تباہی کی راہ
(Tariq Hussain Butt, UAE)
میڈیا کی یلغار کا سب سے بڑا فائدہ یہ
ہواہے کہ اب حقائق کو چھپانا ممکن نہیں رہا۔میڈیا کہیں نہ کہیں سے حقائق کو
ڈھونڈ نکالتا ہے اور پھر اپنی دکانداری سجا کر بیٹھ جاتا ہے۔کوئی میڈیا کی
سجائی گئی بساط پراس کی حسبِ منشا کھیلنے کی کوشش کرتا ہے یا کہ نہیں یہ
دوسری کہانی ہے لیکن یہ سچ ہے کہ میڈیا کی طاقت اپنا رنگ دکھا کر رہتی ہے
اور عوام کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے ۔پانامہ لیکس کو دیکھ لیجئے میڈیا نے
ایک ایسا ہنگامہ پرپا کر رکھا ہے جس کی زد میں پاکستان کے علاوہ بے شمار
دوسرے ممالک بھی شامل ہیں اور اسی سے میڈیا کی طاقت کا اندازہ لگایا جا
سکتا ہے۔ایک ہنگامہ ہے جو ہمیں میڈیا کی سکرینوں پر تو نظر آتا ہے لیکن
حقیقت میں کہیں موجود نہیں ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اینکر حضرات حکومت کو فارغ
کر کے اٹھیں گئے لیکن بوجوہ ایسا ہو تا نہیں ہے لیکن عوام میں ایک امید
ضرور ابھرتی ہے کہ حکومت جانے والی ہے حالانہ حکومت وہی کی وہی ہے۔حیران کن
امر یہ ہے کہ دنیا کی بھاغ دوڑ ہاتھوں میں لینے والا امریکہ اورسازشوں کا
ماسٹر مائنڈ اسرائیل میڈیا کی سونتی گئی تلواروں کی زد سے باہر ہیں کیونکہ
پانامہ لیکس کے ہزاروں صحافی جن ممالک کی تنخواؤں پر کام کر رہے تھے ان کا
چٹا چھٹا تو کھولا نہیں جا سکتا تھا کیونکہ اپنے خاموش ان دا تاؤں کوتھوڑ ی
سے چھوٹ دینی تو ضروری تھی ۔یہ بات انتہائی غور طلب ہے کہ یہودی لابی
پاکستان میں انتشار اور بد امنی کی خواہاں ہے۔وہ پاکستان سے ازلی پرخاش
رکھتی ہے اور اس کی واحد وجہ پاکستان کاایٹمی پروگرام ہے جو اسرائیل کی
توسیع پسندی کی راہ میں سنگین رکاوٹ ہے۔اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ
پاکستانی قوم کے اندر لڑنے مرنے کی صلاحیت دوسرے بہت سے مسلم ممالک سے کہیں
بہتر ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر پاکستان اپنے سے چھہ گنا بڑے دشمن بھارت
کا مقابلہ کیسے کرتا؟ستمبر ۱۹۶۵ کی جنگ میں پاکستانی فوج نے جس جرات مندی
سے بھارتی سورماؤں کو خاک چاٹنے پر مجبور کیا تھا اس پر پوری دنیا انگشت
بدندان رہ گئی تھی۔ایک چھوٹی سی ریاست بھارت جیسی منی سپر پاور کو ہزیمت سے
ہمکنار کر دے تو پھر دنیا کا حیران ہونا سمجھ میں آتا ہے۔یہی ہے پاک فوج کا
وہ جذبہ جو اسے دنیا کی بہترین افواج میں جگہ دیتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں
کہ مسلم امہ کا درد اور اس کا اتحاد سدا سے پاکستان کی پہلی ترجیح رہی ہے
کیونکہ اس کے قائدین نے اپنے پیرو کاروں کو مسلم امہ کے اتحاد اور یکجہتی
کا درس دیا تھا اور شائد یہی وجہ ہے کہ پاکستانی کٹ تو سکتے ہیں لیکن
یکجہتی کے اس پیغام سے منہ نہیں موڑ سکتے ۔لاہور میں فروری ۱۹۷۴ میں دوسری
اسلامی کانفرنس کا کامیاب اور پر جوش انعقاد یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ
مسلم امہ کے وجود میں پاکستان دل کی مانند دھڑکتا ہے۔حکیم الامت ڈاکٹر
علامہ محمد اقبال کا یہ شعرپاکستانی قوم کی مسلم امہ سے محبت و یگانگت کے
لاجواب جذبات کی ترجمانی کرنے کے لئے کافی ہے۔،۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے۔،۔ نیل کے ساحل سے لے کے تا بخاکِ
کازشغر
شائد یہی وجہ ہے کہ یہودی لابی کے لئے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ ملک جہاں سے
اسے اپنے وجود اور سا لمیت کا سب سے زیادہ خطرہ ہے اسے اپنے مسائل میں اتنا
الجھا دو کہ وہ مسلم امہ کے اتحاد کا مشن بھول جائے۔امریکہ کے مالی امور
اور میڈیا کے معاملات یہودی لابی کے زیرِ اثر ہیں لہذا یہ دونوں قومیں
پاکستان کو ہمیشہ اپنے نشانے پر رکھتی ہیں اور اپنے شر انگیز منصوبوں کی
تکمیل کی خاطر گاہے بگاہے ایسے شوشے چھوڑتی رہتی ہیں جس سے پاکستان میں
ہنگامہ آرائی کا منظر تشکیل پاتا ہے۔حالیہ دنوں میں پانامہ لیکس نے جس طرح
پاکستانی قوم ک کو اپنے زیرِ اثر کیا ہوا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں
ہے۔میڈیا دن رات ایک ہی کیسٹ چلائے جا رہا ہے اور عوام اس کیسٹ کو بڑی د
لچسپی سے دیکھ رہے ہیں ۔عوام حیران و پریشان ہیں کہ ان کے حکمران اتنے بد
دیانت ہیں کہ یہ اپنے ملک کی دولت کو مختلف طریقوں سے ہڑپ کر نے کے ساتھ
ساتھ عوام کو بیوقوف بنانے کی خاطر عوامی خدمت کے نعرے بھی بلند کرتے رہتے
ہیں۔یہ بات ساری دنیا کے علم میں ہے کہ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر
پاکستان کے خلاف سازشوں میں جٹا ہوا ہے۔یہ الگ بات کہ ہمارے حکمران بھارتی
مڈاخلت پر کھل کر اظہار نہیں کرتے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے کا روباری
مفادات بھارت کے ساتھ منسلک ہیں اور وہ کاروباری معاملات کو کسی بھی صو رت
میں خراب نہیں ہونے دینا چاہتے۔وہ قوم جو بھارت کے ساتھ کر کٹ سیریز کی
خاطر اس کے پاؤں میں لیٹ جائے اس کے اخلاقی لیول کا اندازہ لگانا چنداں
دشوار نہیں ہونا چائیے۔کرکٹ سیریز کھیلنا کوئی بری بات نہیں کیونکہ ہم ساری
دنیا سے کرکٹ سیرز کھیلتے ہیں لیکن جس طرح ہم کرکٹ سیریز کے لئے بھارت کی
منتیں سماجتیں کرتے ہیں وہ باعثِ شرم ہے۔کوئی حیا ہوتی ہے ، کوئی شرم ہوتی
ہے ،کوئی اصول ہوتا ہے اور کوئی ضابطہ ہوتا ہے لیکن جب قومیں اخلاقی طور پر
بانجھ ہو جائیں تو پھر ترلے منتیں ہی کرتی رہتی ہیں جو ہمارے موجودہ حکمران
بڑی مہارت سے کر رہے ہیں۔عالمی سازش یہ ہے کہ کل بھوشن یادیو بھارتی جاسوس
تھا اور وہ بلوچستان کی علیحدگی اور دھشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث تھا ۔اسے
عالمی قوانین کے تحت سزا دی جانی ضروری تھی لیکن ایسا نہیں ہو سکا بلکہ
عاملی طاقتیں ا س مسئلے کو نظر انداز کروانا چاہتی تھیں اور اسے چھڑوانے
کیلئے ضروری تھا کہ کوئی ایسا سکینڈل منظرِ عام پر لایا جاتا جس سے عوام کی
توجہ بالکل دوسری جانب مبذول ہو جاتی۔بھارت افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداﷲ
عبداﷲ کی وساطت سے پاکستان کو عدمِ استحکام سے دوچار کرنے کیلئے سازشوں کا
جال پھیلائے ہوئے ہے ۔پاکستان کے اندر دھشت گردانہ نیٹ ورک بھارتی سر پرستی
کے بغیر نا ممکن ہے لیکن کمال یہ ہے کہ کلبھوشن یادیو کا نام کہیں بھی سننے
میں نہیں آ رہا بلکہ ہر جانب پاناما لیکس کی سنسنی خیزی نے عوام کو اپنی
گرفت میں لیا ہوا ہے۔اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارا میڈیا
امریکی اشاروں پر ناچتا اور اس کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔امریکہ ایک پل
میں عوامی مزاج کو یوں تبدیل کر دیتا ہے کہ کسی کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ
اس کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی اشرافیہ
انتہائی کرپٹ ہے،بیوو کریسی انتہائی کرپٹ ہے،سیاستدان اور دوسرے بہت سے
ادارے بھی کرپٹ ہیں اور یہ سارے ابھی حال میں ہی تو کر پٹ نہیں ہوئے بلکہ
قوم تو ان تمام گروہوں اور ادراروں کو پچھلے کئی سالوں سے اسی دلدل میں
دھنسے ہوئے دیکھ رہی ہے لیکن امریکی وزارتِ خارجہ کا کمال یہ ہے کہ وہ عوام
کی توجہ کا ر خ یوں موڑ دیتی ہے کہ کسی کو گمان بھی نہیں ہوتا کہ ان کے
خلاف سازش ہو گئی ہے۔میاں نواز شریف،آصف علی زرداری،چو ہدری برادران ،شوکت
عزیز،اسحاق ڈار،جنرل پرویز مشرف ، اور ہمارے بہت سے دوسرے حکمران پچھلی کئی
دہائیوں سے اپنی تجوریاں بھرنے میں مشغول ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہم
انہی قائدین کو اپنے مینڈیٹ کا حقدار سمجھتے ہیں ۔اس کیفیت کو کسی شاعر نے
بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ایک ایسا نداز جس میں انسان جانتے
بوجھتے خود ہی اپنے قتل پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔کرپٹ حکمرانوں کو منتخب کریں
گئے تو پھر اس کا نتیجہ وہی نکلے گا جسے پانامہ لیکس نے طشت از بام کیا
ہے۔ذاتی مفادات اوردولت پسندی کی ہو س جب انسانی حواس پر غلبہ حاصل کر لیتی
ہے تو پھر وہ جرائم کو بھی خوشنما بنا کر پیش کر دیتی ہے۔انسان اپنے تئیں
یہی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ کوئی بہت بڑا کارنامہ سر انجام دینے جا رہا ہے
لیکن حقیقت میں وہ اپنی بربادی اور تباہی کا سامان کر رہا ہوتا ہے لیکن
مفادات کے کھیل میں اسے اتناہوش نہیں رہتا کہ جو کچھ وہ کرنے جا رہا ہے اس
میں اس کی بہتری نہیں بلکہ اس کی تباہی چھپی ہوئی ہے۔لیکن اس کے باوجود بھی
وہ تباہی کی راہ کا انتخاب کرتا ہے کیونکہ اس کی سمجھنے سوچنے کی صلاحیت
سلب ہو چکی ہوتی ہے ۔،۔
یارو کسی قاتل سے کبھی پیار نہ مانگو۔،۔ اپنے ہی گلے لئے کبھی تلوار نہ
مانگو۔ |
|