وزیراعظم نوازشریف صاحب،16 مئی کوتوپارلیمنٹ آجائیں گے ناں

وزیراعظم نوازشریف صاحب،16 مئی کوتوپارلیمنٹ آجائیں گے ناں؟؟ ایوان تو سُپریم ہے .. وزیراعظم صاحب ،جب اپنے پر آئی تواپنے سُپریم ایوان میں آنے سے ہی منہ چرارہے ہیں کیوں.....؟؟
لیجئے ، وزیراعظم نوازشریف بھی پاناماپیپرزلیکس پر اپنے لاولشکرکے ہمراہ آستینیں چڑھاکر اپوزیشن کے سامنے سیاسی اکھاڑے میں آن کھڑے ہوئے ہیں، اور اُنہوں نے بھی اپنی خصلت اور فطرت کی قید کی تمام دیواریں گراتے ہوئے اپوزیشن کا جواب دینے کے لئے اِسی کی سخت زبان کی طرح سخت اور زہریلی زبان استعمال کرناشروع کردی ہے۔

گزشتہ دِنوں جس کا پہلا مظاہرہ ا ُس وقت دیکھنے ، سُننے اور پڑھنے کو ملا جب ضرورت سے کہیں زیادہ اپنے پرائے ، دوست اور دُشمن سے نرم زبان استعمال کرنے والے ہمارے خالصتاََ بزنس مائنڈ وزیراعظم نوازشریف نے تاجکستان سے واپسی پر طیارے میں میڈیاپرسنز سے گفتگو کرتے ہوئے کچھ یوں کہاکہ’’حزبِ اختلاف کا ایجنڈا کرپشن کا خاتمہ نہیں(ایسانہیں ہے جیساآپ سوچ اورکہہ رہے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن سمیت ساری قوم ہی مُلک سے کرپشن کا جڑ سے خاتمہ چاہتی ہے مگر ساتھ ہی سب یہ چاہتے ہیں کہ کرپشن کی خاتمے کی ابتداء آپ اور آپ کے گھر سے ہو )، میراپیچھاکرناہے،(کیونکہ آپ پانامالیکس کی حقائق قوم سے چھپارہے ہیں اِس لئے اپوزیشن اور قوم آ پ کا پیچھاکررہی ہے) اپوزیشن کے سوالوں کے جواب پارلیمنٹ میں نہیں عدالتی کمیشن میں دیں گے، (اَب کمیشن بنے گا توآپ کمیشن میں دیں گے آپ چیف جسٹس کے خط میں مانگی گئیں دستاویزات دے دیں تو ضرور کمیشن بن جائے گا ورنہ تو بہت مشکل ہے )اسمبلی کی بات اسمبلی کمیشن کی بات کمیشن میں ہوگی،(کیوں پہلے تو بقول آپ کے پارلیمنٹ سُپریم ہے اور قانون ساز عوامی ادارہ ہے مُلکی اور قومی مسائل سے متعلق ہر قسم کی بات یہیں ہونی چاہئے اور پارلیمنٹ کا ہر فیصلہ سب کو ماننا ہوگا اور اَب جب اپنے پر آئی تو وزیراعظم ایوان میں آنے اور اپنے متعلق بات کرنے سے ہی منہ چرارہے ہیں کیوں۔۔۔؟؟؟اَب وزیراعظم پارلیمنٹ کو سُپریم ماننے کو کیوں تیارنہیں ہیں،اَب وزیراعظم نے سُپریم پارلیمنٹ کی حیثیت کو سُپریم چائے کی پتی کی طرح کیوں چوراچوراکرکے رکھ دیاہے؟؟ ) سیاستدان کمیشن بننے کی کوشش نہ کریں،(جب آپ ایوان میں نہیں آئیں گے اور کمیشن بنانے کے ذمہ داران اپنے تحفظات کا کھلا اظہارکردیں گے تو پھر سیاستدان ہی کیا ساری پاکستانی قوم بھی کمیشن بننے کی کوشش کرے گی بلکہ 20کروڑ میں سے ہر محب ِ وطن پاکستانی شہری کمیشن بن جائے گا) اوروزیراعظم کامزید یہ بھی کہنا تھاکہ ’’بعض لوگوں کو شروع دن سے نوازشریف قبول نہیں،(جی ہاں سب کو پتہ تھاکہ آپ اپنے تیسرے دورِ اقتدار میں مُلک اور قوم کو جمہوریت کی بقا کا نعرہ لگاکر قومی منافع بخش اداروں کو اپنے من پسندکاروباری افراد کے ہاتھوں کوڑیوں کے دام فروخت کرکے قومی معیشت اور اقتصادیات کے ساتھ ساتھ قوم کا بھی ستیاناس کردیں گے اور قومی اداروں سے سیاسی بنیادوں پر بھرتی کئے جانے والے ملازمین کو اپنی کاروباری خصلت کی وجہ سے نکال باہر کریں گے اور قومی خزانے سے مُلک سے قومی دولت اپنے خاندان کے افراد کے نام منتقل کرواکرباہر لے جائیں گے اور آف شورکمپنیاں قائم کرلیں گے اِس وجہ سے بعض لوگ تو کیا ساری پاکستانی قوم ہی وزیراعظم صاحب آ پ کو قبول کرنے تو تیا ر نہ تھی )منفی سیاست مُلک کے لئے زہر قاتل بن گئی ،(ہاں وزیراعظم صاحب، آپ کی ساری باتوں میں بس یہی ایک بات سچ اور حق ہے جو آپ کے منہ سے اتفاقاََ نکل گئی ہے ورنہ تو۔۔۔) اِن کا کہناتھاکہ’’ دلی خواہش ہے کہ کمیشن جلد بن جائے،(ہائے ہر خواہش کبھی کسی کی پوری نہیں ہوئی ہے اور آپ کی یہ خواہش بھی محض خواہش ہی رہ جائے گی) پاناماپیپرزلیکس پر چیف جسٹس کو خط لکھ دیاہے، (چیف جسٹس صاحب ، نے بھی آپ کے خط کا جواب کس طرح سے دیاہے وزیراعظم صاحب،آپ نے وہ بھی پڑھ لیاہوگا تو اَب کمیشن بنانے اور کمیشن کے سامنے آ پ کے جواب دینے والی بات بھی ختم ہوگئی ہے)

بہرحال ،اَب جبکہ کے چیف جسٹس صاحب نے بھی حکومتی خط کا جواب دے دیاہے اور اُنہوں نے اپنے خط میں جن نکات کی جانب اشارے دیئے ہیں اَب اِس کے بعد تو بس ایک یہی راستہ رہ جاتاہے کہ وزیراعظم نوازشریف وقت ضائع کئے بغیر جس قدرجلد ممکن ہوسکے پاناماپیپرزلیکس کے سرچڑھتے طوفان کو مزید خطرناک ہونے سے بچانے کے لئے جلدازجلد ایوان میں آئیں اور اپوزیشن کے سوالات کے جوابات بھی دیں اور ساتھ ہی پاناماپیپر زلیکس پر اپنی صفائیاں اور توجہات بھی پیش کرکے سارے معاملے کو نمٹائیں ورنہ اِنہوں نے ایسانہ کیا تو ممکن ہے کہ اپوزیشن اور کوئی اور مل کرپاناما لیکس کے معاملے کو کسی اور نظر سے دیکھیں اورپھر حالات کہیں کے کہیں نکل جائیں۔

اگرچہ اِس میں شک نہیں کہ وزیراعظم نوازشریف نے اپنے موجودہ اور پچھلے دورِ اقتداروں میں ہمیشہ پارلیمنٹ کو سُُپریم گرداننے کی مالاچپی ہے یہاں میں واضح کرتاچلوں کہ پاناما پیپر لیکس کے ایشو اور دھماکہ ہونے سے پہلے بھی وزیراعظم نوازشریف کی ایک یہی رٹ باکثرت رہی تھی کہ پارلیمنٹ توسُپریم ہے ، سب کے ہر معاملے کے ملکی مفادات سے متعلق ذاتی اور سیاسی فیصلے یہیں ہونے چاہیئں اورجب کسی کے معاملے میں پارلیمنٹ جو اور جیسے بھی فیصلے کرے اِسے تو سب ہی کو تسلیم کرناچاہئے کیونکہ پارلیمنٹ سُپریم ہے۔

مگر افسوس ہے کہ اِن دِنوں جب وزریراعظم نوازشریف کو پاناماپیپرزلیکس کے معاملے پر اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ آنے اور صفائیاں پیش کرنے اور اپنے سوالات کے جوابات چاہنے کے لئے اپنازورلگاکر دعوتیں دے رہی ہے تو آج ہمارے یہی وزیراعظم نوازشریف ہیں جو پہلے ہی ایوان میں آنے سے کتراتے رہے ہیں اَب توایسالگتاہے کہ جیسے وزیراعظم پاناما لیکس کے معاملے پر ایوان میں نہ آنے اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات نہ دینے کا تہیہ کرچکے ہیں اور قوی امکان ٰہے کہ جیسے دیدہ اور دانستہ طور پر وزیراعظم اور اِن کی پارٹی کے کرتادھرتاؤں نے یہ منصوبہ بنالیا ہے کہ اپوزیشن چاہئے لاکھ زور لگالے اور چاہئے جیسے بھی حربے استعمال کرلے وزیراعظم نوازشریف پاناماپیپرزلیکس کے معاملے پر اپنی صفائیاں پیش کرنے کے لئے کسی بھی صورت میں پارلیمنٹ نہیں آئیں گے، چاہئے کوئی اِنہیں سیاسی شہید ہی کیوں کہ بنادے ؟؟ مگر وزیراعظم کم ازکم اپوزیشن کی ضد اوراِس کے کہنے پر تو ایوان میں پاناماپیپرزلیکس کے حوالے سے کسی بھی صورت میں نہیں آئیں گے،اَب جبکہ چیف جسٹس نے بھی کمیشن کے معاملے پر اپنے تحفظات کے ساتھ حکومت کو خط لکھ دیاہے اَب ایسے میں کیا وزیراعظم کو خود پارلیمنٹ میں آنے کا فیصلہ نہیں کرناچاہئے۔

جبکہ اُدھر حکومت نے جمعہ13مئی کو وزیراعظم نوازشریف کی ایوان میں آنے کے پروگرام کو منسوخ کردیاتھامگر اَب یہی اُمیدکی جارہی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف اپنے وزراء اور پارٹی کے عہدیداران سے مل رہے ہیں جن کے آپس میں صلح مشورے کے بعد یہی کوشش ہے کہ اَب 16مئی کو ایوان میں وزیراعظم نوازشریف جائیں گے ہاں البتہ، اِس حوالے سے خبریہ بھی ہے کہ ایوان میں حاضری سے قبل اپوزیشن رہنمابالخصوص سابق صدراور پاکستان پیپلرزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے خفیہ رابطہ کرنے کے لئے مولانافضل الرحمان کو ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ اپنی سیاسی بیماری کی غرض سے خودساختہ جلاوطن ہونے والے پی پی پی کے آصف علی زرادری سے فوری رابطہ کریں اوراِنہیں پانامالیکس پر مفاہمتی پالیسی اپنانے پر زوردیں یوں حکومت کی جانب سے یہ پیغام ملتے ہی مولانا فضل الرحمان (اَب جن کا کام ہی حکومت سے کچھ لو اور کچھ دو جیساہوگیاہے اور اَب جو ایسے ہی حکومتی کاموں کے لئے چُن لئے گئے ہیں اگر یہ حکومت کے ساتھ ملے رہے اور ایسے ہی کام کرتے رہے تو کوئی شک نہیں کہ یہ لولی لنگڑی جمہوریت بھی بہت جلد کسی کے ہاتھوں دیوار میں چُن دی جائے گی بہرکیف، اُنہوں)نے فوراََ آصف علی زرداری سے رابطہ کیا اور اِنہیں راضی کیاکہ وہ پانامالیکس پر مفاہمتی پالیسی کو اپنائیں جس کاجواب پی پی پی کے ایوان میں قائد حزبِ اختلاف خورشید شاہ کی جانب سے یوں آیا ہے کہ’’ وزیراعظم پیر16مئی کو ایوان میں آئیں یہ اِس کی ضمانت لیتے ہیں کہ ایوان میں کہیں سے بھی ’’ گونوازگو‘‘ کا نعرہ نہیں لگایا جائے گااور وزیراعظم نوازشریف کے مرتبے اور منصب کا احترام کیا جائے گایوں پی پی پی کی جانب سے حوصلہ افزاء مفاہمتی جواب آنے کے بعد ہی سے وزیراعظم نوازشریف اپنے وزراء اور پارٹی رہنماؤں سے سیاسی پہاڑے یاد کرنے اور مِٹھوبیٹے کی طرح و ہ سب کچھ پڑھنے میں لگ گئے ہیں جیساکہ اِن کے ساتھی اِنہیں پرھارہے ہیں اور باربار یاد کرواکررٹارہے ہیں اِس پر بھی اَب دیکھتے ہیں کہ پانامالیکس پر ڈرے سہمے اور گھبرائے ہوئے ہمارے وزیراعظم نوازشریف 16مئی کو بھی پارلیمنٹ میں آتے ہیں کہ پھر کوئی چکمہ دے کراور کنی کٹاکر اِدھر اُدھر کے کسی ایک دوروزہ دورے پرنکل جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971381 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.