پوچھتا ہے جب کوئی کہ دنیا میں محبت ہے کہاں؟
مسکرا دیتا ہوں میں اور یاد آ جاتی ہے ماں
ماں کے بارے میں بولنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے برابر ہے۔ایک ایسا سمندر جسکی
اتھاہ گہرائیوں کا اندازہ بھی کرنا انسانی عقل سے بالاتر ہے ۔ہر رشتے کی محبت کو
الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے مگر ماں کی محبت ناقابلِ بیاں ہے ۔ماں کہنے کو تو
تین حروف کا مجموعہ ہے لیکن اپنے اندر کل کائنات سموئے ہوئے ہے۔ماں کی عظمت اور
بڑائی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ خداوندکریم جب انسان سے اپنی محبت کا
دعوی کرتا ہے تو اس کیلئے ماں کو مثال بناتا ہے۔ماں وہ ہستی ہے جسکی پیشانی پہ
نور،آنکھوں میں ٹھنڈک، الفاظ میں محبت ،آغوش میں دنیا بھر کا سکون شفقت اور پیروں
تلے جنت ہے۔ماں وہ ہے جسکو اک نظر پیار سے دیکھ لینے سے ہی ایک حج کا ثواب مل جاتا-
بوعلی سینا نے کہا اپنی زندگی میں محبت کی سب سے اعلی مثال میں نے تب دیکھی جب سیب
چار تھے اور ہم پانچ تب میری ماں نے کہا مجھے سیب پسند ہی نہیں ہیں۔جب بچہ ماں کے
پاس ہوتا ہے تو ہر غم اس سے دور ہوتا ہے ماں خود بھوکا رہ لے گی مگر اپنے بچوں کو
پیٹ بھر کر کھانا کھلائے گی،سرد راتوں میں جب اسکا بچہ بستر گیلا کر دیتا ہے وہ
ساری رات خود تو گیلی جگہ پر سو جائے گی لیکن اپنے بچے کو خشک جگہ پر سلائے گی۔بچہ
اگر گھر دیر سے پہنچے تو اسکی حالت ریت پر پڑی مچھلی کی مانند ہو جاتی ہے،ماں تو وہ
ہستی ہے جسکا بچہ مرا ہوا بھی پیدا ہو جائے تو وہ اس غم سے باہر نہیں آ پاتی۔لیکن
یہی بچہنا جانے کب بڑا ہو جاتا ہے اسکی رگوں میں خون کی تیزی ماں کے دل کو عجب
تقویت بخشتی ہے ۔پھر ایک دن آتا ہے جب اس بچے کو دنیا سے محبت یو جاتی ہے اسے ماں
کی روک ٹوک چبھنے لگتی ہے اور وہ ماں کی نصیحتوں سے بیزار آجاتا ہے۔
ماں سےمحبت کے اظہار کیلئے کسی ایک دن کو مختص نہیں کیا جا سکتا سال میں ایک دن منا
لینے سے بات نہیں بنتی بلکہ اسلام میں تو ہر دن ہر لمحہ مدر ڈے ہے خوش قسمت ہیں وہ
لوگ جن کی مائیں حیات ہیں۔مگر افسوس مادیت ذدہ معاشرے نے خاندانی نظام کو بری طرح
متاثر کیا ہے جس سے والدین کی عزت رسمی ہو کر رہ گئی ہے۔وہ معاشرہ جہاں ماں کے
قدموں تلے جت اور باپ کی رضا میں رب کی رضا ہوتی تھی آج وہی معاشرہ اس جنت اور اس
رضائے الہی سے دامن چھڑاتا نظر آتا ہے۔ماں باپ سے بدکلامی کرنے کو خدا نے سخت نا
پسند کیا ہے یہاں تک کہ لفظ اف کو بھی خدا نے ماں باپ کی شان کے خلاف قراردیا ہے
کیونکہ اس لفظ سے مزاج کے خراب ہونے کی بو آتی ہے۔
حضرت موسی علیہ السلام نے ایک دفعہ اللہ تعالی سے پوچھاکہ جنت میں میرے ساتھ کون ہو
گا؟ارشاد ہوا فلاں قصاب ہو گا۔۔۔آپ کچھ حیران ہوئے اور اس قصاب کی تلاش میں چل
پڑے۔وہاں دیکھاتوایک قصاب اپنی دوکان میں گوشت بیچنے میں مصروف تھا۔اپنا کاروبار
ختم کر کے اس نے گوشت کا ایک ٹکڑا کپڑے میں لپیٹااور گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔حضرت
موسی علیہ السلام نے اس قصائی کے گھرکے بارے میں مزید جاننے کیلئے بطور مہمان گھر
چلنے کی اجازت چاہی۔گھر پہنچ کر قصائی نے گوشت کو پکایاپھر روٹی پکا کر اس کے ٹکڑے
شوربے میں نرم کئے اور دوسرے کمرے میں چلا گیا جہاں ایک نہایت کمزور بڑھیا پلنگ پر
لیٹی ہوئی تھی۔
قصاب نے بمشکل اسے سہارا دے کر اٹھایااور ایک لقمہ اس کے منہ میں دیتا رہا۔جب اس نے
کھانا تمام کیا تو بڑھیا کا منہ صاف کیا۔بڑھیا نے قصاب کے کان میں کچھ کہا جسے سن
کر قصاب مسکرایا اور بڑھیا کو واپس لآ کر باہر آگیا۔حضرت موسی علیہ السلام جو یہ سب
کچھ دیکھ رہے تھے۔آپ نے قصاب سے پوچھا یہ عورت کون ہے اور اس نے تیرے کان میں کیا
کہا جس پر تو مسکرادیا؟قصاب بولا ارے اجنبی !یہ عورت میری ماں ہے۔گھر پر آنے کے بعد
میں سب سے پہلے اس کے کام کرتا ہوں یہ روز خو ش ہو کر مجھے دعا دیتی ہیکہ اللہ تجھے
جنت میں حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ رکھے گا جس پر میں مسکرا دیتا ہوں کہ بھلا
میں کہاں اور موسی کلیم اللہ کہاں
ماں کے بارے میں تابش نے کہا تھا
ایک مُدت سے ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
حضوراکرم ﷺ نے ماں کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میں عشاء کی نماز پڑھ رہا
ہوتا اور میری ماں مجھے پُکارتی بیٹا محمد تو میں اپنی نماز توڑ کر اپنی ماں کی بات
سننے کیلئے بھاگا بھاگا آتا اس وقت انسان اپنے آپ کو ایک بچے کی مانند محسوس کرتا
ہے اور یہ یادیں انسان کو ماضی کے دریچوں میں لے جاتی ہیں۔جب وہ ایک چھوٹا معصوم
بچہ تھا جسے ماں اپنی آغوش میں لیکر اپنی مامتا کے آنچل میں ڈھانپ رکھتی تھی اور اب
وہ ایک مختلف دنیا میں زندگی بسر کر رہا ہے ۔بے شک رونے سے تزکیہ نفس ہوتا ہے،روح
کی آلودگی ختم ہوتی ہے اور قلب کو سکون ملتا ہے ۔لیکن ماں باپ کی قدر انکی زندگی
میں ہی کر لیں بعد میں بہائے جانے ولے آنسو دل کا بوجھ تو ہلکا کر سکتے ہیں مگر
ضمیر مسلسل ملامت کرتا رہے گا ۔ماں باپ کی خدمت کریں انکے آگے خاموشے اختیار
کریں۔غصے میں صبر سے کام لیں۔ماں باپ سے محبت خدا کی جانب سے فرض کی گئی ہے اور کا
اگر بھی خدا ہی دے گا میں نے اپنی ماں سے پوچھا : جن کی مائیں مر جاتی ہیں ان کے
لیے دعا کون کرتا ہے۔۔۔؟میری ماں نے کہا: بیٹا دریا اگر خشک بھی ہوجائے تو مٹی سے
نمی نہیں جاتی۔
ماں مری تے رشتے ہی مُک گئے
کھیڈ سی ماں دے ساواں نال |