اِن مالیاتی اداروں کے قیام کی ایک وجہ یہ
بھی تھی کہ جنگِ عظیم اول کے بعد امریکہ بذاتِ خو د معاشی بحران سے گزر چکا
تھا اور 1931 ء سے لیکر 1936 ء تک کا دور عجیب مخمصے کا دور ثابت ہوا تھا۔
اس دور میں معاشی عدمِ استحکام اور وسیع پیمانے پر کرنسی کی کم قدری دیکھنے
میں آئی اور ہر ملک نے اپنی بے روزگاری منتقل کرنے کی کوشش کی۔ کرنسیوں کی
قیمتیں کم ہو گئیں جب کہ سونے کی قیمت میں اضافہ ہوتا گیا۔
ہر ایک ملک کی کوشش تھی کہ وہ اثاثوں کو سونے میں منتقل کر لے۔ لہذا اس
دفعہ ماضی کی صورتِ حال سے بچاؤ کیلئے " باسکٹ آف کرنسی " کا نام دے کر
ممبر ممالک کیلئے ایک فنڈ کی مقدار مقرر کر دی گئی تاکہ آئندہ مستقبل میں
کرنسی ایکس چینج ریٹ کے تحت ممبر ممالک کی مالیاتی پالیسیوں کو ترتیب دینے
کی کوشش کی جائے۔ اس سے سونے کے بعد سب سے زیادہ اہمیت امریکہ کی کرنسی
ڈالر کو حاصل ہو گئی۔
20ویں صدی کے آغاز تک امریکہ میں صنعتی پیداوار نے دیہاتی افراد کو شہروں
کی طرف نقلِ مکا نی کی طرف راغب کر دیا تھا۔ لہذا معاشی نظام میں یہ پیش
رفت اُس وقت اچانک امریکہ کیلئے سود مند ثابت ہو ئی جب جنگِ عظیم اول کا آ
غاز ہو ا اور امریکہ نے اپنے آپ کو فی الوقت جنگ سے الگ رکھتے ہوئے جنگ
لڑنے والے فریقین کو اسلحہ اور دوسرے متعلقہ ضروری آلات بیچنا شروع کر دیا۔
ایک طرف جنگ کا دورانیہ کم و بیش 5 سا ل رہا اور دوسری طرف امریکہ کو بین
الاقوامی سطح پر معاشی آسودگی حاصل ہو گئی۔
معاہدہِ ورسائی امریکہ کیلئے اگلی کڑی ثابت ہوا اور دُنیا کی گردنیں امریکہ
کی طرف مُڑنے لگیں۔گو کہ اس دوران معاشی بحران نے امریکن قوم کو دِل
برداشتہ کر دیا تھا لیکن اُنکے 32ویں صدر فرینکلن روزویلٹ نے اپنی بہترین
حکمتِ عملی سے 12سال حکومت کر کے ایک طرف معاشی خوشحالی کی وعید سُنائی اور
دوسری طرف جنگِ عظیم دوم میں اپنی قوم کی خواہشات کے مطابق کامیابیاں حاصل
کرتے ہوئے دُنیا عالم پر اپنا سکہ" ڈالر" کی شکل میں جما دیا۔ |