جہاں پانامہ لیکس پر کچھ ہونا تھا ہوگیا

کرپشن ہمارے معاشرے میں ایک وقت تھا جب اسے برا اور معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ لوگ بچوں بچیوں کے رشتے کرنے سے پہلے جانچ پڑتال کیا کرتے تھے ۔ لڑکوں کے حسب و نسب کو دیکھا جاتا تھا ، مال وزر کے پیمانے پر نہیں پرکھا جاتا تھا
کل میرے ایک دوست نے پوچھا کہ تمھارا کیا تجزیہ ہے پانامہ پیپرز کے بارے میں کچھ ہوگا یا پھر نہیں ۔ میرا ایک سطری جواب تھا کہ کچھ بھی نہیں ہوگا ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ میں خوش فہمیاں نہیں پالتا اور زمینی حقائق کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھتا ہوں ۔ کرپشن ہمارے معاشرے میں ایک وقت تھا جب اسے برا اور معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ لوگ بچوں بچیوں کے رشتے کرنے سے پہلے جانچ پڑتال کیا کرتے تھے ۔ لڑکوں کے حسب و نسب کو دیکھا جاتا تھا ، مال وزر کے پیمانے پر نہیں پرکھا جاتا تھا بلکہ شرافت خاندانی اقدار اور رزق حلال کے معیار پر جانچا جاتا تھا یہاں تک کے پان اور سگریٹ کو بھی معیوب سمجھا جاتا تھا اور کرپشن اور حرام دولت کمانے ؤالوں سے شرفاء رشتہ ناطہ نہیں جوڑتےتھے ۔ پھر دور بدلہ معاشرتی ثقافتی اقدار نے بھی پلٹا کھایا اور اکثریت کی سوچیں بدل گئیں اور ہم آج اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کرپشن اور رشوت ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں آج خاندانی اقدار حسب نسب پر سٹیٹس کو ترجیح دی جاتی ہے ، میں نے لوگوں کو کہتےسنا کہ دولت ہونی چاہئیے ذریعہ آمدنی چاہے کچھ بھی ہو ۔ ہم چور لٹیروں رسہ گیروں کو فخر سے ووٹ دیتے ہیں ۔ ایک وقت تھا ہمارے بزرگ حرام کمانے والوں کے پاس کھڑا ہونے سے منع کرتے تھے اور کہتے تھے بیٹا تم بھی بدنام ہوجاؤ گے آج رشوت خوروں سود خوروں ، لٹیروں بدمعاشوں کے ساتھ سیلفیاں بنا کر لوگ اپلوڈ کرکے فخر محسوس کرتے ہیں اور خوش فہمی پالتے ہیں کہ ملکی دولت لوٹنے والوں کا احتساب ہوگا ۔ پاکستان میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جو یہ نہ جانتا ہو کہ شریف اور زرداری کائنات کے سب سے بڑے کرپٹ ہیں مگر پھر ووٹ انھیں ہی دیتے ہیں آخر کیوں ؟ کیونکہ کرپشن ان کے نذدیک کوئی ایشو ہی نہیں ۔ ان دانشوروں کو اور مسند انصاف پر بیٹھے منصفوں کو شرم کرنی چاہئیے جو انکی کرپشن اور حرامخوری کے ثبوت مانگتے ہیں ۔ عوام کی حالت کائنات کا سب سے بڑا اور روشن ثبوت ہے اگر انکے اقتدار میں آنے سے عوام کی مجموعی حالت بہتر ہوئی ہے اور انکے ذاتی اثاثے نہیں بڑھے تو یہ پوتر اور گنگا نہائے ہیں پھر ان کو اپنے خاندان کی پارسائی پر دانشوروں سے کالم اور قصیدے لکھوانے کی بھی ضرورت نہیں ۔ لیکن اگر عوام کی اکثریت دو وقت کی روٹی سے محروم ہے سر پر چھت اور قدموں میں زمین اپنی نہیں ، تعلیم و صحت کی بیسک و بنیادی سہولتیں میسر نہیں ، پینے کا صاف پانی ناپید ہے تو پھر دانشور اور کالم نگار بکواس کرتے ہیں انکے جھوٹے زہد و تقوی بیان کرتے ہیں ، پھر ان سے بڑا ڈاکو لٹیرا کرہ ارضی پر کوئی نہیں - ڈیڈ باڈی کی موجودگی قتل کا پتہ دیتی ہے عوام کے چہروں پر فاقہ مستی کے نقوش دہائی دے رہے ہیں کہ چور اور کتی نے مل کر ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے - جہاں چور اور چوکیدار ہم نوالہ ہوجائیں جہاں مالی ہی باغ اجاڑنے لگے ، جہاں دانشور ذہنی دیوالیہ ہوجائے جہاں وزراء خاندانوں کے ملازم اور کاسہ لیس بن جائیں وہاں احتساب کے خواب دیکھنا دیوانگی ہے ۔ قدرت انکے قدموں سے زمین کھینچ لے تو الگ بات ہے میرا اللہ بڑی قدرت والا ہے اسنے بڑے بڑے قارون نمرود اور فرعونوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ، رہی بات ملکی اداروں کی تو ان میں اتنی سکت نہیں کہ انکا احتساب کرسکیں ۔ پرویز رشید اپنے باس کی نمک حلالی جہاں تک کرسکتا ہے کرے مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر اپنے آقا کی نمک حلالی کرتے کرتے کفر نہ کرے اور نہ انبیاء اکرام کے پاکیزہ و مطہرہ اسمائے گرامی کو اپنی پلید سیاست میں استمعال کرے ۔ کل اس کمینے نے عمرآن خان کو آف شور کمپنیوں کا باوا آدم کہا جس سے اللہ کے برگزیدہ پیغمبر کی توہین کا پہلو نکلتا ہے جو کہ آئین پاکستان اور شریعت اسلامیہ کے خلاف ہے ۔ اسلام و قرآن ایسے الفاظ کے استمعال سے روکتا ہے جس سے اشارے کنائے میں بھی کسی پیغمبر کی توہین کا پہلو نکلتا ہو ۔ پھر کہتا ہے مولوی فتوی لگاتے ہیں حالانکہ میری نیت توہین کی نہیں تھی، یہ جاہل شریفوں کی غلامی میں اسقدر اندھا ہوچکا ہے کہ اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آتا ۔ جناب فتوی نیت پر نہیں بلکہ ظاہر پر لگتا ہے ۔

دنیا میں جہاں جہاں پانامہ لیکس پر کچھ ہونا تھا ہوگیا ۔ نہ کمیشن بنے نہ صحافیوں نے اخبارات کے صفحات حکمرآنوں کے قصیدوں سے سیاہ کیے ۔ ہمارے ہاں تو قلم کی بولیاں لگتی ہیں ۔ آپ نجم سیٹھی ، حامد میر ، نصرت جاوید و دیگر شعلہ نوا کو سن لیں تو آپ یہ ماننے پر مجبور ہوجائیں گے کہ پانامہ پیپرز کوئی ایشو ہی نہیں ۔ یہ اسکے پیچھے بھی فوج کو تلاش کررہے ہیں ، حامد میر تو اسے دو شریفوں کی لڑائی کہتا ہے ۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اپنے ہی ملک کی فوج سے اتنی نفرت کیوں ؟ جواب آتا ہے جمہوریت کی محبت میں یہ الگ بات ہے نہ یہ جمہوری ہیں اور نہ یہ جمہوریت کی تعریف سے واقف ہیں یہ بس الیکشن سلیکشن کے کھیل کو جمہوریت سمجھتے ہیں ۔ جناب جمہوریت گڈی گڈے کے کھیل کا نام نہیں کرپشن مک مکا لفافوں کا نام نہیں جمہوریت نہ نواز شریف کا نام ہے اور نہ زرداری کا خوشبو پھول کی خصوصیت ہے تو گڈ گورننس شفافیت جمہوریت کی خصوصیات و خوبیاں ہیں ۔ کارکردگی کا دھیلہ انکے پلے نہیں رآگ جمہوریت کا الاپتے ہیں ۔ کوئی شرم ہوتی ہے حیا ہوتی ہے ۔
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 186411 views System analyst, writer. .. View More