ملک میں کساد بازاری کی آہٹ

دو سال پہلے دنیا میں کساد بازاری سے تقریباً تمام امیر ترین ملک متاثر ہوئے تھے ۔یہاں تک کہ دبئی جیسا امیر ترین ملک بھی اتنا زیادہ متاثر ہوا تھا کہ جس بلڈنگ پر کرین لگا ہوا تھا وہیں اوپر رک گیا اور تمام بڑی بڑی کمپنیوں نے اپنے اپنے مزدوروں کی چھٹنی کرنا شروع کر دیا تھا ۔ایسے حالات میں معاشی بحران دنیا کے ہر کونے میں ہونے لگا لیکن ہندوستان دنیا کا وہ واحد ملک تھا جہاں اس کساد بازاری اور معاشی تنگی کا ذرا برابر بھی اثر نہیں ہوا تھا ۔امریکہ ،فرانس ،انگلینڈ ،عرب امارات سمیت دنیا کے تمام ممالک میں ہاہا کار مچ گیا تھا اور وہ معاشی بحران میں مبتلا ہو گئے تھے ۔لیکن ہندوستان کی یو پی اے حکومت میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ ہندوستان ترقی کے منازل طے کرنے میں گامزن رہا اور دنیا نے حیرت زدہ ہو کر ہندوستان کے معاشی نظام پر ششدر ہو اٹھے کہ آخر انکا نظام کیسا ہے کہ عالمی بندی کے با وجودبھی ان پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا ہے بلکہ جب دنیا کی تمام بڑی بڑی کمپنیوں نے اپنے اسٹاف کو نکالنا شروع کیا تھا تو اس وقت ہندوستان میں سرکاری ملازم کے تنخواہوں میں اضافہ ہو رہا تھا چھٹا پہ کمیشن لاگو کیا جا رہا تھا ۔ایسے مناظر کو دیکھ کر دنیا حیران تھی جو فطری ہے ۔لیکن آج اسی ہندوستان کو کیا ہو گیا ہے کہ جب ترقی اور میک ان انڈیا کے نعروں کے ساتھ ہماری حکومت چل رہی ہے ہمارے ملک میں کساد بازاری کا غیر رسمی اعلان کیا جا رہا ہے۔جمعرات کو اسٹاک مارکٹ گرتے گرتے دہشت کی حالت تک پہنچ گیا۔ایک ہی دن میں سرکامایہ کاروں کے تین لاکھ کروڑ روپے ڈوب گئے۔اگلے دن بازار کچھ چڑھنے کی بجائے پھر گرنے لگا۔اب جن کے کاروبار امیدیں بڑھانے سے ہی چلتا ہے ،وہ اس کا کوئی نہ کوئی دلیل آسانی سے دے دیں گے ،لیکن کاروبار میں اتار چڑھاؤ کو فطری بتانے والے ان لوگوں کو بتایا جا سکتا ہے کہ گزِتہ ایک سال میں سرمایہ کم سے کم 15فیصد بڑھنے کی جائز امید تھی ،لیکن بڑھنے کی بجائے ان کی رقم 25فیصد گھٹ گئی ۔ویسے شیئربازار میں ملک کے اوسط شہری حصہ نہیں لیتے لیکن ملک کا کاروبار انہی سرمایہ کاروں کے پیسے سے چلتا ہے ،اسی لئے شیئر بازار کو ایک معنوں میں ملک کی مالی حالت کا انڈیکس بھی سمجھا جاتا ہے۔سب سے زیادہ چونکانے والی بات یہ ہے کہ ملک کے مشکل مالی حالات میں حکومت کا رخ صاف سمجھ میں نہیں آرہا ہے ۔

شیئر بازار کی یہ حالت کوئی ایک دن کی ہی بات نہیں ہے ۔اس ہفتے کے شروع سے ہی ہر دن بازار گر رہا تھا ۔ایک مہینے کا رخ دیکھیں تو 10فیصد گرا۔11مہینوں کو دیکھیں تو یہ کمی 23فی صد ہے۔تجزیہ کار مسلسل امید بندھاتے رہے۔جمعرات کو ایک ساتھ 800پوائنٹس کی کمی کی وجوہات پر تجزیہ کار پہلے جیسے ہی بولتے رہے تاہم شام تک انہیں بھی کہنا پرا کہ بین الاقوامی وجوہات کے علاوہ ملک کے سرکاری بینکوں کی حالت پتہ چلنے سے بھی سرمایہ کاروں میں دہشت پھیلی ۔یہاں غور کرنے کے قابل سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ بجٹ پیش ہونے کا مہینہ ہے۔یعنی یہ اندیشہ کیوں نہیں جتایا جا سکتا کی بجٹ کی سمت موڑ نے کی آسان دلیل مل گئے ہیں۔بینکوں کی پتلی حالت آنے والے وقت میں بڑے خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے ۔ان کی بہت بڑی رقم بٹے کھاتے میں چلی گئی ہے،جسے وہ اپنی تکنیکی زبان میں این پی اے ،یعنی وصولی نہیں ہو پانے والا قرض کہتے ہیں۔پورے اثار ہیں کہ اس بجٹ میں بینکوں کو سہارا دینے کی باتیں بھی اٹھنی شروع ہو جائیں گی ۔ریزروبینک کے گورنر نے تو بینکوں کی ایسی حالت پر بیہوشی کی دوا تک کا ذکر کر دیا ہے۔ظاہر ہے کہ آنے والے ہفتے میں ملک کے گاؤں ،کسان ،کھیتی آب پاشی کے لئے پانی ،کسان مزدوروں کے لئے روزگار جیسے ضروری کاموں کی باتیں کم ہونے کا ماحول بنتا جا رہا ہے۔اچانک بڑی بڑی اسکیموں کی یاد دلانے کا کیا مطلب نکالا جا سکتا ہے؟اسی ہفتے مرکزی وزیر روڈ ٹرانسپورٹ نے کہا کہ ہماری حکومت ہائی وے سڑکیں بڑھا کر دوگنا کرنے والی ہے۔جہاں کھانے ،پانی کی کم از کم انتظام کے لئے پیسے کا رونا رویا جا رہا ہو ،وہاں ایک خاص قسم کا اتنا بڑا ہدف حاصل کرنے کے لئے کیا کیا نہیں کرنا پڑے گا۔اسی طرح بہت ساری ایسی اسکیمیں ہیں جن کو سن کر حیرانی ہوتی ہے کہ اس کے لئے پیسے کا انتظام کیسے ہوگا اس کی آواز تواٹھے گی ۔سرمایہ کاروں کی حالت ،بینکوں کی حالت ،کسانوں کی بدحالی ،غیر ملکی سرمایہ کاری آنے کا انتظام کرتے کرتے پورا سال گزر جائے گا ،ہندوستانی روپے کی قیمت دن بدن سنسنی خیز طور پر کم ہوتے جا رہے ہیں ۔کساد بازاری کی آہٹ کے بعد اب اس کے اعلان کی تیاریاں ہونے لگنا ،کیا مصیبت میں گھرنے کے ثبوت نہیں ہیں۔حکومت کو ایک بار پھر اپنے لائحہ عمل پر غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو آنے والے کساد بازاری کے خطرے کو ٹالا جا سکے اور ملک اور حکومت دونوں کی ساکھ بھی بچی رہے ۔
 
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 112454 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.