قصہ ایک شناختی کارڈ کا
(Prof Niamat Ali Murtazai, Lahore)
کئی دنوں سے سوچ رہے تھے کہ شناختی کارڈ
پر اپنا مستقل پتہ تبدیل کروا لیں لیکن شناختی کارڈ کے دفاتر کی ’’خجل
خواری‘‘ کے قصے سن سن کر ہمت ہی نہیں پڑتی تھی۔ ویسے بھی ہم تقریباً ہر روز
اُسی سڑک پر سے گزرتے تھے، جہاں نادرا کاایگزیکٹو آفس تھا۔ وہاں بے تحاشہ َرش
دیکھ کر ویسے ہی ہول اٹھنے لگتے لیکن مجبوری یہ تھی کہ پتہ تبدیل کروانا
بھی ضروری تھا۔ اس لیے کئی دنوں کی سوچ بچارکے بعدبالآخرایک دِن ہمت کر ہی
ڈالی۔ سچی بات ہے کہ یہی وہ دن تھاجب ہمیں اِس مصرعے کے معانی معلوم ہوئے
کہ
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
جونہی ہم نادرا کے ٹاؤن شپ (کالج روڈ) کے ایگزیکٹو آفس کے قریب پہنچے تو سب
سے پہلا مسئلہ گاڑی کی پارکنگ کا پیش آیا۔ ہم تو ایگزیکٹو آفس اس لیے گئے
تھے کہ چھوٹے موٹے ’’ایگزیکٹو‘‘ ہم بھی اپنے آپ کو سمجھتے ہیں، اسی لیے
عامیوں کے لیے بنائے گئے آفس میں جانا اپنی توہین سمجھا ۔ جب مسئلہ گاڑی کی
پارکنگ کا دَرپیش ہواتو یہ سوچ کر صبر شکر کر لیا کہ باقی لوگ بھی تو ہماری
طرح ہی ایگزیکٹو ہوں گے اور گاڑیاں ان کے پاس بھی ہوں گی، بھلاکوئی ’’ایگزیکٹو‘‘
بھی ویگنوں اور رکشوں میں دھکے کھاتاہے ۔ اسی لیے پارکنگ کا مسئلہ درپیش
ہوا۔ خیر! کوئی آدھا کلومیٹر دور گاڑی پارک کر کے جب ہم ’’ایگزیکٹو آفس‘‘
کے بیرونی دروازے پر پہنچے تو دوسرا مسئلہ درپیش ہوا اور ہمیں فوراً
منیرنیازی یاد آ گئے جنھوں نے کہا تھا
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
مسئلہ بلکہ مرحلہ یہ تھا کہ آفس کے اندر کیسے گھسا جائے ۔ وہاں تو محاورتاً
نہیں حقیقتاً تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ ایک دو بار ہم نے ہمت کر کے اندر
گھسنے کی کوشش بھی کی لیکن عبث، بیکار۔ کافی دیر بعد جب ہماری ہمت ٹوٹنے ہی
والی تھی تو ہمیں ایک ’’روزن‘‘ دکھائی دیا جو انسانوں کے انبوہ کے درمیان
بناہوا تھا ۔ ہم موقع غنیمت جان کر اُسی روزن میں گھس گئے جس نے بالآخر
ہمیں آفس کے اندر پہنچا ہی دیا۔ اندر جا کر دیکھا کہ کوئی ڈیڑھ مرلے میں
ایگزیکٹو آفس قائم تھا جس کی کوئی کل سیدھی نہیں تھی۔ اﷲ جھوٹ نہ بلوائے
اتنا رَش تو حج کے دنوں میں جمرات کے گرد نہیں ہوتا جتنا ایگزیکٹو آفس کے
عملے کے گرد تھا۔ ’’نام بڑے اور درشن چھوٹے‘‘ کے مصداق نام ’’ایگزیکٹو آفس‘‘
اور حالت یہ کہ اے سی تو کُجا پنکھوں کی ہوا بھی ندارد۔ ہم عملے کو تو ہرگز
موردِالزام نہیں ٹھہرائیں گے کہ وہ بے چارے تو ایک دوسرے سے جُڑ کر بیٹھے،
پسینے میں شرابور اپنے کام میں جُتے ہوئے تھے۔ چہروں پر بیزاری عیاں اور
یوں محسوس ہوتاتھا کہ جیسے اُن مصیبت کے ماروں کو کسی نے باندھ کر بٹھادیا
ہو ۔ہمیں اُن کی حالتِ زارپر رحم آنے لگا لیکن کر بھی کیا سکتے تھے ۔
ہم کبھی ایک ٹانگ اور کبھی دوسری ٹانگ کے سہارے کھڑے ہو کر جب تھک چکے اور
ٹانگوں نے بھی ہمارابوجھ اٹھانے سے انکار کردیاتو سوچا کہ واپس چلتے ہیں
اور گھر سے مستقل پتہ ’’قبرستان‘‘ لکھ کر چیئرمین نادرا کو بھجوا دیتے ہیں
کہ مستقل پتہ تو بہرحال ہر کسی کا وہی ہے۔ ابھی ہم مراجعت کا سوچ ہی رہے
تھے کہ اسکرین پرہمارا ٹوکن نمبر جگمگانے لگا۔ ہم نے ہمت کر کے کاؤنٹر تک
پہنچنے کی کوشش کی لیکن بیکار۔ کاؤنٹر کی صورتِ حال یہ کہ لگ بھگ8 فٹ لمبی
اور 3 فٹ چوڑی جگہ پر تین کاؤنٹر بنے ہوئے تھے۔ ایک کاؤنٹر ٹوکن کا دوسرا
درخواستیں جمع کروانے کا اور تیسرا شناختی کارڈ ڈلیوری کا۔ ڈیڑھ مرلے کے
ایگزیکٹو آفس میں جب تین سو افراد گھسنے کی کوشش کریں تو حالت کیا ہو گی،
آپ خود ہی اندازہ لگا لیجیے۔ بہرحال پوری کوشش کے باوجود ہم کاؤنٹر تک نہ
پہنچ سکے اور سکرین پر اگلا ٹوکن نمبر جگمگانے لگا۔ یہ دیکھ کر ہم بھی طیش
میں آ گئے اور ہماری دیکھادیکھی اور کئی لوگ بھی ہمارے ہم آواز ہو گئے
(حالانکہ بے چارے عملے کا’’ ککھ‘‘ قصور نہیں تھا۔) جب لوگ ہماری قیادت میں
اکٹھے ہونے لگے، تب ہمیں احساس ہوا کہ کارواں کیسے بنتا ہے اور’’ بھیڑچال‘‘
کسے کہتے ہیں۔ بہرحال اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ ہمارے کاؤنٹر تک پہنچنے کا
راستہ صاف ہو گیا اور ہم بھی ’’اصلی تے وڈا‘‘ ٹوکن لینے میں کامیاب ہو گئے۔
بعدازاں کمپیوٹر پر تصویر کھنچوانے کا مرحلہ درپیش ہوا۔ ایک اڑھائی فٹ کے
کیبن میں ایک شخص ایسے سکڑا سہما بیٹھا تھا جیسے اسے حبسِ دوام کی سزا
سنائی گئی ہو۔ اُس نے ہمیں سٹول پربٹھا کر ہماری تصویر بنائی ۔پچھلے ڈیڑھ
گھنٹے میں یہی چند لمحات تھے جب ہمیں بیٹھنا نصیب ہوا ۔ہمارا جی تویہی
چاہتاتھا کہ وہیں بیٹھے رہیں لیکن اُس ’’مسکین صورت‘‘ نے ہمیں وہاں سے اُٹھ
جانے کااِذن دے دیا ۔طوہاََ وکرہاََ وہاں سے اُٹھے اورانتہائی لجاجت سے
سوال کیاکہ ’’اب کہاں جانا ہے؟‘‘۔ جواب ملا ’’کیبن سے باہر جاکر کھڑے
ہوجائیں اورجس طرف سے نام کی ’’منادی‘‘ آئے اُسی طرف سَرپَٹ ہوجائیں ۔ہم نے
جَل بھُن کرکباب ہوتے ہوئے کہا ’’یہ ایگزیکٹو آفس تو شروع ہونے سے پہلے ہی
ختم ہوجاتا ہے اور آپ یوں بات کررہے ہیں جیسے یہ ایکڑوں پرمحیط ہو ‘‘۔ کیبن
مین نے ہمیں صرف گھورنے پرہی اکتفا کیا اور ہم بھی مزید بحث کیے بغیر کیبن
سے باہر نکل آئے۔
کیبن سے باہرنکل کر دیکھا کہ سارے ’’ایگزیکٹو‘‘ ایک لائن میں کھڑے اپنا نام
پتہ بتلا رہے تھے۔ تب ہمیں اپنا بچپن یاد آنے لگا جب اسکول میں ہم باجماعت
پورے زوروشور سے ’’اک دونی دونی، دو دونی چار‘‘ رٹا کرتے تھے۔ یہاں بھی
’’ایگزیکٹو‘‘ اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے نظر آئے۔ہم نے بھی کھڑے کھڑے
اپنا سارا’’بائیوڈیٹا‘‘ بیان کیا ۔’’بائیوڈیٹا‘‘ بیان کرتے ہوئے ہمیں یوں
محسوس ہورہا تھا جیسے ہم کسی ’’تھانیدار‘‘ کو اپنا بیانِ حلفی ریکارڈ کروا
رہے ہوں ۔چوتھا مرحلہ فارم کا حصول تھا۔ یہاں زیادہ وقت نہیں لگا۔ ایک
نوجوان ہاتھ میں شناختی کارڈ فارموں کا پلندہ لیے نام پکارنے لگا۔ جس کا
نام اس نوجوان کی ’’زبان مبارک‘‘ پر آ جاتا اس کی آنکھوں کی چمک کئی گنا
بڑھ جاتی اور وہ فارم کی طرف یوں لپکتا جیسے ’’ابھی یا کبھی نہیں۔‘‘ فارم
کے حصول کے بعد پھر اُسی خجل خواری میں فارم جمع کروایا ۔فارم جمع کروانے
کے بعد نادرا کا نادرا شاہی حکم صادر ہوا۔’’دس دن بعد آنا‘‘۔ |
|