میاں نواز شریف اور دیگر پاکستانی
حکمرانوں کے مابین سوچ اور ویژن کا فرق اس وقت محسوس ہوتا ہے جب انسان بوقت
ضرورت سفر اختیار کرتا ہے ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتانا ضروری
سمجھتا ہوں کہ جی ٹی روڈ کو کتنا ہی اچھا بنا دیا جائے۔ اس کا مقابلہ
موٹروے سے ہرگز نہیں کیا جاسکتا ۔ گزشتہ 69 سالوں میں کتنے ہی فوجی اور
سویلین حکمران آئے اور چلتے بنے ٗ کسی ایک نے بھی موٹروے بنانے کی زحمت
گوارہ نہیں کی۔ایشیا میں سب سے پہلی موٹروے بنانے کااعزاز نواز شریف کو
حاصل ہوا ۔ بے نظیر بینظیر نے لاہور تا اسلام آباد موٹروے کو تین کی بجائے
دو لائنوں تک محدود کرکے اپنی کمتر ذہنی صلاحیت کا اظہارکیا ۔ نوازشریف بھی
اپنی دھن کے پکے تھے انہوں نے دوبارہ اقتدار سنبھالتے ہی موٹروے کو تین
لائن کاتعمیرکرکے پاکستانی قوم پر احسان عظیم کیا۔وہ لوگ جو موٹروے کی
مخالفت میں عمران کی طرح ایڑھیاں اٹھااٹھا کر بانگیں دیاکرتے تھے وہ آج اسی
موٹروے پر تین ساڑھے گھنٹے میں یورپی ماحول میں لاہور سے اسلا م آباد اور
پشاور تک سفرکرتے ہیں۔گزشتہ ہفتے مجھے ائیر وائس مارشل (ر)فاروق عمر کے
ساتھ لاہور سے اسلام آباد اور مانسہرہ سے بٹگرام جانے کااتفاق ہوا۔ تو حیرت
اور تجسس کے کئی مناظر میری آنکھوں کے سامنے قطار در قطار ایک فلم کی مانند
چلنے لگے۔کلمہ چوک سے موٹروے تک کا سفر صرف پندرہ منٹ میں طے ہوا۔جبکہ ماضی
میں لاہور سے نکلتے ہوئے ہی دو گھنٹے صرف ہواکرتے تھے اور ذہنی تھکاوٹ الگ
۔ موٹروے پر قیام اور طعام گاہ کی وسیع سہولتیں دیکھ کر آنکھیں خیرہ رہ
گئیں کہ کیا عالمی معیار کی ایسی سہولتیں پاکستانی قوم کو بھی میسر آسکتی
ہیں یہ سب نوازشریف کا کارنامہ ہے۔ ارد گرد سرسبزو شاداب وادیاں اور کھیت
کھلیان دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔دوران سفر ہی مجھے اسلام آباد تک چھ دریا(
راوی ٗ چناب ٗ جہلم ٗ دھراب ٗ پینڈ ٗ سل اور دریائے سوان) بھی دکھائی دیئے
۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ تمام کے تمام دریا صحرامیں تبدیل ہوچکے تھے۔ اگر
ایسے ہی دریا صحرا بنتے رہے تو پاکستان کا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔نواز
شریف کویہ مسئلہ حل کرنے کے لیے پوری توجہ دینی ہوگی وگرنہ ساری ترقی مٹی
کا ڈھیر ثابت ہوسکتی ہے۔ ۔بہرکیف ہماری حقیقی منزل مانسہرہ سے بٹگرام تھی۔
جمعہ کی نماز فیصل مسجد اسلام آباد میں ادا کرنے کے بعد ہم جنرل ضیاء الحق
کی قبر پر حاضر ہوئے اور عالم اسلام کے اس عظیم سپہ سالار کو خراج تحسین
پیش کرکے اگلا سفر شروع کیا ۔کاش عمران خان رونے دھونے کی بجائے اپنے صوبے
میں کوئی اچھی سڑک ہی بنادیں جس پر سیاحتی علاقوں میں جانے والوں کو آسانی
رہے ۔یہاں بھی نواز شریف نے حسن ابدال تا حویلیاں اور حویلیاں سے تھاکوٹ تک
موٹروے پر کام کاآغاز کرکے خیبرپختونخواہ کے اس علاقے کو نئی زندگی اور
توانائی بخشی ہے۔جس پر علاقے کے لوگ بہت خوش ہیں کیونکہ موٹروے کی تعمیر سے
مانسہرہ سے بٹگرام کا سفر جو ابھی چھ گھنٹوں میں بمشکل طے ہوتا ہے وہ
موٹروے پر صرف ڈیڑھ گھنٹے کا سفر رہ جائے گااسے کہتے ہیں نئی سوچ اور نیا
ویژن ۔ قدرت نے خیبر پختونخواہ کو اتنے خوبصورت سیاحتی مقامات سے نوازا ہے
کہ اگر وہاں تک رسائی کے لیے موٹر وے ٗ ائیرپورٹ ٗ فائیو سٹار ہوٹل تعمیر
کردیئے جائیں تو دنیا دوبئی اور لندن جانے کی بجائے ناران ٗ کاغان ٗ
بالاکوٹ ٗ جھیل سیف الملوک ٗ چھترپلین ٗ بشام ٗ بٹ گرام ٗ کالام اور سوات
کا رخ کریں گے ۔ یہ خوبصورت مقامات ہم سب پاکستانیوں کے لیے قدرت کا بہترین
انعام ہیں ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ دنیا کے خوبصورت مقامات کے رہنے والے
روزگار کی تلاش میں دربدر ٹھوکریں کھاتے نظر آتے ہیں یہاں چیر اور دیار کے
درخت اس قدر زیادہ ہیں کہ ان علاقوں میں ماچس بنانے والی فیکٹریاں اور بہت
بڑی تعداد میں عالمی معیار کے فرنیچر بنانے والے کارخانے لگائے جاسکتے ہیں
جسے پوری دنیا میں برآمد کرکے بھاری زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے لیکن اس جانب
کسی کی توجہ نہیں۔ ہری پور ٗ حویلیاں اور مانسہرہ کے علاقے میں کہیں کہیں
کرشنگ یونٹ دکھائی دیئے۔ چھترپلین کی پہاڑی چوٹی پر مجھے ایک مکان نظر آیا
تو میں نے سوچا کہ اس کے رہنے والوں سے بات کرنی چاہیئے تاکہ مقامی حالات
کے بارے میں نوائے وقت کے قارئین کو آگاہی فراہم کی جاسکے ۔اس مکان میں
میاں بیوی کے علاوہ چار بجے بھی تھے۔ گھر کا سربراہ محنت مزدوری کرکے بچوں
کا پیٹ پالتا ۔ اس نے بتایاکہ کبھی مزدوری مل جاتی توکبھی نہیں ملتی جس سے
کئی کئی دن بھوکا رہنا پڑتا ہے ۔ اسی خاندان کا ایک دس سالہ بچہ بھی نظر
آیا ۔ جس سے میں نے پوچھا کہ تم بڑے ہوکر کیا بنو گے تو اس نے کہا فوجی
بنوں گا فوجی پاکستان کی حفاظت کرتے ہیں ۔میں نے پوچھا پاکستان کس نے بنایا
تھا ٗقائداعظم نے ۔ اس وقت پاکستان کا وزیر اعظم کون ہے نواز شریف ۔ میں نے
کہا تم عمران خان اور نواز شریف میں سے کسے پسند کرتے ہو اور بڑے ہوکر کسے
ووٹ دو گے ۔ بچے نے جواب دیا کہ میں نوازشریف کو ووٹ دوں گا کیونکہ وہ
ہمارے علاقے میں موٹروے بنا رہا ہے ۔میں نے پوچھا کیا تم موٹروے کے بارے
میں جانتے ہو ۔ اس نے جواب دیا ۔ جناب پورے ملک میں موٹروے بنانا ہی تو
نواز شریف کا اصل کارنامہ ہے ۔اس نے کہا میں ابا کے ساتھ موٹروے پر سفر
کرکے لاہور گیا تھا تو موٹروے پر سفر کا جو مزا آیا وہ آج تک مجھے نہیں
بھولتا۔ اس وقت میرے دل سے دعا نکلی تھی کہ کاش نواز شریف ہمارے علاقے میں
بھی موٹر وے بنادے ۔اب نواز شریف نے ہمارے علاقے میں بھی موٹروے کا افتتاح
کیا ہے اس سے علاقے کے لوگ بہت خوش ہیں کیونکہ موٹروے پر یہاں سیر کرنے
والوں کی بہت بڑی تعداد آئے گی اور ہمیں ان کی خدمت کرکے روزگار حاصل ہوگا
۔یہ بھی پتہ چلا کہ وہاں صرف چھ گھنٹے بجلی آتی ہے کوئی اخبار اور ٹی وی
چینلز کی نشریات نہیں جاتی ۔ اس لیے یہ علاقے ہر قسم کی سیاسی آلودگی اور
بک بک سے پاک ہیں ۔یہ تو اس بچے کی باتیں تھیں جو لاہور سے چھ سو کلومیٹر
دور بیٹھ کر موٹروے کا دیوانہ تھا۔ لیکن حقیقت میں نواز شریف کے ویژن اور
سوچ کا اندازہ اس وقت ہوگا جب پاک چائنہ اقتصادی راہداری گوادر سے کاشغر تک
موٹرویز کی تعمیر ٗ میرپور تا مظفر آباد ٗ مری تا مظفرآباد تک ریلوے سروس ٗ
سکھر سے ملتان اور شور کوٹ سے ملتان موٹروے عملی طور پر تعمیر ہوجائیں گے۔
تب پاکستان کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین ملکوں میں ہوگا ان شااﷲ ۔ کوئی
سیاست دان اور حکمران فرشتہ نہیں ہے لیکن نواز شریف اگر کھاتا ہے تو کچھ
لگاتا بھی ہے ۔یہی فرق نوازشر یف اور عمران کے علاوہ دیگر سیاست دانوں میں
ہے ۔
|