اقتصادی مندی کا آغاز
(Falah Uddin Falahi, India)
سعودی شاہی خاندان بن لادن گروپ کو کئی
دہائیوں سے بڑے تعمیراتی منصوبوں کے ٹھیکے دیتا رہا ہے جس میں مسجد الحرام
کا توسیعی منصوبہ بھی شامل ہے۔تاہم اب سعودی حکومت کو عالمی منڈی میں عرصے
سے تیل کی کم قیمتوں کی وجہ سے مالی مشکلات کا سامنا ہے اور اس نے متعدد
تعمیراتی منصوبوں پر کام روک یا اسے منسوخ کر دیا ہے۔کمپنی کے بعض منصوبوں
میں کام کرنے والے ملازمین نے کئی ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے پر احتجاجی
مظاہرے بھی کیے ہیں۔برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے الوطن اخبار کے
حوالے سے بتایا ہے کہ ملازمت سے نکالے گئے ملازمین غیر ملکی ہیں۔ الوطن کے
مطابق نکالے گئے ملازمین کو ملک سے نکلنے کوکہا گیا ہے لیکن ملازمین نے
تنخواہ کی ادائیگی تک ملک چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے ان میں سے بعض ملازمین
کو کئی ماہ سے تنخواہ نہیں ملی اور یہ کمپنی کے مرکزی دفتر کے سامنے ہر روز
احتجاج کرتے ہیں۔بن لادن گروپ اسی خاندان کی ملکیت ہے جس سے شدت پسند تنظیم
القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن دلان کا تعلق تھا۔سعودی عرب کی کابینہ نے
رواں برس ہی ملکی معیشت کی تیل سے ہونے والی آمدن پر بڑی حد تک انحصار کو
کم کرنے کی کوشش کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔سعودی عرب میں حکومتی آمدن کا
تقریباً 80 فیصد حصہ تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم پر مشتمل ہے اور
گذشتہ برس سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے اس کی معیشت متاثر
ہوئی ہے۔سعودی کابینہ کے منصوبے سے چند دن قبل یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں
تھیں کہ سعودی عرب تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی میں کمی کے باعث بین
الاقوامی بینکوں کے ساتھ دس ارب ڈالر قرضے کا معاہدہ کرنے کے قریب ہے۔یوں
تو اقتصادی مندی عالمی پیمانے پر چھا رہا ہے لیکن سعودی وہ پہلا اور امیر
ترین ملک ہے جہاں قدرتی وسائل کی بہتات ہے ۔دنیا اس کی محتاج ہے اور اسی دم
پر وہاں بڑی بڑی کمپنیوں نے بہت جلد وہ کارنامہ انجام دیا جس سے دنیا بھر
کے غریب مزدور وں کے معاشی حالات پر دور رس اثرات مرتب ہوئے ۔دنیا بھر سے
عوام سعودی عرب کی جانب جوق در جوق ہجرت کرنے لگے یہاں تک کہ سعودی میں
نوکری کرنا امیری کا علامت تصور کی جانے لگی ۔اور واقعی سعودی عرب کی کمائی
سے غریب مسلمانوں نے اپنے خواب کو پورے کرنے کا کام کیا ۔ان کے کچے مکان
پکے ہو گئے ان کے بچوں کی پڑھائی لکھائی شروع ہوگئی ،ان کی معاشی حالت اس
قدر درست ہو گئے کہ دوسرے لوگوں نے بھی اپنے اپنے بچوں کو سعودی عرب بھیجنے
لگے ۔دنیا نے ان 70-80سالوں میں سعودی عرب سے خوب خوب فائدہ حاصل کیا بلکہ
یہ کہا جائے کہ سعودی عرب دنیا کے مسائل کو حل کرنے میں قلیدی کردار ادا
کیا ہے تو بیجا نہ ہوگا ۔لیکن نظر بد اور خود اپنی کرتوتوں کی وجہ سے آج
سعودی عرب کو اقتصادی مندی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ان کے کمپنیاں دیوالیہ
ہونے کے کگار پر آپہنچے ہیں۔اپنے ملازمین کی چھٹی کرنے میں مصروف ہیں اور
تنخواہ دینا ان کے لئے مشکل ہو رہا ہے ۔جس کی وجہ سے کمپنیوں نے سیدھے طور
پر چھٹنی کا کام بھی شروع کردیا ہے ۔لیکن مزدور وں نے اپنا احتجاج یہ کہتے
ہوئے درج کرایا ہے کہ جب تک ہمارے باقی ماندہ تنخواہ نہیں مل جاتے وہ ملک
نہیں چھوڑیں گے اور اصولی طور پر یہ بات ٹھیک بھی ہے اور اسکی ہر طرف سے
پذیرائی بھی ہو رہی ہے ۔وہ آئے دن احتجا ج درج کرارہے ہیں ۔یہاں پر ایک
نصیحت ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بن لادن گروپ جیسا امیر ترین کمپنی جو حرم
کی توسیع سے لیکر تمام بڑے بڑے پروجیکٹ کو کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کیا اسے
سعودی حکومت سے قرض یا مدد نہیں مل سکتی ہے ۔جس طرح ہندوستان میں ایک مشتبہ
شخص کو یہا ں کی حکومت اور بینکوں نے خطیر رقم قرض دیا لیکن وہ ملک چھوڑ کر
بھاگ گئے ہیں ۔کہا جا رہا ہے کہ وجئے مالیا کنگ فیشر فلائٹ اور کنگ فشر
شراب کے علاوہ باہر ملکوں میں بھی اس کی ذاتی کمپنی ہے ۔اس کے با وجود
ہندوستان کی حکومت نے اسے بھر پور مدد دی ہے تو کیا سعودی عرب حکومت اپنے
معتبر اورلائق کمپنی کی مدد نہیں کر سکتا ہے ۔یہ سوچنے کا مقام ہے ۔لیکن
ایک بات تو طے ہے آج سعودی عرب نے جس طرح اپنے ہی پڑوسی عرب ملکوں میں آگ
میں تیل ڈالنے کا کام کیا ہے اس نتیجہ ہے کہ وہ خود اقتصادی مندی کا شکار
ہو چکا ہے ۔اس کے ہاتھ پیر پھولنے لگے ہیں ۔جس طرح شام کی جنگ بھڑکا کر غیر
یقینی کی صورت حال میں پہنچا کر ہاتھ کھینچ لیا ہے اور معصوموں کو درندوں
کے حوالے کر دیا ہے اس کی آہ رنگ تو لائے گی ہی ۔اس کے علاوہ یمن میں جس
طرح معصوموں کا خون ہو رہا ہے اس کی آہ بھی لگے گی اور جس طرح صدام حسین کے
وقت امریکہ کا ساتھ دیا اور افغانستان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا اس کا
انجام بھی یہی ہے ۔ا سکے علاوہ مصر میں سعودی کا جو قبیح چہرہ دنیا کے
سامنے ظاہر ہوا اس سے سب واقف ہیں اس کے خمیازہ بھی اسے بھگتنا پڑ رہا ہے ۔امریکہ
کو کیا ہے اسے تو شکار چاہئے کسی کو کسی سے خوف دیکھا کر ہتھیار کی تجارت
کرنا ہے اور اس ملک کو دیوالیہ بنانے کیلئے اسے بم بارود کے ڈھیر حوالے کر
دینا ہے ۔جو اس کا مقصد تھاا س میں وہ کامیاب ہے وہ امیر سے امیر ترین ہوتے
جا رہا ہے اور عرب کا ستارہ مرکز سعودی عرب اس دام فریب میں آکر اپنا ہی
نقصان کر بیٹھا اورجانے انجانے میں لاکھوں مسلمانوں کے قتل کا ذمہ دار بھی
بن گیا ۔اب ان کی بڑی بڑی ناز اور فخر کے لائق کمپنیاں دیوالیہ پن کی شکار
ہو رہی ہے ۔
|
|