حسن ظن کی عصری معنویت
(Md Jahangir Hasan Misbahi, Dera Allah Yar)
حسن ظن ایک ایسی خوبی ہے جس کی معنویت
وافادیت سے ہم چاہ کر بھی انکارنہیں کرسکتے ،اگر ہم حسن ظن کو دل سے
اپنالیں تو اِس میں دورائے نہیںکہ ہم دینی اوردنیوی ہر طرح کے اختلافات و
اِتہامات سے پاک وصاف ہوجائیں، کیوںکہ حسن ظن نہ صرف مسلمانوںکا ایمانی
زیورہے،بلکہ یہ آپسی ہم آہنگی،صلح ومصالحت، اتفاق و اتحاد اور معاشرت
انسانی کی صلاح وفلاح کےلیے ناگزیربھی ہے۔
اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:
يٰاَيُّهَاالَّذِيْنَ آمَنُوااجْتَنِبُوْاكَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ
بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (حجرات:12)
ترجمہ:اے ایمان والو!بہت گمانوں سے بچو،بلاشبہ بعض گمان گناہ ہیں ۔
بدگمانی سے بچنے کا واضح مطلب ہے کہ ہم خودکو حسن ظن سے آراستہ کریں ورنہ
اس کا اثر یہ ہوگا کہ نہ ہم اپنے اندرپیدا ہونے والے انتشارواختلاف کو روک
پائیں گے اور نہ ہی انسانی معاشرے کی صالح تعمیرکرپائیںگے ،جب کہ نفس کا
تزکیہ اور معاشرے کی صالح تعمیروتشکیل ہماری دینی اور دنیوی دونوں ذمہ داری
ہے،اوراِسی ذمے داری کی صحیح انجام دہی کی وجہ سے ہماری عبادتوں میںحسن اور
نکھارپیداہوتاہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
حُسْنُ الظَّنِّ مِنْ حُسْنِ الْعِبَادَةِ۔((ابوداؤد،باب فی حسن الظن،حدیث
:۴۹۹۵)
ترجمہ: حسن ظن بہترین عبادت ہے۔
یہاں ایک سوال پیداہوتاہے کہ اللہ رب العزت جو بادشاہوں کا بادشاہ اور
حاکموںکا حاکم ہے ،بندوں کے تمام عیوب ونقائص جانتے ہوئے بھی اُن کی عیب
پوشی کرتارہتا ہےپھر کیا وجہ ہے کہ ہم عبدالستارہوکربھی اپنے کسی بھائی کی
عیب پوشی نہیں کرپاتے ہیں اورحسن ظن کی تاکیدوتلقین ہونے کے باوجوداپنے
بھائی کے ساتھ حسن ظن نہیں رکھ پاتے ہیں۔
اسی طرح اگرکوئی ناگواربات ہمارے بڑوںکے بارے میں کہی جاتی ہے تو وہ ہمیں
بُری لگ جاتی ہے اورہم اُسے کسی بھی طرح ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے ،لیکن
وہی بات اگر کسی اورکےبڑوں کے بارے میں کہی جاتی ہےتو وہ ہمیں اچھی لگ جاتی
ہے اورہم بڑی آسانی سے اُسےمان لیتےہیں،جب کہ حسن ظن کا تقاضا یہ ہے کہ جس
بات کوہم اپنےاکابرکے لیے معیوب سمجھتے ہیں اس کو ہرکسی کے اکابرکے لیےبھی
معیوب سمجھیںاور جسےہم اپنے اکابرکے لیے اچھا سمجھتے ہیں اُسے دوسروںکے
اکابر کے لیے بھی اچھا سمجھیں۔
اس کے علاوہ کبھی ایسا بھی ہوتاہےکہ فردمخالف صحیح العقیدہ مومن
ہےاورپابندشریعت بھی،اس کے باوجوداگر وہ کوئی مدلل بات بھی کہتا ہے تو ہم
بلاسوچےسمجھے اُس کو رَدکردیتے ہیں،جب کہ فردموافق صحیح العقیدہ مومن
توہےمگرپابندشریعت نہیں،اگروہ کوئی بات کہتا ہے غیرمدلل ہی سہی ،پھربھی ہم
اُسےنہ صرف خودقبول کرتے ہیں بلکہ دوسروںسے بھی قبول کروانے کے لیے پورا
زور لگادیتے ہیںجس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ دینی اور دنیوی دونوں
سطحوںپراختلاف وانتشار اور فتنہ وفساد کا بازارگرم ہوجاتا ہے، ایسے حالات
میں حسن ظن کی معنویت واہمیت بڑھ جاتی ہے ،کیوں کہ ایسے وقت میںاگرہم حسن
ظن سے کام لیتے ہیں تو نہ صرف امن وآشتی، آپسی ہم آہنگی، صلح ومصالحت
اوراتحادواتفاق کو فروغ دیتے ہیں،بلکہ معاشرتی انتشارواختلاف ختم کرنے کے
ساتھ ساتھ قرب الٰہی کے بھی حق دار ہوتے ہیں۔
چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ اللہ کےرسول صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشادفرمایاہے:
يٰأَيُّهَا النَّاسُ أَحْسِنُوا الظَّنَّ بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ فَإِنَّ
الرَّبَّ عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِهٖ۔ (شعب الایمان ،باب الرضامن اللہ تعالیٰ)
ترجمہ: اے لوگو!اللہ تعالیٰ کےساتھ حسن ظن رکھو،کیوںکہ اللہ اپنے بندوںکے
حسن ظن سے زیادہ قریب ہے۔
یہی وجہ ہے کہ علمائے ربانی اورمشائخ کرام نے ہمیشہ حسن ظن سے کام لیا ہے
اور اگرکبھی کسی سے بدگمانی ہوئی بھی تواُس کو اپنے ہی تک محدود رکھا ، کسی
پر ظاہر ہونےنہیں دیا،کیوںکہ کسی سے بدگمان ہونااورپھر اس کا اظہارکرناگناہ
ہے۔
اس پر روشنی ڈالتے ہوئےحضرت سفيان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
اَلظَّنُّ ظَنَّانِ، فَظَنٌّ إِثْمٌ، وَظَنٌّ لَيْسَ بِإثْمٍ،
فَأَمَّاالظَّنُّ الَّذِيْ هُوَ إِثْمٌ فَالَّذِيْ يَظُنُّ
ظَنًّاوَيَتَكَلَّمُ بِهٖ، وَأَمَّاالظَّنُّ الَّذِيْ لَيْسَ بِإثْمٍ
فَالَّذِيْ يَظُنُّ وَلَايَتَكَلَّمُ بِهٖ۔(ترمذی،باب ماجاء فی ظن
السوء،حدیث:۱۹۸۸)
ترجمہ:بدگمانی دوطرح کی ہوتی ہیں،ایک بدگمانی گناہ ہے اور ایک بدگمانی گناہ
نہیں ۔جوبدگمانی گناہ ہے وہ یہ ہے کہ کسی سے بدگمان بھی رہے اور اُس
کاپروپیگنڈ ہ بھی کرےاور جوبدگمانی گناہ نہیں ہے وہ یہ ہے کہ کسی سےبدگمان
تورہےلیکن اُس کاپروپیگنڈہ نہ کرے۔
اس لحاظ سےہمیں عملی طورپر اپنااپنا محاسبہ کرناہوگا کہ ہم کہاںتک حسن ظن
کے زیور سے مزین ہیں اور جس کوہم حسن ظن سمجھ رہے ہیں وہ حسن ظن ہے بھی یا
نہیں۔کہیں ایسا تونہیں کہ ہم احباب واقارب کے عیوب ونقائص کو بھی اپنے حسن
ظن کی وجہ سے محاسن وخوبیاں شمارکررہے ہیں اوراُن کی بڑی سے بڑی خرابیوں پر
بھی پردہ ڈال رہے ہیں،اس کے برخلاف دشمنوں کے محاسن و خوبیوںکو بھی عیوب
ونقائص گمان کررہے ہیں،اُن کی چھوٹی چھوٹی برائیوں کو بھی بڑا کرکے بیان
کررہے ہیںاورمزہ لےلےکر اُس کا پروپیگنڈہ بھی کررہے ہیں،اگرایسا ہےتوجان
لیں کہ ہم حسن ظن سے کوسوں دور ہیں۔ (مدیر ماہنامہ خضرراہ،الہ آباد) |
|