روتے رہنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے‎

ہم روتے رہتے ہیں اور یہی رونا ہمارا مقدر بنادیا جاتا ہے۔ کبھی ناکامیوں پہ،کبھی زمانے پہ، کبھی حسرتوں پہ، کبھی وسائل کی کمیابی پہ روتے اور بین ہی کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ خود کو دنیا کا مظلوم ترین انسان سمجھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ظالم دنیا کے نشتر کا ہر رخ ہماری طرف ہوتا ہے۔ ہم کامیابی کا حق دار ہونے کی باوجود دور پھینک دیے جاتے ہیں۔ پورا جہان ہماری تاک میں بیٹھا رہتا ہے…ہم افسوس کرتے رہتے ہیں اور افسوس ہمارا مقدر بنادیا جاتا ہے۔ ماضی کی خواہشات پوری نہ ہونے کا افسوس، لوگوں کے رویوں کا افسوس، بے وفائیوں پر افسوس، یہاں تک کہ افسوس کرنا اور کچھ نہ کرنا ہمارے کردار کا اٹوٹ انگ بن جاتا ہے۔ ہم وقت ضائع کردیتے ہیں اور گھڑی آگے چلتی رہتی ہے۔
 

image

اس مضمون میں اوپر درج تمام منفی اثرات کو زائل کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ یہ ہمیں بتائے گا کہ بنجر زمین سے لہلہاتی فصل اگائی جاسکتی ہے۔ ناکامیوں کو کامیابی میں بدلا جاسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق انسان جس چیز میں اپنا سب سے زیادہ وقت برباد کرتا ہے وہ افسوس ہے۔ بیشتر لوگ ماضی میں گھرے رہتے ہیں۔ وہ یہ سوچ سوچ کے کڑھتے رہتے ہیں کہ میں نے کاش ایسا نہ کیا ہوتا تو جو کام بگڑ گیا ہے وہ نہ بگڑتا۔ ڈیل کارنیگی نے کہا تھا کہ زندگی میں سب سے اہم چیز کامیابیوں سے فائدہ اٹھانا نہیں، ایسا ہر بے وقوف ایسا کرسکتا ہے۔ حقیقی معنوں میں اہم چیز یہ ہے کہ تم اپنے نقصانات سے فائدہ اٹھاؤ۔ اور یہی وہ چیز ہے جو ایک سمجھ دار اور بے وقوف میں فرق کرتی ہے۔ اس دنیا میں صرف وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو ناموافق حالات کا استقبال کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔

بربادی کے بعد بھی:
مسٹر آئن نیش جاپان گئے تو انہوں نے وہاں جاپانی قوم کا گہرائی سے مطالعہ کیا، جس کے بعد ان کا کہنا تھا: جاپانی قوم کو سب سے زیادہ متاثر سیاست نے نہیں بلکہ کانٹو کے عظیم زلزلے نے کیا جس میں مشرقی جاپان تہس نہس ہوکے رہ گیا تھا۔ دوسرا انسانی ساخت کا زلزلہ 1945ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی کا ملبے کا ڈھیر بن جانا تھا۔ زلزلے سے اگر تعمیری ذہن پیدا ہو تو زلزلہ ایک نئی ترقی کا زینہ بن جاتا ہے۔ جب بھی آدمی کی زندگی میں کوئی ’’بربادی‘‘ کا واقعہ پیش آئے تو وہ اس کو دو امکانات کے درمیان کھڑا کردیتا ہے۔ وہ یا تو اس سے سبق لے کے ازسرِ نو متحرک ہو کر اپنی نئی تعمیر کرتا ہے یا مایوسی اور شکایت کی غذا لے کے سرد آہیں بھرتا ہے۔
 

image


ہار میں چھپی جیت:
کشتی رانی کے مقابلوں میں امریکہ کپ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اسے امریکہ کپ اس لئے کہا جاتا ہے کہ 138 سال تک یہ کپ امریکہ جیتتا رہا۔ 1983ء میں پہلی دفعہ آسٹریلوی ٹیم نے اسے جیت کر دنیا کو حیران کردیا۔ اس سال امریکی ٹیم کی قیادت ڈینس کورنر کررہا تھا لیکن اس نے اس واقعے سے ہمت نہ ہاری۔ وہ تین سال ہارتا رہا مگر چوتھے سال یہ اعزاز دوبارہ جیتنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کی اس جیت کا ایک اہم عامل الہامی بے اطمینانی تھی۔ یعنی یہ احساس کہ تاریخ میں یہ کپ پہلی دفعہ مجھ سے چھینا گیا ہے۔

ہمت نہ ہارنا:
ییل دوسری جنگِ عظیم میں فرانس کے علاقے میں جرمنی کے ہوائی جہازوں کا مقابلہ کررہا تھا۔ وہ اکیلا تھا لیکن کسی طرح لڑکھڑاتا ہوا اپنے جہاز کو بچا کے سپین کے علاقے میں لے آیا جہاں وہ محفوظ تھا۔ جنگ کے اختتام پر فضائیہ نے اس کو رخصت پہ بھیجنے کا ارادہ کیا۔ اسے یقین تھا کہ اگر میں اب واپس چلا گیا تو شاید دوبارہ فضائیہ کو میری ضرورت نہ رہے۔ بعد ازاں ییل وہ پہلا شخص بنا جسے آواز سے زیادہ تیز طیارہ اڑانے کا اعزاز حاصل ہوا۔
 

image

کمزوری بنی طاقت:
اپنی کتاب تلاشِ حق میں گاندھی جی لکھتے ہیں۔ کہ میرے اندر شرمیلا پن بہت تھا۔یہاں تک کہ کسی سے بات بھی نہ کرسکتا۔ جب وہ لندن گئے تو ویجیٹیرن سوسائٹی کے ممبر بن گئے۔ ایک بار انہیں میٹنگ میں تقریر کے لیے کہا گیا۔ وہ کھڑے ہوئے مگر کچھ نہ بول سکے اور شکریہ ادا کر کے بیٹھ گئے۔ ایک اور موقع پر کاغذ پہ اپنے لکھے ہوئے خیالات کا اظہار بھی نہ کرسکے۔ وکالت کے بعد مقدمہ لڑنے گئے تو جج کے سامنے دلائل بھی پیش نہ کرسکے اور اپنے کلائنٹ سے کہا کہ آپ کوئی اور وکیل کر لیں لیکن گاندھی جی لکھتے ہیں کہ یہ کمیاں بعد کو میرے لیے بڑی نعمت ثابت ہوئیں۔ یہ ہچکچاہٹ جو کبھی مجھے بڑی تکلیف دہ معلوم ہوتی تھی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے مجھے مختصر الفاظ میں بولنا سکھایا۔ میرے اندر فطری طور پر یہ عادت پیدا ہوگئی کہ میں اپنے خیالات پر قابو رکھوں۔ اب میں اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں کہ مشکل سے ہی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی لایعنی لفظ میری زبان یا قلم سے نکلے۔

سفر وسیلہ ظفر:
کامران رفیع اور عرفان علی ایک دفعہ ٹریننگ کروانے کے لیے بلوچستان کی طرف عازمِ سفر تھے۔ خانیوال پہ اترے، غلطی سے انہیں بتایا گیا کہ ریل گاڑی یہاں دس منٹ رکے گی۔ یہ سٹیشن سے باہر نکل گئے واپس آئے تو گاڑی جا چکی تھی۔ وقتی طور پہ پریشانی ہوئی جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس کمپنی کا پروجیکٹر اور ملٹی میڈیا تھا، جو یقینا مہنگی چیزیں تھی اور اس دور میں تو یہ نایاب تھیں۔ یہ انہیں کسی کے حوالے کر کے آئے تھے۔خیر پانی سر سے بِہ گیا تھا۔اب کیا کیا جائے؟ انہوں نے فوراًَ ہی فیصلہ کیا کہ گاڑی کا اگلا سٹاپ بہاول پور ہے اگر وہاں پہنچا جاسکے تو ممکن ہے کہ گاڑی بھی مل جائے اور چیزیں بھی، ورنہ اس سے اگلا سٹاپ سندھ میں تھا جہاں پھر گاڑی پکڑنا تقریباًَ ناممکن ہوجاتا۔ یہ بھاگتے ہوئے سٹیشن سے باہر آئے۔ منہ مانگے دام دیے اور ٹیکسی کرائے پہ حاصل کی۔ اس سے ممکن حد تک تیز رفتاری کی درخواست کی۔ ڈرائیور بھی معاملے کی نزاکت کو سمجھ گیا۔ سنگل روڈ پر تیز رفتار ڈرائیونگ کے بعد ہانپتے کانپتے یہ ریل کار پہنچنے سے کچھ لمحے قبل بہاول پور پہنچ گئے۔ جن کے حوالے سامان کرکے آئے تھے خوش قسمتی سے انہوں نے وہ سٹیشن ماسٹر کے حوالے نہیں کیا تھا۔ دباؤ والے حالات اعصاب کا امتحان ہوا کرتے ہیں جو انہیں برداشت کرجائے اور دماغ قائم رکھے کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔
 

image

نایاب ہیں ہم:
میرے ایک دوست نبیل نے زندگی کی سختیاں جھیلی ہیں۔ والد کا بچپن میں انتقال ہوگیا۔گھر میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے غم اور مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔گزر اوقات نہایت تنگی ترشی سے ہوتی۔ حالات بعض اوقات اتنے خراب ہوجاتے کہ اس کمزور جان کے اعصاب پہ بھاری پڑ جاتے۔آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتیں۔ ہم پہچان جاتے لیکن یہ انہیں پی جاتا اور آنکھوں کے کٹوروں سے باہر نہ آنے دیتا۔کتنی دفعہ فیس ادا کرنے کو بھی پیسے نہ ہوتے لیکن آخرکار یہ کامیاب ہوگیا۔دو دو تین تین جگہ پہ کام کیا، ہمت نہ ہاری۔ حوصلہ شکن حالات کا مقابلہ کیا۔ہنستا رہا ہنساتا رہا۔نہ ہنستا تو مر جاتا۔ وقت کا پہیا چلتا رہا اور یہ مسکراتا ہوا آگے ہی آگے گامزن رہا۔ وسائل کی کمیابی، غربت،کم عمری اس کا راستہ نہ روک سکیں۔ آخرکار وہ ایک دن ڈاکٹر بن گیا۔ ہسپتال میں ملازمت کی ساتھ ساتھ اپنا کلینک کھولا۔ حالات کی گردش ختم ہونے لگی، اطراف سنبھلنے لگے اور وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہوگیا…وہ چاہتا تو کچھ عرصے کے لیے بڑی آسانی سے اپنی محرومیوں کے بدلے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرسکتا تھا۔ وہ چاہتا تو آسانی سے دنیا کا شکوہ کرتا لیکن اس نے اپنی انہی محرومیوں کو طاقت میں بدل دیا۔ یہ الہامی بے اطمینانی کی قوت ہے۔ جب آپ اپنے ردِعمل کو مثبت چارج دے کے دنیا پہ چھا جانے کا عزم کرلیتے ہیںتو معجزات برپا ہونے لگتے ہیں۔

اوپر کی مثالوں سے بھی واضح کردیا گیا کہ اگر مسئلہ ایک پیدا ہوتا ہے تو اسکے حل کئی موجود ہوتے ہیں۔ مسئلہ خود یہ بتاتا ہے کہ اس کے حل موجود ہیں۔بس ہمیں ان تک پہنچنا ہے۔ اور جو دروازہ کھٹکھٹاتا رہتا ہے اسے کے لیے دروازہ کھول ہی دیا جاتا ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ غریب لوگوں میں جستجو زیادہ پائی جاتی ہے۔ والٹیئر نے کہا تھا کہ میں نے ہمیشہ عظیم لوگوں کو جھونپڑوں سے نکلتے دیکھا ہے۔ فرق کیا ہے ایک عام آدمی اور ان میں۔ انہوں نے کبھی اپنے حالات کا رونا نہیں رویا۔کبھی افسوس میں وقت ضائع نہیں کیا۔ ہمیشہ مثبت رہے ،پرامید رہے۔ بالآخر دنیا نے ان کے سامنے سرِتسلیم خم کردیا۔ جب بھی کوئی نقصان ہوتا ہے تو ہم اکثر یہ کہتے اور سنتے ہیں کہ اس میں کوئی نہ کوئی بہتری ہوتی ہے۔ یہ بھی اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہ کہتے ہوئے ہم کچھ پر عزم نہیں ہوتے۔ بلکہ لگتا ہے کہ اپنی مایوسی کو سہارا دے رہے ہیں، یہ جملہ بڑا طاقتور ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس کا احساس نہیں کر پاتے۔
YOU MAY ALSO LIKE:

We always cry. Sometimes on failures, on society, or on lack of resources. We are always complaining about the hurdles of life and this attitude ultimately becomes our fate. We consider ourselves as the most downtrodden person in the world, who fail to realize that they can be successful.