔
دائیں طرف پوسٹرز لگے تھے جن میں حریم ادب کے مقاصد اور اولین قلمکاروں اور
ادب کی آبیاری کرنے والوں کے نام جگمگا رہے تھے۔ بنت الاسلام، ،نیر بانو،
حمیدہ بیگم، امّ زبیر، رخشندہ کوکب ، بنت مینا مجتبٰی ، عذراجمال ․․․․․․․
گویا پوری کہکشاں تھی! اس کے علاوہ دیگر جگمگ ستاروں کی فہرست بھی لگی تھی!
بچوں نے ہر نام کے آ گے ستارہ لگا کر واقعی چمک پید اکردی تھی۔
مہمان خصوصی آسیہ بنت عبداﷲ صدیقی کی آمد کے ساتھ ہی گویا محفل میں جان پڑ
گئی۔ ایک لمبے سفر کی تھکان کی وجہ سے وہ تخت پر نیم دراز ہوگئیں تو ایسا
لگاکہ ان کے ناول کا کردار صفحات سے نکل کر حقیقی دنیا میں آ گیا ہو! اور
اس پر ان کی بذلہ سنجی ماحول کو خوشگوار بنارہی تھی۔ انہوں نے حریم ادب کے
بارے میں اپنی ایک تازہ نظم سنا کر داد وصول کی․․․․․مگر یہ تو محفل کے
اختتام پر ہوا تھا !ابھی تو آ غاز کرنا تھاجو مازیہ کی سورہ رحمٰن کی
خوبصورت تلاوت سے ہوا۔ اس کے بعد تعارف اور گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ نظامت
کی ذمہ داری غزالہ عزیز کے ذمہ تھی۔ انہوں نے افتتاحی کلمات کے لیے ہمیں
آواز دی تو ہم نے اپنے خوشگوار احساسات کو زبان دی جو اس محفل کے انعقاد پر
طاری ہوئے تھے!اس خوبصورت اور پر فضاپہاڑی علاقے میں سمندر کے کنارے سے
افراد کا جوق درجوق آنا ان کے جوش وخروش کو واضح کر تاہے۔
اس کے بعد سب کے تعارف اور تاثرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ دونوں بہوؤں صولت اور
مریم نے ان کے معمولات کی زبر دست منظر کشی کی ۔پوتیوں حرا، امیمہ، مدیحہ،
ملیحہ نے اس بات پر فخر کا اظہار کیا کہ ان کی دادی ان سب کے نام پر نظمیں
لکھ کر نور میں شائع کرواتی تھیں۔ اچھی باتیں بتا تی تھیں ۔ اگروہ آج زندہ
ہوتیں تو ہمیں اپنے بچوں کی پرورش میں کتنی رہنمائی ملتی ( اس بات کی تائید
ان کے بچے اپنی اپنی زبان میں کررہے تھے!) نواسی روحا نے اسکائپ کے ذریعے
اپنی والدہ شبانہ سے اس محفل میں شر کت کروائی۔ان سب کاکہناتھا کہ وہ کام
سکھانے میں معاونت اور حوصلہ افزائی کرتی تھیں ۔ان کے ساتھیوں میں سے تحسین
فاطمہ نے ان کی رہنمائی اور نصیحت کے دلنشین انداز کا ذکر کیا۔ شاہدہ خاتون
کے علاوہ ان کے پڑوسیوں اور بہت سی ساتھیوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
یہ بات تو طے ہے کہ ادبی محفلیں صرف اور صرف نگارشات سننے سنانے کی محفل
نہیں ہوتی بلکہ تفریح طبع اور ذوق کی تسکین کے ساتھ ساتھ معاشرتی تقاضوں سے
بھی نبرد آزما ہوتی ہے۔ رشتوں کی تلاش سے جانبین کے درمیان ہم آ ہنگی پیدا
کرنے تک، ملاقاتوں کے اہتمام سے لے کر خوش اسلوبی سے تقریب کی تشکیل تک !گھریلو
ٹوٹکوں اور مشوروں سے لے کررشتوں کے درمیان ہونے والی بد مزگیوں کے ازالے
کس طرح ان ہی محفلوں میں طے ہوتے تھے! ان تما م کی گواہی فاطمہ زہرہ سمیت
کئی شرکاء نے کی۔ ریحانہ افروز ان کی محبت میں سرشار تھیں تو شگفتہ مشہود
بھی اس کی اسیر نظر آ ئیں۔ان کی خوبیاں موضوع گفتگو رہیں مہمان نوازی، خوش
خلقی․․․․․․․․جن کا ذکر اس مختصر روداد میں ممکن نہیں !
چھوٹی صاحبزادی شاہینہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنی گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے
امی کی ادبی محفلوں میں شرکت سے محروم رہیں ( اس کا ازالہ اب کر سکتی ہیں
!) ۔اور جبب باری آئی انجم خالق کی جو اس تقریب کی میزبان تھیں تو ان کی آ
واز رندھ گئی یہ کہتے ہوئے کہ ․․․․میں کیا کہوں اس کے سوا کہ وہ میری ماں
تھیں ․․․․․واقعی ایک شاندار ماں کی اولادیں کس کڑے پیمانے میں جانچی جا تی
ہیں ان کی اقدار کو آ گے بڑھا نے میں ! ( ان کی ا س با ت پر ہمارا بھی دل
دھڑکا کہ حقیقی اولاد کے ساتھ ساتھ روحانی اولادوں کا بھی تو امتحان ہے کہ
وہ ان اوصاف کی حامل ہیں کہ نہیں ؟ ان کا سا حوصلہ ، تدّبر، اخلاص ،حکمت
اور دلجمعی ہے کہ نہیں ؟سوالات کے آئینے میں خود کو بہت کمزور تصور کیا! )
اس بات کا اظہار افشاں نوید نے اپنی گفتگومیں کیا کہ ہمارا فرض ہے کہ اپنے
محسنوں کو یاد رکھیں اور ان کے کام کو آ گے بڑھائیں ! ہمیں اپنی اس شاندار
حامل کی روایات وراثت کوبہترین طریقے سے آگے منتقل کرنا ہے !انہوں نے عذرا
جمال کی موئثر اور مربوط حکمت عملیوں کا تذکرہ کرکے شرکاء کی کافی رہنمائی
کی۔
فریحہ اشرف جو بچپن سے ان کی ادبی محفلوں میں شریک ہوئی تھیں نے ان کا ذکر
کر کے سماں باندھ دیا۔صائمہ افتخاربھی ان سے فیض پانے والوں میں سے
ہیں۔توقیر عائشہ بھی ان سے ملاقات کاشرف حا صل کر چکی ہیں ۔ان سے براہ راست
ملاقات کر نے والے شرکاء کے علاوہ قلمکاروں کی کثیر تعداد ایسی تھی جو عذرا
جمال سے کبھی نہ مل سکی تھی مگر اس محفل کے ذریعے ان کی شخصیت کو اپنے لیے
مشعل راہ بنا رہی تھی۔ ان میں نگہت یاسمین، طوبٰی احسن ،فرحی نعیم، نیّر
سلطانہ، رضوانہ نعیم، صائمہ سرفراز ان کی نادیدہ مدّاح تھیں ۔ ان کے علاوہ
نوخیز قلمکار ایمن ، مریم کے علاوہ بچوں کی کثیر تعداد موجود تھی جو اپنے
درمیان اپنی پسندیدہ مصنفہ غزالہ ارشد کو پاکر خوشی سے نہال تھی۔ خود غزالہ
بھی تقریب میں کافی پر جوش نظر آ ئیں ۔ آخر میں افشاں نوید نے جامع اور
موئثر دعا کروائی۔
عموماً تقریبات میں شرکاء کو دعوتی رقعہ بھیجا جا تا ہے مگراس محفل کی
انفرادیت یہ تھی کہ یہاں ان کو ’حریم ادب ایک خزانہ ہے ‘کے عنوان سے
یادگاری رقعے دیے گئے! محبت اور محنت سے تیار کردہ یہ رقعے یقیناً ان کو اس
محفل کی یاد دلاتے رہیں گے ان شاء اﷲ! پھولوں کی تقسیم بھی ایک خوبصورت
روایت ہے ان محفلوں کی! شرکاء آسیہ بنت عبداﷲ کا ناول دلشکن تحفے میں پاکر
بہت خوش نظر آ ئے۔اس تقریب کے اکثر شرکاء اپنے بہت سے کام ادھورے چھوڑ کر
آئے تھے۔ کچھ نے آنے کی خوشی میں ہلکا پھلکا سا ناشتہ کیا تھا یا مصروفیات
کے باعث کر ہی نہ پائے ہوں گے مگر اس محفل میں سے اٹھ کر جانے یا مختصر
کرنے پر راضی نہ ہوئے اور ایسی محفل ہر ماہ منعقد کرنے کی فرمائش کرتے نظر
آئے۔ہماری ہچکچاہٹ اور ان کا اصراربالآ خر سہہ ماہی سے سالانہ پرطے ہوا۔
اور معزز قارئین!
اس محفل میں لذت طعام کے لیے میزبانوں کی طرف سے بھرپور انتظام تھا۔حلیم ،
چھولے ، پزّا ، کسٹرڈ ․․․․․․گویا مشرقی اور مغربی غذاکا امتزاج ! اس کے مزے
اٹھاتے ہوئے شرکاء بہت لطف اندوز ہوئے۔ایسی پر سکون اور محفل صرف یاد گار
نہیں بلکہ واقعی روشنی اور توانائی کا باعث بنتی ہے! |