بھینس کے آگے بیِن!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ممنون
حسین ملتان آئے تو ان کے روٹ پر بھینسیں چڑھ آئیں، سکیورٹی اہلکاروں اور
متعلقہ حکام کی بھر پوراور فوری کوششوں سے بھینسوں کو سڑک سے ہٹادیا گیا،
انتظامیہ نے سکھ کا سانس لیا۔ کلمہ شکر ادا کیا گیا کہ یہ بھینسیں صدر صاحب
کی آمد سے کچھ دیر قبل ہی یہاں سے گزر گئیں، اگر یہ بھینسیں صدارتی قافلہ
گزرتے وقت وہاں سے گزر رہی ہوتیں تو سوچئے کیا بنتا؟ یہ بہت اہم معاملہ
ہے،اب نہ سہی، آئندہ اس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے ، چلیں یہ تو
صدرِمملکت کا قافلہ تھا، بھینسیں ہوں یا بکریاں یا کوئی انسان نما مخلوق ،
ایسے قافلوں کے سامنے آجائے تو مسائل پیدا کرتی ہیں۔ یہ تو صدر تھے کہ کوئی
ایکشن نہیں لیا گیا، اگر ایسا کبھی وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کے قافلے کے ساتھ
ہوگیا تو کیا ہوگا؟ سب سے پہلے مقامی پولیس افسران کو معطل کیا جائے گا، اس
کے بعد انکوائری سٹینڈ ہوگی، جس میں محکمہ لائیوسٹاک کے افسران کی شامت آئے
گی، مقامی انتظامیہ سے بھی پوچھ گچھ ہوگی، بعید نہیں کہ ان میں سے کسی
ناپسندیدہ فرد کو معطل بھی کردیا جائے۔ اور آخر میں بھینسوں والوں کی باری
آئے گی، کہ شہر میں بھینسیں کیا کررہی تھیں؟ یہ سب کچھ اب بھی ہونا چاہیے،
تاکہ آنے والے وقت کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکیں۔ چونکہ گورنر
پنجاب کا تعلق ملتان سے ہی ہے، اس لئے ان کے لئے یہ خاص امتحان ہے، کہ
اسلام آباد کی بلندیوں سے اترنے والے صدر پاکستان ملتان آکر کیا سوچیں گے،
یہاں بھینسیں بھی قابو نہیں آتیں اور پروٹوکول میں خلل اندازی کا ارتکاب
کرتی ہیں۔ اس اہم ایشو کے حل کے لئے حکومت کو سر جوڑکر بیٹھنا پڑے گا۔ یہ
تجویز بھی ہو سکتی ہے کہ بھینسوں کو شہر بدر کردیا جائے، ویسے یہ کارِ خیر
وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے، مگر کچھ ہی عرصہ بعد یہ کہانی پھر وہیں پر
آجاتی ہے۔ ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ اگر شہر میں کچھ بھینسیں بچ رہیں تو ان
کی تربیت کا بندوبست کیا جائے، اس کے لئے محکمہ لائیوسٹاک کو چاہیے کہ وہ
وفاقی وزارت تعلیم سے رابطہ کرے، کیونکہ یہ وزارت اب صرف ٹریننگ کے فرائض
ہی سرانجام دیتی ہے، امکان غالب یہی ہے کہ یہ لوگ انسانوں کی تربیت کے
فرائض انجام دے چکے ہونگے (کیونکہ کافی عرصے سے اور بہت جوش وخروش سے یہ
کام جاری ہے)۔ بھینسوں کے آگے بیِن بجانے کا بندوبست بھی کیا جاسکتا ہے،
تاکہ وہ مصروف رہیں اور روٹ متاثر نہ ہو۔
صدر کی آمد کی بنا پر دوسری طرف بھی سڑک پر ٹریفک جام تھی، مسافر پریشان
تھے، کسی نے بچوں کو سکول سے لینا تھا، تو کسی نے خاص کام کے لئے دوسری جگہ
پہنچنا تھا، اسی میں رش میں ایک ایمبولینس بھی پھنسی ہوئی تھی، گاڑی کے آگے
جانے کا راستہ نہیں تھا، پولیس نے بیرئیر لگا کر راستہ روک رکھا تھا، مریض
کے واسطے سے پولیس کی منت سماجت کی گئی، مگر گاڑی کو آگے نہ جانے دیا گیا،
مریض کے ساتھیوں نے اسے سٹریچر پر ڈال کر بیریئر کراس کروانے کی کوشش کی تو
پولیس نے وہ بھی ناکام بنا دی۔ آخر درد سے کراہتے مریض کو انسانی بیساکھیوں
کے ذریعے لے جایا گیا۔ چونکہ صدر کے پروٹوکول اور سکیورٹی کا تقاضا تھا کہ
تقریب کے مقام اور تمام راستوں کو بلاک کردیا جائے، چنانچہ قانون کی
پاسداری کرتے ہوئے ایسا ہی کیا گیا۔ دیگر روٹوں پر لوگوں کو کون کونسی
پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا یہ رپورٹ نہیں ہوئیں۔
صدر مملکت کی سکیورٹی نے جب بھینسوں کو سڑک سے ہٹانے کے بعد انتظامیہ نے
ابھی سکھ کا سانس لیا ہی تھا کہ پروٹوکول کی ایک گاڑی نے چلنے سے جواب دے
دیا۔ اس گاڑی کو دھکا لگانے والوں کی کمی نہ تھی، کہ پوری انتظامیہ دستیاب
تھی، چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ صدر ہوں یا گورنر ، یہ لوگ بلاشبہ وفاقی حکومت
یعنی میاں نواز شریف کی مہربانیوں نے نتیجے میں یہاں تک پہنچے ہیں۔ تاہم یہ
بھی حقیقت ہے کہ گورنر صوبے میں وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے، یعنی گورنر صدر
نے نمائندہ ہوتے ہیں۔ اب دیکھیں گورنر پنجاب کہ جن کا تعلق ملتان سے ہی ہے،
بھینسوں کے معاملے میں کیا قدم اٹھاتے ہیں، شہر کی صفائی کا خیال کس طرح
رکھتے ہیں، اپنے باس کے حفاظتی جلوس میں خراب گاڑیوں کا کیا بندوبست کرتے
ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ عوام نما مخلوق جو سڑکوں پر ہجوم کردیتی
ہے، اس کا مستقل کیا علاج سوچتے ہیں؟ یہ سوالات صرف گورنر کے سوچنے کے
نہیں، صوبائی انتظامیہ کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے، ان تمام مخلوقات کو
قابو کرنے کے لئے سخت اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ |
|