مشہورشاعر و مفکراقبالؒ نے اٹلی کا سفر کیا
، ان کی ملاقات وہاںکے ڈکٹیٹر مسولینی سے ہوئی ۔مسولینی نےایک مفکرکی حیثیت
سےاقبال کا استقبال کیا اور مختلف شعبہ حیات سےمتعلق مسائل اور ان کے تدارک
و علاج پرگفتگو کی۔ شہروں کی بڑھتی آبادی پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے
مسولینی نے پوچھا کہ جب شہروں کی آبادی حد سے تجاوز کرجائے، اس وقت
انتظامیہ کوکیا کرنا چاہئے ، اقبالؒ نےکہاایسے میں فورا ً دوسرا شہر آباد
کردینا چاہئے ۔اس طرح انتظامیہ آسانی کے ساتھ عوامی فلاح کے کام انجام دے
سکتا ہے ۔ مسولینی اس جواب سے بے حد متاثرہوا ،اورجوش مسرت سے میز پر مکہ
مارتے ہوئےکہا ، واہ کتنا حسین تخیل ہے ۔اقبال نے کہا یہ تصور آج سے چودہ
سو سال قبل ہمارے پیغمبرؐنے پیش کیا تھا ۔ممبئی کوحادثوں کا بھی شہر کہہ
سکتے ہیں جہاں قدم قدم پر اتنے حادثے ہوتے ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں ،
یہاں ہرشخص بے صبری کی انتہا پرہےاور آگے نکل جانے کی دھن میں کسی کو
راستہ دینے کو تیار نہیں۔ شہر کی بڑھتی آبادی کے سبب پیدا ہونے والے
محرکات شر نے سلامتی و تحفظ کے امکانات بڑی حد تک معدوم کردیئے ہیں ۔سڑکوں
پر گاڑیوں اور انسانوںکے بڑھتے ہجوم نے ٹریفک نظام کو ہی معطل کرکے رکھ دیا
ہے ۔گذشتہ دنوں ممبئی سے قریب کھارگھر فلائی اوور برج پر ہونے والابھیانک
کار حادثہ اسی روزہ مرہ ہونے والے حادثات کی ایک کڑی ہے۔حادثے کی ہولناکی
کے باوجود معجزاتی طور پر چھ افراد کو موت کے بے رحم جبڑے سےنکال لیا گیا
،جن کا بچنا بعید از امکان تھا۔ پھر بھی ایک ضعیف شخص نہ بچ سکا ۔یہ حادثہ
کار اور ٹریلر ٹرک کے درمیان زبردست ٹکراؤکے نتیجے میں ہوا تھا ۔کار تیز
رفتاری کے سبب ڈرائیور کے قابو سے باہر ہوچکی تھی۔ یہاں بھی وہی بے صبری کا
معاملہ دکھائی دیا جس نے اتنے بھیانک حادثے کی شکل اختیار کرلی ۔ اس کیس
میں کھارگھر پولس کا ڈرائیور پر’ رش ڈرائیونگ‘ کا معاملہ درج کرناانہی
خدشات کی تصدیق ہے جو ہم اوپر کی سطروں میں کرچکے ہیں ۔اس بھیانک حادثے میں
۶؍افراد کا صاف بچ جانا واقعی حیرت انگیز ہے ۔ظاہر ہے جسے اللہ رکھے اسے
کون چکھے ، پولس بھی اس واقعے کو معجزہ مان رہی ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اس
طرح کے معجزات روز نہیں ہوتے۔ زیادہ تر واقعات بھیانک اور جان لیوا ہی ہوتے
ہیں ۔انتظامیہ کو ٹریفک اصول و قوانین میں مزید سختی اور اسمارٹنیس لانے کی
ضرو رت ہے تاکہ انسانی جانوںکو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جاسکے ۔
بویا پیڑ ببول کا تو آم کہاں سےپائے
یہ بھی کتنا بڑا المیہ ہے کہ اس دور کےلوگوں پر مادیت کا غلبہ بڑھتا جارہا
ہے۔ہر شخص اپنے سامنے والے فرد کوصرف مال و زر کی کسوٹی پرپرکھ رہا ہے۔ آج
پیمانہ ہی یہ بن چکا ہے کہ جس کے پاس سب سے زیادہ پیسہ ہو وہی سب سے زیادہ
صاحب عزت و ثروت ہے بھلے ہی کردارو عمل میں وہ صفر ہی کیوںنہ ہو۔اس تناظر
میں دیکھیں تو آج ہر طرف اسی نظرئیے کی کارفرمائی نظر آئے گی،
نتیجتاًپارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں بھی ایسے ہی افرادداخل ہورہے ہیں۔ اسکے
برعکس ایماندار شریف اور نیک نفس افراد پیچھے ہی نہیں بہت پیچھےکردیئے گئے
ہیں۔ یہی حال زندگی کے بیش تر شعبوں کا ہے ہر جگہ بس یہی نظریات پروان چڑھ
رہے ہیں اور ہر طرف اسی مادیت کا جھنڈا اونچا کیا جارہاہے۔ اس نظریئے نے
پورے نظام کو ہی تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے۔جس کی کوکھ سے ظلم و جبر، بدعنوانی و
فحاشی جیسی لعنتوں کی افزائش ہورہی ہے ۔وجے مالیا ایسے تاجر ہیں جن کے یہاں
پیسہ کمانے کیلئے کسی اخلاقی ضابطےکی ضرورت نہیں ، ان کے یہاں پیسہ کمانا
ہی اول و آخر شرط ہے وہ چاہے جس صورت میںحاصل ہو ، انہیں شراب کی تجارت
میں بھی کوئی قباحت نظر نہیں آتی ، جس نے نہ جانے کتنے گھروں کو تباہ و
برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ شراب کو ام الخبائث اسی لئے کہا گیا ہے کہ وہ تمام
برائیوں کی جڑ ہے ۔ ویسے عوامی سطح پر بھی ان کی خدمات کا کوئی ایسا گراف
نہیں ،جس کی بنیاد پر وہ قابل ستائش گردانے جائیں ، عام طور پر ان کی شناخت
ایک ایسے تاجر کی ہےجس کی نظریں زیادہ سے زیادہ نفع کے حصول میں اٹکی رہتی
ہیں ۔لیکن انہیں راجیہ سبھا جیسے عظیم الشان ایوان کی نمائندگی کا رتبہ
ضرور حاصل ہے پھر بھی وہ اسے ہضم نہ کرسکے اور گذشتہ دنوں مستعفی ہوگئے ۔ان
پر ہندوستان کے مختلف بینکوں سے ۹؍ہزارکروڑ روپے کے قرض لے کر بیرون ملک
فرار ہونے کا الزام ہے ۔ایوان کی اخلاقیات سے متعلق (ایتھیکس کمیٹی ) کے
صدر کرن سنگھ کے مطابق وجے مالیا نے وارنٹ کو مسلسل نظر انداز کرکے غلطی کی
ہے پھر بھی انہیں سات دنوںکی مہلت دی جارہی ہے ، اگر اس دوران وہ سامنے
نہیں آتے تو ان کے خلاف ضروری اقدام اٹھایا جاسکتا ہے ۔آج یہ محاورہ پتہ
نہیں کیوںبار بار یادآرہا ہے ۔’’بویا پیڑ ببول کا تو آم کہاں سے کھائے
‘‘۔ |