رواں سال نویں سیارہ کے محل وقوع کا سراغ ملنے کی توقع
(SYED YOUSUF ALI, kARACHI)
برفیلا حصہ زمین کے مقابلے میں تقریباً 3.7 گنا کم قطر پر مشتمل مگر درجہ حرارت حرارت منفی 227 سینٹی گریڈ ہوگا
|
|
اس سال کے آغاز میں امریکی تحقیقی
ماہرین نے پر اسرار نویںسیارے کی موجودگی سے متعلق پیشگوئی کی تھی ،اس سے
قبل پلوٹو کو نظام شمسی کا نواں مگر”بونا سیارہ “قرار دیا جاتا تھا ۔ اب اس
نو دریافت نا معلوم دنیا کو نویں سیارے کا نام دیا گیا جس کے بارے میں خیال
ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ زمین سے 10 گنا زیادہ بڑا اور ٹھوس جبکہ سورج سے بھی
زائد فاصلے پر ہوگا تاہم اس کی حقیقی مکانیت کا اب تک علم نہیں ہوسکا۔اس
وقت سے اب تک دنیا بھر کے سائنسدان اس سیارے کا پتہ چلانے کے لئے مختلف
انسٹرومنٹس استعمال کررہے ہیں ۔ سائنسی ماہرین کی کوشش ہے کہ رواں سال کے
اختتام تک اس سیارے کے حقیقی محل وقوع کا پتہ چلالیا جائے۔نویں سیارے کے
محل وقوع کا پتہ چلانے کے لئے نہ صرف ناسا کی ”کاسینی “تحقیقات جاری ہیں
بلکہ ایک علیحدہ” پروجیکٹ ڈارک انرجی سروے “ کے ذریعے بھی اس کی مکانیت کا
سراغ لگانے کے لےے کوششیں جاری ہیں ۔ رواں سال جنوری میں اس سیارے کی
موجودگی کی پیشنگوئی کے بعد سے ناسا کے کاسینی خلا ئی جہاز سے بھیجے جانے
والے اعداد و شمار کے ذریعے اس کی تلاش میں مدد ملی ہے ۔ ڈارک انرجی سروے
جنوبی ہیمپشائر کا مشاہداتی منصوبہ ہے جو کہ کائنات کی گہرائی ناپنے کے
کیلئے2013 میں شروع کیا گیا تھا۔گو کہ اسے نویں سیارے کی تلاش کے لئے
دیزائن نہیں کیا گیا تھا مگر محض اتفاق ہے کہ اس کے ذریعے درست سمت میں پیش
قدمی جاری ہے ۔ناسا کی جانب سے بھیجے گئے خلائی جہاز کا سینی کے اعداد و
شمار سے پتہ چلا ہے کہ ڈارک انرجی سروے ڈرامائی طور پر اس سیارے کی درست
مکانیت کا سراغ لگانے میں کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔
گزشتہ جنوری میں کال ٹیک کے خلا نوردوں کونسٹانٹن بیٹیگن اور مائیک براﺅن
نے نویں سیارے کی موجودگی کی پیشگوئی کی تھی ۔ انہوں نے ریاضیاتی نمونے اور
کمپیوٹر کی بناوٹ کو استعمال کرتے ہوئے یہ پتہ چلایا تھا کہ سیارہ کی
مکانیت کا علم ہونے پر نیپچون کے پیچھے برفیلی اشیاءاور ملبے پر مشتمل ایک
میدان ”کیوپر کی پٹی“ میں سیاروں کے ایک جھرمٹ کے ردعمل کی وضاحت ہوسکے گی
۔ تاہم اگر یہ مجوزہ مقام پر موجود ہے تو اس کی کشش ثقل کا اثر سیاروں ،
چاندوں اور حتیٰ کے مدار کے گرد چکر لگانے والے خلائی جہازوں پر بھی ہونا
چاہئے۔یہی وجہ ہے کہ جنوری کے بعد دیگر ٹیمیں نویں سیارے کی تلاش کے لئے
دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی اسکوپ کے ذریعے پہلے سے محفوظ شدہ تصاویر اورمجوزہ
نئے مشاہدات کے ذریعے مزید ثبوت تلاش کررہی ہیں ۔یونیورسٹی آف مشیگن پر ایک
کا سمولوجسٹ ڈیوڈ گرڈیزنے سائینٹفک امریکن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ
ایسی شہادتیں مل چکی ہیں کہ مجوزہ مقام پر کوئی غیر معمولی چیز موجود ہے ۔
یہ ایک ایسی اسٹوری ہے جس کی محض معیاری تصاویر کے ذریعے وضاحت کرنا مشکل
ہے۔بہت سے ماہرین کو شبہ ہے کہ صرف ایک سال کی قلیل مدت میں کوئی ماہر
فلکیات نویں سیارے کو دیکھ سکے ۔گزشتہ ماہ زحل کے گرد چکر لگانے والے ناسا
کے کاسینی خلائی جہاز نے لاپتہ سیارے کا سراغ لگانے میں مدد فراہم کی ۔
فرانس میں کوٹ ڈی آزیور آبزرویٹری پراگنیس فینگا اور اس کی ساتھی نے اس امر
کا جائزہ لیا کہ کیا نویں سیارے کے اضافے سے نظریاتی ماڈل کاسینی کے مدار
میں دیکھے جانے والے نسبتاً چھوٹے سیاروں کے جھرمٹ کے بارے میں وضاحت ہوسکے
گی ؟۔ اس کے بغیر ہمارے نظام شمسی میں 8 سیاروں، ان کے 162 معلوم چاند، 3
شناخت شدہ بونے سیاروں(بشمول پلوٹو)، ان کے 4 معلوم چاند اور کروڑوں دوسرے
چھوٹے اجرام فلکی بشمول آخری زمرے میں سیارچے، کوئپر پٹی کے اجسام، دم دار
سیاروں، شہاب ثاقب اور بین السیاروی گرد کے بارے میں حقیقی علم نہیں ہو
سکتا۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ قدیم دور سے لے کر اب تک صرف دو سیارے دریافت
ہوئے ہیں اور اب تیسرادریافت ہوا ہے
انہوں نے 600خلائی یونٹس ( تقریباً 56 ارب میل یا 90ارب کلومیٹرز)کے فاصلے
پر نویں سیارے کا ایک ہلکا سا دھبہ دیکھا ہے ، ایک آبزرویٹری پر خلا نورد
گریک لاگلن کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی شاندار تجزیہ ہے ۔ اسٹڈی کے تحقیقی
ماہر جیکس لاسکر نے کہا ہے کہ یہ امر انتہائی حیران کن ہے کہ وہ اتنی جلدی
کسی نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر کاسینی
کے اگلے سال ختم ہونے والے مشن کو 2020 تک توسیع دے دی جائے تو سیارے کی
تلاش کی حدود میں مزید کمی آجائے گی۔تاہم اگر وہ سیارہ اسی مقام پر ہے جہاں
ماہرین کو اس کی موجودگی کا یقین ہے تو دیگر انسٹرومنٹس اس کی جلد تلاش میں
مدد فراہم کرسکتے ہیں ۔دوسری جانب ناسا نے کہا ہے کہ نویں سیارے کی حقیقی
موجودگی کی تصدیق کر نا قبل از وقت ہوگا ۔ خلائی تحقیقاتی ادارے نے متنبہ
کیا کہ ہمارے نظام شمسی میں نویں سیارے کے گردش کرنے کا دعویٰ اس وقت تک
صرف ایک پیش گوئی ہے ۔ تاہم اس انتباہ کے باوجود ناسا کا کہنا ہے کہ اگر
واقعی کوئی سیارہ وہاں موجود ہے تو ہم اس کا پتہ چلالیں گے۔ایک یوٹیوب
ویڈیو میں ناسا پر پلانیٹری سائنس کے ڈائریکٹر جم گرین نے نئے نتائج پر
اظہار خیال کیا ہے ۔ گرین نے کہا کہ 20جنوری کے مقابلے میں آسٹرونا میکل
جرنل نے سیارے کی تلاش کے لئے ہماری دلچسپی میں اضافہ کردیا ہے ۔ انہوں نے
کہا کہ ناسا کے ماہرین اس کی تلاش کے عمل میں حصہ لیں گے اور نظام شمسی میں
اس کی موجودگی کی صورت میں اسے ڈھونڈ نکالیں گے۔
آسٹروفزکسٹس کی ایک ٹیم نے پر اسرار دنیا کی طبیعاتی خصوصیات کی وضاحت کے
لئے نویں سیارے کا ایک تفصیلی ماڈل تخلیق کیا ہے ۔سیاروں کی سائنس کے دو
ماہرین نے سوئٹزرلینڈ میں تخمینہ لگایا ہے کہ سیارے میں برفانی حصہ زمین کے
مقابلے میں اندازاً3.7 گنا کم قطر پر مشتمل ہوگا۔ان کے نتائج اس امر کی
وضاحت بھی کریں گے کہ نویں سیارے کا سراغ کیوں نہیں لگایا جاسکا۔ان کا کہنا
ہے کہ اس بات کے امکانات 0.007 فیصد یا 15,000میں سے صرف ایک ہیں کہ سیاروں
کا جھرمٹ ایک خیال ہوسکتا ہے ۔ اس کی بجائے ان کا کہنا تھا کہ زمین کے حجم
سے تقریباً 10 گنا بڑا ایک سیارہ نظام شمسی کے میدان میں نا معلوم بیضوی
مدار کے گرد 6 اشیا کی نگہبانی میں چکر لگا رہا ہے ۔یہ سیارہ سورج سے
90.20بلین کلو میٹر دور واقع ہے جو کہ قبل ازیںہمارے شمسی نظام میں ”بونے
سیارے“ پلوٹو سے پرے تاریکی میں چھپا ہوا تھا جس کے باعث یہ اب تک دریافت
نہیں ہوسکا تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ دیوہیکل سیارہ برف سے ڈھکا ہوا ہے جبکہ
سردی اور گہرے اندھیرے میں گردش کر رہا ہے۔ یونیورسٹی آف برن کے پروفیسر
کرسٹوف مررداسینی اور ایتھر لینڈ کا کہنا ہے کہ یہ زمین اور سورج کے
درمیانی فاصلے کے مقابلے میں 700 گنادور ہے ۔ماہرین نے نویں سیارے کا جو
ماڈل تخلیق کیا ہے اس کے مطابق یہ یورانس اور نیپچون سے چھوٹا ہوگا۔اس کا
درجہ حرارت -226 سینٹی گریڈ یا 47کیلونز ہوگا۔سائنسدانوں کے مطابق نویں
سیارے کی تخلیق بنیادی طور پر آئرن سے ہوئی ہے جس کے گرد سلیکیٹ مینٹل
موجود ہوگا۔ |
|