زہریلی مٹھائی ، سماجی رویے اورسانحہ کے اصل ذمہ دار
(Muhammad Siddique Prihar, Layyah)
ہمیں اپنے رویوں پرنظرثانی کرناہوگی۔ہمیں
اپنے سماجی کردارپرپھرسے غورکرناہوگا۔ہمیں اپنے سماجی برتاؤکوبھی پھرسے
دیکھناہوگا۔ہمارے معاشرے میں، ہمارے ریوں میں، ہمارے کردارمیں ایسے ایسے
المیے پائے جاتے ہیں کہ جنہیں کوئی المیہ ماننے کوتیارہی نہیں۔ان سماجی
المیوں میں سے ایک المیہ کی وجہ سے ضلع لیہ کی تحصیل کروڑ کے تھانہ فتح
پورکے چک نمبرایک سوپانچ ایم ایل اورگردونواح چکوک میں ایک اورالمیہ نے جنم
لیا۔جس میں تیس سے زائدافرادجا ں بحق جبکہ ۰۷ سے زائد متاثرہوئے۔پولیس
اوردیگرانکوائری کمیٹیوں نے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے وقوعہ کی تفتیش
اورتحقیق کی۔ تاہم اس پہلوپرکسی نے نہ توتفتیش کی اورنہ ہی تحقیق۔جیسا کہ
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرلیہ کیپٹن (ر) محمدعلی ضیاء نے اسی وقوعہ کے حوالے سے
پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اندراج مقدمہ کے بعد پولیس نے اول روزسے ہی
اپنی تفتیش کادائرہ وسیع رکھا۔اوردوران تفتیش تمام ترپہلوؤں
کومدنظررکھاگیا۔سب سے زیادہ متاثرہ عمر حیات کے خاندان کی علاقہ میں
موجودسابقہ رنجشوں،ہوٹل مالک کے علاقے میں موجودکسی سے عداوت،مذہبی پہلوؤں
سمیت ہرزاویے سے وقوعے جائزہ لیاگیا۔ان کاکہناتھا کہ حقائق کوجاننے کیلئے
انتہائی قابل پولیس افسران پرمشتمل سات رکنی ٹیم تشکیل دی گئی تفتیش کی
ہرلمحے براہ راست نگرانی میں نے خودکی جبکہ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی
کرائم سین یونٹ کی معاونت بھی حاصل رہی۔دوران تفتیش ۵۳ پارسل تیارکرکے
پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی سے رزلٹ حاصل کئے گئے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی
نے وقوعے کی حساسیت کومدنظررکھتے ہوئے ہربھیجے گئے پارسل کارزلٹ فوری فراہم
کیا۔ڈی پی اونے کہا کہ طارق ہوٹل کے نزدیک واقع دکاندار خوشی محمد،
محمدارشد،غلام یٰسین ، عبدالغفارکوبھی انٹیروگیٹ کیا۔دوران انٹیروگیشن
عبدالغفارڈیلر پیسٹی سائیڈ نے انکشاف کیا کہ اس نے کچھ پیسٹی سائیڈ طارق
ہوٹل پررکھی تھیں۔وقوعہ سے ایک روزقبل جب وہ اپنی پیسٹی سائیڈ اٹھانے گیا
تواس نے دیکھا کہ اس کی ایک پیسٹی سائیڈ بوتل کھلی اورخالی پائی گئی جس
کااس نے کسی سے تذکرہ کئے بغیراپنے سورج مکھی کے کھیت میں بوتل
کوچھپادیا۔پولیس نے پیسٹی سائیڈ بوتل ایکسیڈ جس میں زہر’’ کلوروفیناپائر‘‘
پایا جاتا ہے برآمدکرلی۔ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے رزلٹ کے مطابق لڈو
اوروفات پاجانے والے افرادکے جسم میں بھی زہر’’ کلوروفیناپائر‘‘ کاہونا
پایا گیا۔اس وقوعہ کے حقائق جاننے کیلئے پولیس نے جس طرح اورجن پہلوؤں
کومدنظررکھ کرتفتیش کی اس نے ایسا ہی کرناتھا اوریہی پولیس کی ذمہ داری بھی
تھی۔جس پہلوکی ہم بات کررہے ہیں اس پرغورکرناصرف پولیس نہیں معاشرے کے
ہرفردکی ذمہ داری ہے۔ اس پہلوکوسمجھنے کیلئے ہمیں ان واقعات کوسامنے
رکھناہوگا۔لاہورمیں روٹی گول نہ پکانے پرباپ اوربھائی نے لڑکی
کومارمارکرقتل کردیا۔ پھراس کی لاش مردہ خانہ کے باہرڈال آئے۔اس کارازسی سی
ٹی وی کیمروں کی فوٹیج نے کھولا۔فیصل آبادمیں ایک برف فروش نے برف کھانے
پردس سالہ لڑکے کوقتل کردیا۔ایک دکان پرایک لڑکاکام سیکھتا تھا۔دکاندار نے
اس لڑکے کوکسی کام پربھیجا ۔لڑکاکام کرکے جب واپس آیا توریل گاڑی گزررہی
تھی وہ دکاندار بھی دیکھ رہا تھا کہ ریل گاڑی گزررہی ہے اورلڑکالائن کے
دوسری طرف انتظارمیں کھڑا ہے۔اس کے باوجوداس نے اس لڑکے کے ساتھ جوکیا وہ
انتہائی ناقابل برداشت رویہ تھا۔ایک اوردکان پر ایک لڑکادیہات سے کام
سیکھنے آیاکرتا تھا۔بارہ تیرہ سال کے اس لڑکے کے جسم پرسخت سردیوں کے موسم
میں بھی فقط قمیض اورشلوارہی ہوتے تھے۔پاؤں میں جوتا بھی سادہ ہوتا تھا۔
دوسرے لفظوں میں اس بیچارے کے پاس نہ تو گرم کپڑے تھے اورنہ ہی پاؤں
کوسردیوں سے بچانے کیلئے بوٹ۔سخت سردیوں کے دنوں میں ایک دن اس لڑکے کودکان
پرآنے میں چندمنٹ دیرہوگئی ۔راقم الحروف کی موجودگی میں دکاندار نے اس لڑکے
کوانتہائی غصے میں فون پرکہاکہاں پر ہے ، ٹائم دیکھا ہے،اس کے علاوہ اس نے
جوالفاظ کہے وہ تحریر نہیں کیے جاسکتے۔راقم الحروف نے اس سے کہا کہ اتنی
سخت سردی میں اس کودیرہوبھی گئی ہے توکیاہوا۔ وہ سادہ کپڑوں میں کتنی دورسے
سردی میں آتا ہے۔ آج تو دھندبھی ہے ۔دکاندارکہنے لگا کہ اتنے گاہک بیٹھے
ہیں۔راقم الحروف نے کہا کہ تجھے گاہکوں کی فکرہے اس لڑکے کااحساس نہیں۔ایک
اوردن اس دکاندارکوکہاگیا کہ اس شاگردکوگرم کپڑے توخریدکردے تووہ کہنے لگا
کہ اس کوسردی نہیں لگتی۔جیسے وہ لڑکاپلاسٹک نہ بناہوا ہو۔ہم ایک دفترمیں
کام کرتے تھے۔ ایک دن واپڈا والے دفترکابجلی کامیٹرکاٹنے آگئے۔ہم دفترکے
مالک کوباربارفون کرتے رہے اس نے فون نہ اٹھایا۔واپڈاوالوں کومیٹراتارنے سے
بھی روکتے رہے۔ انہوں نے کچھ دیرانتظارکیا پھرمیٹراتارکرچلے گئے۔کا
دفترمالک شام کودفترآیا تومجھ پرپوری قوت سے چڑھائی کردی۔توانہیں کہتا کہ
فلاں کادفتر ہے۔اللہ نے اس وقت مجھے برداشت عنائت کی جس کی وجہ سے کوئی
نقصان نہ ہوا۔ راقم الحروف ایک اور دکان پرکام کرتا تھا۔ایک دن راقم الحروف
گھرپرتھا کہ دکاندارغصہ میں لال پیلاہوکر آیا اورگرجدارآوازمیں کہا کہ فلاں
چیزکہاں ہے۔راقم الحروف نے کہا کہ فلاں جگہ پڑی ہے۔ دکاندارپھراسی
گرجدارآوازمیں کہنے لگا وہاں نہیں ہے ۔ چل میرے ساتھ وہ چیزتلاش کرکے
دے۔راقم الحروف اس کے ساتھ گیا اوراپنی بتائی ہوئی جگہ سے ہی وہی
چیزاٹھاکردے دی ۔ ایک نوجوان ایک دکان پرکام کرتا تھا وہ صبح چھ بجے سے رات
گیارہ بجے تک دکان پرکام کرتا۔اس کودن اوررات کاکھانابھی بروقت نہیں ملتا
تھا۔ایک د کاندار اس نوجوان کے بھائی سے کہنے لگاکہ بھائی سے کہوکہ دکان
پروقت دیاکرے۔اس دکاندارکیلئے گویا کم سے کم روزانہ سولہ گھنٹے کوئی وقت ہی
نہیں تھا وہ اس نوجوان کے بھائی کوبھائی کے دکان پرکم وقت کام کرنے کی
شکایت کررہا تھا۔اس نوجوان کو وہ دکاندار روزانہ ایک سوروپے دیاکرتاتھا ۔
راقم الحروف نے واقعات لکھے ہیں کرداروں کے نام نہیں لکھے اس لیے قارئین
کوسماجی رویوں کی یاددہانی کرانا مقصود ہے کسی کی تشہیرکرنا نہیں ۔قارئین
ان واقعات میں چھپے ہوئے المیوں اوررویوں پرغورکریں اورپھر ڈسٹرکٹ پولیس
آفیسر لیہ کی اس بات کوغورسے پڑھیں آپ کووہ پہلونظرآجائے گاجس کی طرف ہم
توجہ دلاناچاہ رہے ہیں۔ڈی پی اونے مزیدبتایا کہ طارق اورخالددونوں مٹھائی
کی دکان پرکام کرتے تھے۔جن کاوالد دوسال قبل وفات پاگیا۔طارق محمودچھوٹے
بھائی کی تذلیل اورڈانٹ ڈپٹ کرتارہتا تھا۔سترہ اپریل کوطارق نے اپنے بھائی
خالدکوفون پرگالیاں دیں۔جس کا خالدکوبہت زیادہ رنج پہنچااوراس نے تذلیل
کابدلہ لینے کیلئے زہریلی پیسٹی سائیڈ ایکسیڈ جوکہ عبدالغفارکی ملکیتی تھی
اپنے بڑے بھائی طارق کی طرف سے تیارکیے گئے لڈوکے خام مال میں ڈال دی۔دوران
تفتیش پیسٹی سائیڈبوتل کاڈھکن ، سیل اور بوتل کھولنے کیلئے استعمال کی گئی
چھری کوبھی برآمدکرلیاگیا۔ان کاکہناتھا کہ ملزم خالدمحمودنے عدالت کے
روبروپیش ہوکر اپناجرم تسلیم کرلیا۔ڈی پی اونے کہا کہ جب طارق نے
لڈوتیارکیے تواسے بخوبی اندازہ ہوگیا کہ اس کاتیارکیاگیا خام مال خراب
ہوچکا ہے لیکن محض ہزارپندرہ سوروپے کی لالچ میں آکرخام مال کوضائع کرنے کے
بجائے اس کے لڈوتیارکرکے فروخت کردیے۔ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرنے کہا کہ بھائیوں
کی معمولی رنجش نے ہنستے، بستے گھراجاڑ دیئے۔اس واقعہ کے اس پہلو اوراس
تحریرمیں لکھے گئے دیگرواقعات کوملاکرپڑھیں توبھائیوں کی رنجش نے نہیں اس
المیہ اوررویہ نے ہنستے بستے گھراجاڑے ہیں جوان واقعات میں چھپے ہوئے
ہیں۔ہمارے معاشرے میں یہ رویے وافرمقدارمیں پائے جاتے ہیں کہ کسی اورکادس
لاکھ روپے کابھی نقصان ہوجائے توہم کہتے ہیں کوئی بات نہیں ۔نقصان ہوجایا
کرتے ہیں۔اس کے برعکس ہمارا پچاس روپے کابھی نقصان ہوجائے تویہ بہت
بڑانقصان اورناقابل برداشت ہوتا ہے۔دکانوں، مارکیٹوں میں کام کرنے والے
لڑکے معمول سے چارگھنٹے بھی زیادہ دکان پرکام کرلیں تو دکاندارکیلئے معمولی
بات ہوتی ہے اگروہی لڑکا وقت سے صرف آدھا گھنٹہ پہلے چلاجائے
تودکاندارکیلئے یہ برداشت سے باہرہوتا ہے۔خالدکے ساتھ طارق نے جورویہ
اپناہواتھا ۔ وہ صرف طارق نے ہی نہیں اپنایا ہوا۔یہی رویہ ہراس شخص نے
اپنارکھا ہے جس کے ماتحت ایک یااس سے زیادہ افرادکام کرتے ہیں۔نوبت تویہاں
تک پہنچی ہوئی ہے کہ شیشے کاگلاس بھی ٹوٹ جائے تودکاندارآپے سے باہراورلال
پیلے ہوجاتے ہیں۔جودکاندارشیشے سے اس گلاس جومعمولی سی ٹھوکر بھی برداشت
نہیں کرسکتاکاٹوٹنابرداشت نہیں کرسکتے وہ اورنقصان ہونے پردکانوں پرکام
کرنے والوں کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہوں گے اس کااندازہ لگاناکوئی مشکل
نہیں۔چک نمبرایک سوپانچ ایم ایل اوردیگرچکوک میں زہریلی مٹھائی کھانے سے
ہونے والی اموات کے ذمہ دارنہ تومٹھائی بنانے والے ہیں نہ وہ پیسٹی سائیڈ
ڈیلر ہے جس نے اپنی پیسٹی سائیڈ مٹھائی والی دکان پررکھی تھی اور نہ ہی وہ
لڑکا ہے جوبھائی کی طرف سے آئے روزکی ڈانٹ ڈپٹ اوراپنی تذلیل سے دل برداشتہ
ہوکر پیسٹی سائیڈ لڈؤں کے خام مال میں ڈال دی۔اس المناک واقعہ کے اصل ذمہ
دار ہمارے وہ رویے ہیں جوہم اپنے ماتحت کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں۔ہم انہیں
معمولی نقصان کی سزابھی بڑے سے بڑے نقصان سے بھی زیادہ دیتے ہیں۔ معمولی سے
نقصان پرآپے سے باہرہوتے وقت اورلال پیلے ہوتے وقت ہم یہ کبھی نہیں سوچتے
کہ وہ بھی توانسان ہیں ان سے بھی نقصان ہوسکتا ہے ،ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ
ان کی بھی عزت نفس ہے۔دکانوں، مارکیٹوں، ورکشاپوں ، کاریگروں کے پاس کام
کرنے والوں کی عزت نفس روزانہ پامال ہوتی ہے۔اس کانہ توکسی کواحساس ہے
اورنہ ہی ادراک۔جب بھی کسی ماتحت سے نقصان ہوجائے تویہی تصورکرلیاجائے کہ
یہی نقصان دکاندار، کاریگرکے اپنے ہاتھ سے ہوجاتا تووہ اس کی سزاکس
کودیتااوروہ کیاکرتا۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال تک
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کی ہے۔ گھرکے کام کاج کیے
ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک باربھی مجھے اف نہیں کہا۔اس
حدیث مبارکہ سے ہمیں درس ملتا ہے کہ ہمیں اپنے ماتحتوں کے ساتھ کس طرح
کابرتاؤکرناچاہیے۔نقصان ہوجایاکرتے ہیں اوروہ بھی انسان کے ہاتھوں ہی ہوتے
ہیں۔نقصان ہوجانا بڑی بات نہیں نقصان کوبرداشت کرنابڑی بات ہے۔جس سے نقصان
ہوجائے اس کوٹیکنیکل طریقے سے بھی سمجھایاجاسکتا ہے۔زہریلی مٹھائی سے ہونے
والی اموات کے اصل مجرم عدم برداشت،ہمارے رویے ، ماتحتوں کے ساتھ ہمارا
برتاؤ،غصہ، ماتحتوں کی عزت نفس کاعدم تحفظ اورلالچ ہیں۔نقصان ہونے پرسرزنش
کرنی بھی ہوتواتنی کریں کہ اسے نقصان کااحساس ہو جائے اورجونقصان ہوجانے
پرپہلے ہی شرمندہ ہواس کی سرزنش کرنا عقل مندی نہیں۔ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ
کام کرنے والوں اورسیکھنے والوں کوکھلی چھٹی دے دی جائے چاہے وہ کتناہی
نقصان کیوں نہ کرلیں انہیں کچھ نہ کہا جائے۔ ہروقت ڈانٹ ڈپٹ بھی اچھی
نہیں۔ایسے لوگ بھی ہیں جوشاگردوں، ماتحتوں کوکوئی چیز اٹھانے یاپانی پلانے
کابھی کہیں گے توہ بھی غصے سے کہیں گے۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی
شاگردیاماتحت کوکوئی کام یابات سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے اوراس وقت اس
کوسمجھ نہیں آرہی ہوتی تواس کی پٹائی شروع کردی جاتی ہے۔ کسی بھی
شاگردیاماتحت کوکوئی کام یابات سمجھاتے وقت اس کوسمجھ نہ آرہی ہوتواس وقت
نہ سمجھانا ہی بہتر ہوتا ہے۔جب دیکھیں ذہن ٹھیک کام کررہا ہے تواس وقت
سمجھادیا جائے۔زمینی حقائق کونظراندازکرکے کسی نقصان کی سزادینا یاڈانٹ ڈپٹ
کرنا بھی عقل مندی نہیں۔اس بات کویوں سمجھنے کی کوشش کریں کہ راستے میں
پھسلن ہے اورکوئی لڑکاگلاس لے کراس راستے سے آتے ہوئے گرجاتا ہے اس کے ہاتھ
پانی کاگلاس بھی گرجاتا ہے ۔تواس لڑکے کوکہا جائے کہ دیکھ کرنہیں چل سکتے
تھے، تمہاری آنکھیں نہیں ہیں کیا۔ اب یہ زمینی حقائق کونظراندازکرنانہیں
توکیا ہے۔جب راستہ ہی ایسا ہے تواس لڑکے نے گرنا ہی تھا۔اس میں لڑکے
کاکیاقصور ہے۔ آئے روزکی ڈانٹ ڈپٹ، سرزنش، گالم گلوچ ہرایک سے برداشت نہیں
ہوتی۔ایک نہ ایک دن برادشت جواب دے جاتی ہے پھروہ ایسا کرگزرتا ہے جیسا
مٹھائی فروش کے بھائی نے کیا۔زہریلی مٹھائی سے رونماہونے والے سانحہ کی
تحقیقات کرنے والوں، اس پرتبصرہ کرنے والوں اورتجزیہ نگاروں کوان رویوں،
المیوں اور برتاؤ کو بھی مدنظررکھناہوگا۔آئندہ اس طرح کے سانحات سے بچنا ہے
تواس طرح کے رویوں کوترک کرناہوگا۔ |
|