عورت کا گھر کونسا؟
(Farheen Naz Tariq, Chakwal)
بیٹی پیدا ہوتی ہے تو ماں کی گود اس کا سب
سے پہلا گھر ہوتا ہے- وقت تھوڑا آگے سرکتا ہے تو گردش دروں اس سے وہ گھر
چھین لیتا ہے- ذرا اور آگے بڑھیئے تو باپ کے صحن کی سوندھی مٹی کی خوشبو
میں پل کر جوان ہوتی ہے- وہ گھر اس کا میکہ اسکا مان ہوتا ہے مگر وہ مان
بھی قائم نہیں رہ پاتا یا رہنے دیا نہیں جاتا کبھی ماں باپ خود اپنی اولاد
کسی دوسرے کے سپرد کرتے ہیں تو کبھی بھائی بھابھیوں عزیز رشتے داروں کی بے
رخی انہیں یہ قدم اٹھانے پر مجبور کرتی ہے-
اور یوں اسکی زندگی کا اک نیا دور شروع ہوتا ہے- جڑ پکڑ چکے پودے کو اک مٹی
سے بے دردی سے اکھاڑ کر اک نئی زمین میں پیوست کر دیا جاتا ہے-
اب اس کے شوہر کا گھر ہی اس کی کل کائنات ہے- اسے اک مضبوط سہارا میسر آچکا
ہے- وہ اپنے گھر میں پہنچا دی گئی ہے- مگر کیا حقیقتتآ یہ درست ہے؟
یقینأ نہیں-*-
عورت کی ذرا سی لغزش کو کوئی درگزر نہیں کرتا- جب اپنے سگے رشتے اک موڑ پہ
پہنچ کر ساتھ چھوڑ جاتے ہیں تو وہ نازک سا کاغذی بندھن کہاں تک ساتھ نبھا
سکتا ہے-
دنیا میں شاید ہی کوئی عورت ہو جسے طلاق کے بعد -"5ک" کا دھڑکا نہ ہو-
کیا؟
کیوں؟
کب؟
کہاں؟
اور کیسے؟
زندگی کے دن کاٹے گی-
اگر یہ نہ بھی ہو تو اس کی زندگی بھر کی ریاضتوں کو کوئی سرہتا نہیں ہے-
عورت کا دنیا میں ایسا کوئی ٹھکانہ مجھے تو معلوم نہیں جہاں وہ مرد کے
گھنیرے سائے میں محفوظ بھی ہو اور اس کا اپنا کوئی گھر بھی ہو-
پہلے باپ پھر بھائی پھر شوہر اور پھر بیٹا – 21 ویں صدی میں جب دنیا مریخ
فتح کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے اور دوسری گلیکسیز سے نبرد آزما ہے ، وہیں
ہماری پاکستانی عورت ان 4 رشتوں کے دام میں الجھی اپنی ذات اپنی ہستی اپنا
وجود تک بھولے کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی مدار میں چکر کاٹے جا رہی ہے-
مگر اس سب کے باوجود……..
عورت کا گھر کونسا؟
میں بتاؤں عورت کا اپنا گھر کونسا ہے جہاں اسے نکالے جانے یا طعنہ دیے جانے
کا خوف نہیں ہوتا- جہاں کوئی اس پر بغیر کسی مرد کے سہارے کے بھی نہ تو
میلی نگہ ڈال سکتا ہے اور نہ ہی اس پر انگلی اٹھا سکتا ہے-
اور اسکی زندگی بھر کی ریاضتوں کو بھی اگر کبھی تسلیم کیا جاتا ہے تو وہ
تعریف و توصیف بھی اس دائمی گھر میں پہنچنے کے بعد اس کے حصے میں آتی ہے
اور وہ گھر تبھی نصیب ہوتا ہے جب دنیا کی حسرتیں ، تمنائیں، خوشیاں، بے
پایاں مسافتیں اسکے لیئے رائیگاں ہو چکی ہوتی ہیں- اور وہ اپنی معصوم سی
ہنسی تک تج کر مسافر رہ عدم ہو چکی ہوتی ہے- اور وہ ذرا سی دادرسی اور
تعریف کے چند بول اسکی سماعتوں پر بے اثر ہو چکے ہوتے ہیں-اس سے پہلے کوئی
نہیں جان پاتا کہ عورت کوئی ماورائی یا نوری مخلوق نہیں جس کی اپنی حسرتیں
نہ ہوں اسے بھی محبت تسلی تشفی کے بول درکار ہوتے ہیں - مگر جب تک کوئی یہ
سمجھے وہ منوں مٹی تلے اپنے حقیقی گھرمیں لوٹ چکی ہوتی ہے-
عورت کا اپنا صرف ایک گھر ہے اور وہ ہے چند گز کی مٹی کی ڈھیری- جسے ہم عام
زبان میں قبر کا نام دیتے ہیں اور عورت” گھر”کا"- |
|