اتحادِ امت :ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں

مولانا توقیر رضا خاں صاحب نے دارالعلوم دیوبند کا دورہ فرما کر مسلمانانِ ہند کا دل جیت لیا۔ یہ دورہ ایک ایسے موقع پر ہوا تھا جب کہ وزیراعظم امت مسلمہ کے اندر مسلکی اختلاف کو ہوا دینے میں ناکام کوشش کرچکے تھے۔ اس کے بعد حسب عادت انتظامیہ نے جھوٹ موٹ دہشت گردی کے الزام میں دہلی اور دیوبند س۱۳ بے قصور نوجوان کو گرفتار کرلیا تھا ۔ مولانا نے گرفتار نوجوان شاکر کے اہل خانہ سے بھی ملاقات کی اور ان کا حوصلہ بندھایا ۔ اب یہ خوشخبری بھی آچکی ہے کہ جیش محمد کےنام پر جن نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں سے۱۰ نام نہادخطرناک دہشت گرد رہا ہوچکے ہیں ۔ وہ بے چارے تبلیغی جماعت کے بے قصورنوجوانوں تھے جنہیں بلا ثبوت گرفتار کرلیا گیا تھا ۔ ایک ہفتہ کے اندران کی رہا ئی خوش بختی ہے ورنہ ہماری جمہوری روایت کا تقاضہ تھا کہ کئی سال تک اس معاملے کو کھاچتا جاتا اور پھر سیکولر اقدار کے تحت باعزت بری کردیا جاتا۔

نوجوانوں کے اس قدر جلد رہا ہوجانے سے ان کے اہل خانہ کا تو بہت فائدہ ہوا لیکن ان پولس والوں کا جو رشوت خوری کا زرین موقع گنوا بیٹھے، ان سرکاری و عدالتی ملازمین کا جن کی جیب گرم نہ ہوسکی اور ان اخبار ی چینلس کا جو ایک پلنگ توڑ خبر سے محروم کردئیے گئے بہت بڑا نقصان ہوا۔عصر حاضر کا صحافی خبررسانی سے ترقی کرکے خبر فروشی کے مقامِ بلند پر فائز ہوگیاہے۔ آج کل خبروں کو دبانے کیلئے بھی خبریں بنائی جاتی ہیں ۔اپنے سیاسی آقاوں کے اشارےانتظامیہ خبرگھڑتا ہے اور خبروں کے دلال نکڑ پر کھڑے بھیل پانی پوری والے کی طرح اسے نمک مرچ لگا کرٹی وی چینل یا اخبار سے اسےفروخت کرتے ہیں۔ خبر سازی کا یہ بیوپار اس مثل کی مانند ہے کہ کسی لکیر کو چھوٹا کرنا ہو تو اس کے بغل میں ایک اتنی بڑی سی لکیر کھینچو کہ لوگ اس خیالی خط کی بلندی میں الجھ کردوسرےننھے سےخط کو موجود ہونے کے باوجود نہیں دیکھ پائیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی خبر تھی جس کو دبانے کیلئے ان نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ دراصل ڈاکٹر جلیس انصاری اور ابررحمت کے باعزت بری ہونے کی خبر تھی ۔ ان دونوں کی رہائی خفیہ ایجنسیوں کے منہ پر زوردار طمانچہ تھا ۔ اس بدنامی سے بچنے کیلئے ۱۳ بے قصور نوجوانوں کو گرفتار کرنے کا ڈرامہ کیا گیا اسے ذرائع ابلاغ میں کچھ اس طرح اچھالاگیا کہ ڈاکٹر جلیس انصاری اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی پردہ پوشی ہوگئی ۔ جب یہ کام بحسن و خوبی انجام پاگیا تو پھر دو قسطوں میں ۱۰ لوگ رہا ہوگئے ۔ جوہنوز حراست میں ہیں ان کا سرغنہ ساجد ہےوہ بقول پولس ڈانسر بننا چاہتا تھا اور دہشت گردی کی تربیت کیلئےپاکستان بھی جانا چاہتا تھا حالانکہ نہ اس کے خط کا مسعود اظہر کے بھائی طلحہ نے جواب دیا اورنہ اس کے پاس پاسپورٹ ہے۔ اب پولس کے اس اوٹ پٹانگ الزام کو اگر عدالت مسترد نہ کرے تو کیا کرے ؟ اسکی بھی تومجبوری ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ آخر ڈاکٹر جلیس انصاری کے بری ہوجانے سے انتظامیہ اور ذرائع ابلاغ کو کیا پریشانی ہے؟اس کا اندازہ تو وہی کرسکتا ہے جس نے ۲۳ سال قبل جلیس انصاری سمیت ۶ لوگوں پر یہ جھوٹا لزام لگایا کہ ان لوگوں نے بابری مسجد کی شہادت کا بدلہ لینے کیلئے اس کی پہلی برسی کے موقع پر دھماکے کئے۔ پھر ان کا تعلق لشکر اور جیش سے جوڑ دیا۔ انہیں ڈاکٹر بم کے نام سے بدنام کیا ۔ ان کو راجستھان کی پوٹاعدالت سے ۲۰ سال کی سزا سنوادی اور ان کے تعلق سے نت نئی افواہیں اڑاتے رہے ۔ اس خبر پر اگر قومی بحث چھڑ جاتی تو یہ سوال پیدا ہوجاتا کہ اگر وہ دھماکے ان حضرات نے نہیں کئے تو کس نے کئے اس لئے کہ دھماکے تو ہوئے اور جومعصوم لوگ مارے گئے ان کا قاتل کون ہے ؟

ویسے اس جرم کا اعتراف سنگھ پریوار کےحامی اور آئی بی کے سابق جوائنٹ ڈائرکٹر ملئے کرشن دھر اپنی کتاب ’اوپن سیکرٹ ‘ میں کرچکے ہیں ۔ انہوں نے بے قصورمسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے کی حکمتِ عملی کو نہایت کامیا ب تجربہ قرار دے کر اپنے منہ میاں مودی بننے کی کوشش کی ہے۔اس نازک موقع پر توقیر رضا خان صاحب کا یہ اقدام یقیناً قابل صد ستائش ہے مگر امت کے اندر صحیح معنیٰ میں اتحادہزار اخلاص کے باوجود اس طرح کی سطحی کوششوں سے ممکن نہیں ہے۔ انتشار امت کا تعلق چونکہ فکر وعمل دونوں سے ہے اس لئے اس مسائلہ کا حل بھی ٹھوس فکری و عملی تدابیر کا متقاضی ہے ۔ اتحاد امت کی عملی تدابیر پر غور کرنے سے پہلے اتحاد و اختلاف کا تعلق اور اختلاف وانتشارکےفرق کو سمجھنا ضروری ہے ورنہ بعید نہیں کہ اتحاد کی مخلصانہ کوششوں کے دوران ہی افتراق کا نادانستہ بیج پڑجائے ۔

سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ اختلاف ایک ناگزیر حقیقت ہی نہیں ضرورت بھی ہے۔اس کی بدولت پیدا ہونے والے تنوع کواگریکسانیت سے بدل دیا جائے تو کائنات ہستی کا حسن ختم ہوجائےگا اور انسانی تہذیب کا ارتقاء رک جائیگا۔انفرادی جبلت سے لے کر اجتماعی معاملات تک اختلاف ہر جگہ پایاجاتا ہے۔ دوستوں کے درمیان، افراد خانہ کے اندر، دفترو بازار کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں یہ موجود نہ ہو لیکن اس کے باوجود بہ سببِ اختلاف نہ رفاقت ختم ہوتیہے نہ خاندان منتشر ہوتےہیں۔ اختلاف کے باعث نہ کوئی ملازمت ترک کرتاہےاور نہ خریدو فروخت کا سلسلہ بندہوتا ہے۔ جماعتوں کے اندر اور گروہوں کے درمیان بھی اختلاف کا پایا جانا فطری امر ہے لیکن اس سےانتشارو خلفشار پیدا کرنے سے فتنہ برپا ہوتا ہے ۔

اختلاف، اتحاد اور انتشار کے فرق و تعلق کو دنیوی زندگی اور جنت و دوزخ کے موازنہ سے سمجھا جاسکتا ہے۔ جس طرح دنیوی زندگی ایک ناگزیر حقیقت آزمائش ہے اسی طرح باہمی اختلاف بھی لوازم فطرت میں سے ایک ہے۔ اگر اختلاف نہ ہو تو نہ ہی اتحاد کی ضرورت پیش آئے اور نہ انتشار کا امکان ہو۔ اختلاف کے تئیں اختیار کیا جانے والا رویہ دراصل وہ آزمائش ہے جو کامیابی و ناکامی کا سبب بنتا ہے۔ افرادو یا جماعتوں کا اختلافات کے باوجود متحد ہوکر ایک دوسرے کا تعاون کرنا کامیابی وکامرانی ہے اور اختلاف کے سبببغض و عناد کا شکار ہوکر منتشر ہوجانا ناکامی و نامرادی ہے ۔ اختلاف کی بیخ کنی چونکہ ناممکن ہے اس لئے اس سعی لاحاصل میں اپنی توانائی صرف کر نا دانشمندی نہیں ہے بلکہ اختلاف کے باوجود تعاون اعلی البر و تقویٰ کی بنیاد پر مل جل کر کام کرنا مطلوب و مقصودہے ۔

بیرونی خطرات یعنی اسلام دشمن طاقتوں کے خوف کی بنیاد پر قائم ہونے والا اتحاد پائیدار نہیں ہوسکتا ۔ یہ نسخہ اس وقت تک تو کارگر ثابت ہوتا ہے جبتک کہ خطرہ شدید ہو مثلاً کسی جنگ یا فساد کے دوران یا اس کے فوراً بعد لیکن حالات کےمعمول پر آتے ہی یہ بنیاد کمزور پڑجاتی ہے ۔ جیسے جیسے خوف و ہراس کازور ٹوٹتا جاتا ہے اتحاد اتفاق کی ضرورت و اہمیت کابھی خاتمہ ہو تا چلاجاتا ہے۔ کچھ لوگ قرآن مجید کی ایک آیات بلکہ آیت کے ایک ٹکڑے کو سیاق و سباق سے الگ کرکے اس کے سہارے اتحاد قائم کرنےکی سعی کرتے ہیں جو جزوی کامیابی سے آگے نہیں بڑھ پاتی ۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے اتحاد بین المسلمین کی خاطر صرف ایک آیت نہیں بلکہ پورا رکوع نازل فرمایا ہے جس کے قلب میں ’’واعتصموبحبل اللہ ‘‘والی آیت ہے۔اس ٹکڑے کے حوالے سے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسان جس طرح دل کی دھڑکن کے بند ہوجانے پر زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح اگر دل کو باقی جسم سے الگ کردیا جائے تب بھی نتیجہ ہلاکت خیز ہوتا ہے۔
مذکورہ آیت سے قبل ارشاد ربانی ہے ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہاسکا حق ہے تم کو موت نہ آئےمگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو‘‘۔ اس آیت میں خطاب اہل ایمان سے ہے اور اتحاد بین المسلمین کی تلقین سے پہلے اس کا سیاق غماز ہے کہ تقویٰ اتحاد کی ناگزیر ضرورت (pre requisite( ہے۔تقویٰ ایک انفرادی صفت ہے ۔جولوگ اتحاد کے خواہش مندہیں ان کے لئے اپنے آپ کو اس سے متصف نہ کرنا لازمی ہے ورنہ لاکھ خواہش یا کوشش کے باوجود وہ متحد نہیں ہوسکتے۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا’’مومن ﴿دوسرے ﴾مومن کے لیے دیوار کے مثل ہے جس کی ایک اینٹ سے دوسرے اینٹ کو مضبوط بناتی ہے۔‘‘ اللہ کی محبت اور اللہ کا ڈر ہی ان اینٹوں کو خوشنما اور مضبوط بناتا ہے۔ اگر اینٹیں کمزور اور بدنما ہوں تو ان کی مدد سے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی تعمیر غیر ممکن ہے؟اس آیت مبارکہ میں موت تک تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین مستقل مزاجی کی علامت ہے اور یہی استقلال دیوارکو پائیداری بخشتا ہے اور اس کی عدم موجودگی اتحاد کو عارضی اور ناپائیداربنادیتی ہے۔

اس مرحلے سےگزرنے کے بعد متقیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ سب اللہ کی رسی یعنی اللہ کی کتاب قرآن مجیدکو مل کر تھام لیں۔ ان سب کا ایک کتاب سے وابستہ ہو جانا ازخود باہم منسلک کردینے والا عمل ہے ۔ اتحاد کی بنیادیہی اعتصام باللہ ہے ۔ اگر کسی دیوار کی بنیاد ناہموار ہوتو اس میں لگنے والی اینٹوں کا معیار جوبھی ہو۔ اس کا نقشہ چاہے جتنا اعلیٰ درجہ کا ہو۔ اس کو تعمیر کرنے والوں کی مہارت جیسی بھی ہودیوار جیسے جیسے بلند ہوگی اس کا ٹیڑھا پن واضح تر ہوتا چلا جائیگا اورکسی دشمن کی زحمت کے بغیر وہ اپنے ہی بوجھ سے ڈھے جائیگی۔ کتاب اللہ ہی اہل ایمان کے درمیان قدر مشترک ہے اور اسی کے توسط سے باہمی اختلافات کوبخیر و خوبی نمٹایا جاسکتا ہے۔ اس کتاب کے بجائے طاقت وقوت یا سازش وفریب کےمدد سے تفرقہ تو پھیلایا جاسکتا ہے مگراتحادقائم نہیں ہوسکتا اسی لئےدرمیان میں تفرقہ سے اجتناب کی تاکیدآئی ہے۔

آگے چل کراس آیت کریمہ میں اتحاد کو اللہ کا احسان قرار دیا گیا گویا اتحادقائم کرنے والوں کا رجوع اللہ سے بے نیاز ہوکر صرف اور صرف اپنی ذہانت وذکاوت پر انحصار کرلینا امت کو خلفشار کی آگ سے نہیں بچا سکتا ۔ انتشار کے سبب نہ صرف یہ دنیا جہنم زار بن جاتی ہے بلکہ دوزخ کی آگ کا ایندھن بھی فراہم ہوجاتا ہے۔اللہ کا فضل و کرم مومنین کےدلوں کو جوڑ کرانہیں بھائی بھائی بنا تا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ یہ نشانیاں ہمارے سامنے اس لئے بیان فرماتا ہے کہ ہم ان کی مدد سے سیدھے راستے کی معرفت حاصل کریں فرمایا’’اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ اِن علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آ جائے‘‘۔ یہاں پر سیدھے راستے پر پیش قدمی کی تلقین کی گئی ہے۔

اتحاد امت کی اہم ترین عملی تدبیر اس حدیث پرصدق دل سے عملدرآمد ہے کہ ’’ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کروجواپنے لیے پسند کرتے ہو‘‘۔ اس کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ اپنی پسند دوسروں پر تھوپو بلکہ جس طرح ہم اپنے اوپرزور زبردستی نہیں پسند کرتے اسی طرح دوسروں پر جبرنہ کریں۔ جیسےہر شخص اپنی عزت نفس کا خیال کرتاہے اسی طرح وہ دوسروں کا بھی احترام کیا جائے بلکہ فرمایا یہ بھی فرمایا’’ اپنی ذات پر دوسروںکو ترجیح دو‘‘۔ صحابہ نے اس حدیث پر میدان جنگ میں عمل کیا اور اپنے بھائی سے قبل پانی کا گھونٹ پینا گوارہ نہیں کیا یہاں تک کہ روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ اتحاد امت کا یہ یہ لازمی تقاضہ ہے ہم اس آیت پر عملی نمونہ ہوں کہ ہم ’’ کفار پر سخت اور آپس میں رحم و کرم کا پیکر بن جائیں ۔‘‘ بقول حکیم الامت اقبال ؎
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

ان تقاضوں کی اہمیت کو دیوار اور اینٹوں کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔دیوار میں اینٹوں کے درمیان اگر سیمنٹ موجود نہ ہو تو ہوا کا ایک معمولی سا جھونکا بھی اسے زمین بوس کرنے کیلئے کافی ہے ۔ امت کی بنیان المرصوص میں سیمنٹ کی تفصیل حدیث ِ رسول ؐمیں دیکھیں’’مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے، ایک دوسرے پر رحم کھانے اور شفقت کرنے میں ایک جسم کے مانند ہے کہ جب اس کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔‘‘ اس نسخۂ کیمیایعنی باہم محبت ، شفقت ، ہمدردی و غم گساری کے بغیر اتحاد کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا ۔

اتحاد بجائے خود مقصود ہے نیز ایک عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ بھی ہے اسی لئے اس کے بعد والی آیت میں فرمایا’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے ۔ ‘‘ اس آیت کا اتحاد امت سے گہرا تعلق ہے ۔ اگر اتحاد میں شامل تمام گروہ اس فرض منصبی کو ادا کرنے میں منہمک ہوں تو ان کے درمیان تعاون واشتراک کے مواقع پیدا ہوتے رہیں گے اور اتحاد و اتفاق کی فضا پیدا ہوگی۔ ایسے میں قرآن کےاوامر و نواہی ’’نیکی اور خدا ترسی کے کام میں تعاون کرو اور جوگناہ اور زیادتی کے کام ہیں میں تعاون کرنے سے اجتناب کرو۔‘‘ پر عملدرآمد کے مواقع ہاتھ آتے رہیں گے۔

ممبئی کےکرلا علاقہ میں جماعت اسلامی نے گزشتہ دنوں منشیات کی روک تھام کیلئے مختلف مکاتب فکر کی جماعتوں کے تعاون سے ایک مہم چلائی ۔ اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک معاشرتی برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد میں امت نے اتحاد کا عملی مظاہرہ کیا۔ اس مہم کے دوران امت کی مختلف تنظیموں سے تعارف کے مواقع پیدا ہوئے، فاصلوں میں کمی آئی ۔ غلط فہمیوں کا ازالہ ہواور باہمی اعتماد بحالہوا ۔ اس طرح کے عملی اقدامات ہی آگے چل کر اتحاد کی راہ استوار کرتے ہیں۔ رکوع کےاختتام پر رب کائنات نے انتشار کے عبرتناک انجام سے خبردار کیا ہے۔ فرمانِ ربانی ہے ’’کہیں تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھرفرقہ بندی کا شکار ہوکر اختلافات میں مبتلا ہوگئے۔ جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اُس روزسخت سزا پائیں گے۔‘‘ معلوم ہوااللہ تعالیٰ کی سخت سزا کا خوف ہی انسان کو انتشار و خلفشارپھیلانے سے روک سکتا ہے۔

آخری بات یہ ہے کہ اتحاد کی تمام تر احتیاط اور دانشمندی کے باوجودایک ساتھ کام کرنے والوں کے درمیان ناچاقی کا امکان باقی رہتاہے۔ ایی صورتحال میں الہامی ہدایت یہ ہے کہ ’’اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ‘‘ ۔ ممکن ہے دونوں فریق اس صلح صفائی پر راضی ہوجائیں بصورتِ دیگر ’’اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والوں سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کروکہ اللہ انصاف کرنے والوں کوپسندکرتاہے ۔‘‘ اس آیت میں عدل ونصاف قائم کرتے وقت انسانوں کی پسندو ناپسند کا خیال کرنے کے بجائے اللہ کی خوشنودی ملحوظ خاطر رکھنے کی نصیحت بہت اہم ہے ۔

امت کے اندر صلح و آشتی اس قدر اہمیت ہے کہ اس کی خاطر جنگ بھی مباح ہے ۔ اتحاد و اتفاق کی بابت رسولاللہﷺنےفرمایا’’کیا(میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتلا دوں جس کا مقام روزہ، صدقہ اور نماز سے بڑھا ہوا ہے۔ لوگوں نےعرض کیا ضرور بتائیے ۔آپ نے فرمایا کہ وہ چیز آپس کی لڑائی میں صلح کرانا ہے اور باہمی تعلقات کی خرابی نیکیوں کو مٹانے والی ہے۔‘‘ اخلاص نیت اور حکمت و دانائی کے ساتھ اگر باہمی صلح صفائی کا کام اسی طرح جاری و ساری رہے جیسا کہ توقیر رضا خاں صاحب نے کیا ہے توانتشار کی خرابی اپنے آپ مٹ جائیگی اور ملت اسلامیہ امت واحدہ بن جائیگی بقول ابوالمجاہد زاہد؎
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2134 Articles with 1537193 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.