مرحوم کی یاد میں
(Nazir Ahmad Raja, Rawalpindi)
مرحوم ایک زندہ دل سماجی و سیاسی شخصیت تھے۔
علاقہ کے ایم این اے اور ایم پی اے کی دوران الیکشن بھرپور کمپین کرتے اور
دل کھول کر مال خرچ کرتے تھے۔ خانگاہوں ، مساجد اور نظرو نیاز میں بھی آپ
کی فیاضی دیدنی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مقامی سیاسی عمائدین اور علاقہ کی دو
بڑی گدیوں دربار عالیہ کھجلی شریف اور آستانہ غوثیہ کے وارث نہ صرف جنازہ
میں شریک تھے بلکہ سجادہ نشین دربار عالیہ کھجلی شریف نے آپ کو گزشتہ رات
خواب میں حوروں کے ساتھ بھی دیکھا تھا، جب مرحوم عالم نزع میں تھے جو مرحوم
کی بخشش کی پکی نشانی تھی۔
مرحوم نے سخت محنت سے نہ صرف دولت اکھٹی کی بلکہ اس مقام پر پہنچے تھے کہ
آج جنازہ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ مرحوم نے اپنی محنت سے
تین پٹرول پمپ اپنی ذاتی جگہ پر بنائے اور دو پلازے کھڑے کیے ، جو بقول
مرحوم کے اُن کودرگاہوں کا ہی فیض تھا۔
مرحوم سیاسی حوالے سے اچھی شہرت رکھتے تھے لیکن کاروباری مصروفیات نے انہیں
کبھی خود الیکشن لڑنے کا موقع نہ دیا۔ لیکن صدر جماعت شہر اور مقامی
عمائدین آپ کے فیض سے محروم نہیں رہتے تھے۔ اکثر حسد کرنے والے غریب رشتہ
دار اور برادری مرحوم کے بارے میں غلط افواہیں پھیلاتے کہ مرحوم نے سارا
مال سمنگلنگ اور منشیات فروشی سے حاصل کیا ہے اور اپنی پشت پناہی کے لیے
مقامی سیاسی عمائدین اور گدی نشینوں کو رقم دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ سچ یہ
تھا کہ اواخر عمر حج کرنے کے بعد مرحوم توبہ تائیب ہو گئے تھے، اگرچہ ان کا
چھوٹا بیٹا جو بگڑ گیا تھا اس نے اس کاروبار کو جاری رکھا تھا۔ یہ ان کے
بیٹے کا ذاتی معاملہ تھا۔۔۔ مرحوم حاجی صاحب کی توبہ اﷲ نے قبول کی تھی اور
وہ اب بری الذمہ تھے۔ یہ بات سجادہ نشین غوثیہ نے کئی دفعہ جمعہ کے خطبہ کے
دوران لوگوں سے کہی بھی تھی کہ اولاد کے کیے دھرے کا الزام حاجی صاحب
مذکورہ کو نہ دیں۔ اﷲ غفور الرحیم بخشنے والا ہے لیکن لوگوں کو ان بزرگ
ہستیوں کی باتوں کا بھی پاس نہیں تھا، اور چہمگویاں تھیں کہ مرتے دم تک ختم
نہ ہوئیں۔
نورانی چہرہ لیے ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں آج وہ سپرد خاک ہو گئے۔ لحد
پر مٹی اور پھول ڈال دیے گئے تو ان کے بڑے بیٹے سے لوگ مصافحہ کرتے رخصت
لینے لگے۔ ایک طرف کھڑا شکورا مزدور جس نے قبر تیار کی تھی للچائی اور
بھوکی نظروں سے ان کے بیٹے سے ملنے کو بیتاب تھا کہ اپنی مزدوری لے سکے۔
مرحوم شکورے کے رشتہ میں ماموں تھے، لیکن اس کو اس وقت اپنی مزدوری کا خیال
ستا رہا تھا کہ کب ہاتھ آئے اس نے صبح اپنے بیٹے کی سکول فیس جمع کرانی تھی
حالانکہ شکورا جب بھی مرحوم حاجی صاحب سے سے ادھار لینے جاتا مرحوم حاجی
صاحب اسے دیتے اور اسے تاکیداً کہتے ’’شکورے تو ایک غریب بندہ ہے، چھوڑ
بچوں کو سکولے بھیجنا، مزدوری پہ لگا ان کو، پیٹ کی آگ تو ٹھنڈی ہو، تو
بھانجہ ہے میرا اس لیے تیرا خیال کرتے ہوئے مشورہ دیتا ہوں، کوئی اور ہوتا
تو اسے ادھار بھی نہ دیتا۔‘‘ |
|