(١) حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” الکوثر“ جنت میں نہر ہے، اس کے دونوں
کنارے سونے کے ہیں، اس میں موتی اور یاقوت جاری ہیں، اس کی مٹی مشک سے
زیادہ خوشبو دار ہے، اس کا پانی شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ سفید
ہے۔ (سنن ترمذیرقم الحدیث : ٣٣٦١ امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے)
(٢) کوثر سے مراد حوض ہے، حضرت انس (رض) بیان کرت یہیں کہ رسول اللہ (صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے اچانک آپ کو اونگھ آگئی،
آپ نے مسکراتے ہوئے سربلند کیا اور فرمایا : ابھی مجھ پر ایک سورت نازل
ہوئی ہے، پھر آپ نے پڑھا :” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ انا اعطینک الکوثر۔
فضل الربک وانحر۔ ان شائنک ھوالابتر۔“ پھر آپ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو
کہ کوثر کیا چیز ہے ؟ ہم نے کہا : اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ عمل ہے، آپ
نے فرمایا : یہ وہ نہر ہے جس کا میرے رب عزو جل نے مجھ سے وعدہ کیا ہے، اس
میں خیر کثیر ہے اور یہ وہ حوض ہے جس پر قیامت کے دن میری امت وارد ہوگی،
اس کے برتن ستاروں کے عدد کے برابر ہیں۔۔۔۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٠٠)
اس حدیث سے مخالفین یہ استدلال کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) کو ” ماکان ومایکون“ کا علم نہیں تھا ورنہ آپ کو از خود معلوم ہوتا
کہ یہ شخص آپ کے دین اور آپ کی امت سے نکل چکا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ
حضتر انس (رض) سے روایت ہے کہ ہر پیر اور جمعرات کو رسول اللہ (صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم) پر امت کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔ (الوفا ص 810 مطبوعہ
مصر 1369 ھ) سو جس شخص نے دین میں نیا کام نکالا اس کا عمل بھی آپ پر پیش
کیا گیا تھا، لہٰذا اس حدیث سے آپ کے علم کی نفی نہیں ہوتی، البتہ اس میں
آپ کی توجہ کی نفی ہے۔
کوثر سے مراد حوض ہو یا جنت میں نہر، یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) کی بیان کردہ تفسیر ہے، اس لئے یہ تفسیر تمام اقوال پر راجح اور فائق
ہے۔
(٣) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : کوثر سے مراد خیر کثیر ہے یعنی اللہ
تعالیٰ نے ہر خیر کثیر آپ کو عطا کردی اور اسلام، قرآن، نبوت اور دنیا اور
آخرت میں تعریف اور تحسین اور ثناء جمیل خیرات کثیرہ ہیں اور جنت کی سب
نعمتیں خیر کثیر ہیں۔ (صحیح البخاریرقم الحدیث، ٤٩٦٦ )
(٤) عکرمہ نے کہا : کوثر سے مراد نبوت اور کتاب ہے۔
(٥) حسن بصری نے کہا : کوثر سے مراد قرآن ہے۔
(٦) المغیرہ نے کہا : کوثر سے مراد اسلام ہے۔
(٧) الحسین بن الفضل نے کہا : کوثر سے مراد قرآن کو آسان کرنا اور احکام
شرعیہ میں تخفیف ہے۔
(٨) ابوبکر بن عیاش نے کہا : کوثر سے مراد آپ کے اصحاب آپ کی امت اور آپ کے
متبعین کی کثرت ہے۔
(٩) الماوردی نے کہا : کوثر سے مراد آپ کے ذکر کی بلندی ہے۔
(١٠) الماوردی نے کہا : کوثر سے مراد آپ کے ذکر کی بلندی ہے۔
(١١) ” الکوثر“ سے مراد آپ کے دل کا وہ نور ہے، جس نے آپ کو اللہ کے
ماسواسے سے منقطع کردیا۔
(١٢) کوثر سے مراد شفاعت ہے۔
(١٣) الثعلبی نے کہا : کوثر سے مراد آپ کے معجزات ہیں، جن سے آپ کی امت کو
ہدایت حاصل ہوئی۔
(١٤) بلال بن یساف نے کہا : کوثر سے مراد ” لا الہ الا اللہ محمد رسول
اللہ“ ہے اور ایک قول ہے : کوثر سے مراد دین کی فقہ ہے اور ایک قول ہے :
پانچ نمازیں ہیں۔
ان اقوال میں سے صحیح ترین قول اول اور ثانی ہے یعنی کوثر سے مراد جنت میں
ایک نہر ہے یا حوض ہے، جو محشر میں قائم ہوگا کیونکہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم) سے ثابت ہیں۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٢٠ ص ١٩٤، دارالفکر،
بیروت ١٤١٥ ھ)
|