بہار میں شراب پر پابندی کے نتائج
(Falah Uddin Falahi, India)
شراب پر ہندوستان کے تین ریاست میں پہلے سے
پابندی عائد تھی اور اب اس میں بہار بھی شامل ہو گیا ہے ۔گویا کہ اب
ہندوستان کے چار ریاست میں مکمل طور پر شراب پینے بیچنے پر پابندی عائد
ہے۔بہار حکومت کے مطابق جب سے شراب پر پابند ی عائد ہوئی ہے ریاست میں
کرائم کے گراف میں کافی کمی واقع ہوئی ہے ۔ساتھ ہی سرک حادثات میں۷۵فیصد کی
کمی ہوئی ہے ۔وہیں بہار کی خواتین بے حد خوش ہیں اور اب ان کے گھروں میں
صبح و شام چولہے جلنے لگے ہیں بچے بھی اسکول جانے لگے ہیں گویا کہ سماجی
حالت سدھرنے لگی ہے ۔جہاں سماجی سطح سے لیکر ریاستی سطح پر شراب پر پابندی
لگانے سے بے حد فائدہ ہوا ہے وہیں اب پورے ہندوستان میں شراب پر پابندی
عائد کرنے کا مطالبہ روز بروز بڑھ رہا ہے ۔سماجی تنظیمیں مرکز سے لیکردیگر
ریاستوں میں شراب پر پابندی کے لئے تحریک چلا رہے ہیں ۔ابھی حال ہی میں ملک
کی سماجی تنظیم جماعت اسلامی ہند نے پورے ملک میں شراب پر پابندی کا مطالبہ
کیا ہے اور دہلی میں وزیر اعلی کجریوال سے ملاقات کر کے دہلی میں مکمل طور
پر شراب پر پابندی کا مطالبہ کیا جسے کجریوال نے مثبت انداز میں لیتے ہوئے
کہا کہ ہم اس کی تائید کرتے ہیں لیکن دہلی کے لئے بہت مشکل ہے جسے بڑی
تحریک کی ضرورت ہے ۔اگر اسی طرح سماجی تنظیمیں تحریک چلائیں گے تو ہم ان کے
ساتھ ہیں۔ان سب کامیابیوں کے با وجودبہار میں شراب اور تاڑی پر عائد
پابندیوں کے نتیجے میں جہاں بہت سے لوگ خوش ہیں وہیں بعض لوگوں کو شدید
دقتوں کا سامنا ہے۔’’ریاستی دارالحکومت پٹنہ میں شراب کے عادی ایک لڑکے کی
والدہ کہتی ہیں کہ حکومت کو یہ کام رفتہ رفتہ کرنا چاہیے تھا۔اس کی والدہ
نے کہا: ’فرض کریں اگر ابھی پٹنہ میں 50 شراب کی دکانیں تھیں، تو حکومت ان
کی تعداد پہلے 25 کرتی۔ پینے والوں کو پریشانی ہوتی تو وہ نشے سے دور ہوتے۔
یکبارگی بند ہونے سے لوگ صابن کھانے لگے ہیں، جسم میں آگ لگانے لگے ہیں۔
میرے بیٹے نے بھی آگ لگانے کی کوشش کی تھی۔متاثرہ کا بیٹا عمران پٹنہ میں
نشے کی لت سے چھٹکارا دلانے والے مرکز میں داخل کرایا گیا ہے۔لڑکاشراب کا
عادی ہے۔ لیکن اچانک کی جانے والی مکمل شراب بندی کے فیصلے کے بعد انھیں
مشکلات کا سامنا ہے۔لڑکے کے مطابق ’شراب کی فروخت پر رفتہ رفتہ پابندی عائد
کرنی چاہیے تھی اور اگر ایسا ہوتا تو ہنگامہ نہیں ہوتا۔بہار میں پانچ اپریل
سے شراب کی فروخت پر مکمل پابندی ہے۔ دیسی شراب پر تو یکم اپریل سے ہی روک
لگا دی گئی تھی لیکن مکمل پابندی کا فیصلہ اچانک کیا گیا۔پٹنہ کے رہنے والے
گیا سنگھ پڑوسی ریاست مغربی بنگال میں کام کرتے ہیں۔ نشہ چھڑانے والے مرکز
میں گیا سنگھ کی بیوی انیتا ان کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔گیا سنگھ کے مطابق
مکمل طور پر شراب پر پابندی کا فیصلہ درست ہے۔ لیکن انیتا کی رائے ان سے
مختلف ہے۔انیتا کہتی ہیں: ’دیسی بند ہونے کے بعد بہت سے لوگ انگریزی شراب
پینے لگے تھے۔ اگر پہلے سے علم ہوتا تو انگریزی پینے والے بھی اپنے آپ کو
تیار کر لیتے۔مرکز میں زیر علاج 45 سال کے سنیل کمار تقریباً 20 سالوں سے
شراب پی رہے تھے۔سنیل بھی سرکار کے اچانک فیصلے کو درست نہیں مانتے۔ ان کا
خیال ہے ’رفتہ رفتہ بند کرنا چاہیے تھا۔ بہت سارے ایسے ہوتے ہیں جو شراب
یکبارگی نہیں چھوڑ سکتے۔ ایسا ہونے پر وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔‘وہیں پڑوس
کے ضلع سے مرکز لائے جانے والے ببلو چودھری نے حکومت کے فیصلے کو بالکل
صحیح بتایا ہے۔ان کا کہنا ہے: ’ایک بار میں ہی بند کیا جانا ٹھیک ہے۔ ایسے
میں بربادی اور نقصان نہیں ہوگا۔‘ماہر نفسیات ڈاکٹر سنتوش کمار پٹنہ میں
واقع اسٹیٹ ڈی-ایڈکشن ریفرل سینٹر کے نوڈل افسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طبی
لحاظ سے حکومت نے مکمل طور پر پابندی لگانے میں کوئی جلد بازی نہیں دکھائی
ہے۔وہ بتاتے ہیں: ’کوئی بھی نشہ آپ جس دن چاہیں، جب چاہیں، چھوڑ سکتے ہیں۔
اس کے بعد ہونے والی دقتوں کے لیے مناسب طبی امداد ملے تو کوئی پریشانی
نہیں ہوتی ہے۔پٹنہ کے جانے مانے ماہر نفسیات ڈاکٹر ونے کمار بھی اس سے
اتفاق رکھتے ہیں۔ ’جسے شراب چھوڑنا ہے، ایک دم چھوڑنی پڑتی ہے۔‘لیکن وہ ایک
دوسرے مسئلے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں، ’گذشتہ قریب دس سالوں میں
حکومت نے شراب کو بہت زیادہ فروغ دیا۔ ایسے میں اچانک پابندی کرنے سے
’ودڈراول سمپٹم‘ کے مریضوں کی تعداد بہت زیادہ سامنے آ رہی ہے۔ونے کے مطابق
دنیا میں نشہ پر کنٹرول حاصل کے دو ماڈل ہیں، ایک فراہمی میں کمی یا قیمتیں
بڑھانا اور مطالبے میں کمی کرنا اور اس کے خلاف بیداری پیدا کرنا۔ونے کہتے
ہیں: ’حکومت کو ان دو ماڈلز کو مرحلہ وار طریقے سے اپناتے ہوئے مکمل پابندی
کی جانب بڑھنا چاہیے تھا۔وہیں نشہ چھڑانے والے مرکز میں کام کرنے والے چراغ
کہتے ہیں: ’لوگوں کو ذہنی طور پر تیار ہونے کا وقت ملتا تو اس فیصلے کے
زیادہ بہتر نتائج سامنے آتے۔‘‘(مذکورہ معلومات صحافی منیش شنڈلیہ کے بی بی
سی ہندی سٹوری سے ماخوذ ہے)اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج بہار میں
سماجی اصلاح کیلئے عوام سے لیکر حکومت تک کو کتنی جدو جہد کرنی پر رہی ہے ۔یہ
حقیقت ہے کہ جب کوئی اصلاحی تحریک یا اصلاحی اقدام کسی حکومت کے ذریعے کئے
جاتے ہیں تو کچھ مہینوں کیلئے انتہائی ایمرجنسی جیسی حالت پیدا ہو جاتی ہے
۔لیکن اس کے مثبت اور دور رس نتائج سامنے آتے ہیں ۔جس کی مثال ہم پندرہ سو
سال پہلے محمد عربؐ کے دورمیں دیکھ چکے ہیں جس کے دیرپا نتائج آج تک وہاں
موجود ہیں اور وہ ملک دنیا کا سب سے پر سکون اور خوشحال ہے جہاں جرائم کا
زیرو فیصد ہونا بتاتا ہے واقعی شراب ام الخبائث ہے۔اس کے خاتمہ سے دور رس
نتائج بر آمد ہونگے ۔ |
|