پاکستان کی بنیادوں میں اسلام کے لاکھوں فدا کاروں کا
مقدس خون ہے جو قوم سے نفاذ اسلام کا مطالبہ کر رہا ہے پاکستان کی دینی
جماعتیں اسلامی نظام کیلئے کوشش کر رہی ہیں مگر کامیابی کی بجائے منزل دور
سے دور تر ہوتی جارہی ہے صورت حال اہل دین کو دیوار سے لگانے تک آگئی ہے ۔ان
حالات کے آنے میں جہاں دین دشمن قوتوں کا کردار ہے وہیں جمہوریت پسند دینی
جماعتوں کی ناکام پالیسیوں کا بھی حصہ ہے جنھوں نے غیر مسنون طریقے سے
جدوجہد ایک ایسے نظام کا سہارا لے کر کی جو انسان ساختہ ہونے کے ساتھ ساتھ
یہودہنود کا نمائندہ بھی ہے جس کی کمان عالمی سطح پربرائے راست اسلام دشمن
کر رہے ہیں ،ماضی قریب سے جس قدر حالات واقعات کا سامنا اہل دین کو کرنا
پڑا سب کے سامنے ہے ،سیکولر عناصر ہر قیمت پر اسلام کے خلاف میدان میں
موجود ہیں اور اسلام کا چہرہ اس قدر بھیانک پیش کررہے ہیں کہ بدیانتی کی
انتہا ہو گئی ہے ۔سیکولر عناصر تمام وسائل سے لیس ہیں اور ان کا زور دار
موقف ہے کہ اسلامی نظام جدید دور میں ناقابل عمل ہے ،اس کے برعکس قرآن
اوراحادیث رسولﷺ اس بات پر شاہد ہیں اسلام قیامت تک آنے والے آخری انسان
کیلئے دستور حیات کی حیثیت رکھتا ہے نام نہاد مسلمان سیکولر عناصر ان سب
بشارتوں،حقائق کے باوجود اس بات پر بضد ہیں ہیں کہ اگر اسلام کا نفاذ ہوگیا
تو انسانیت پتھر کے دور میں چلی جائے گی (نعوذ باﷲ)حقیقت میں ایسا ہر گز
نہیں بلکہ جو عناصر یہ بات کرتے ہیں وہ اپنی نہیں بلکہ اغیار کی ڈکٹیشن پر
یہ کہتے ہیں ان کا مقصود چند ٹکوں کے سوا کچھ نہیں ۔لیکن مسٔلہ ان مسلمانوں
کا ہے جو دین سے دور اور اسے عناصر سے متاثر ہیں وہ دین اسلام اور اہل دین
سے دور سے دورتر ہوتے جارہے ہیں جس کا نتیجہ بے دین،بے حیائی،عریانی فحاشی
کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے ۔اقتدار کے ایوانوں میں ایسے لوگ مسلط ہیں جو
مادیت پرستی کے نشے میں مست وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں جن کی انھیں اﷲ
ورسولﷺ اجازت ہی نہیں دیتے ۔انھیں روکنے والا کوئی نہیں ،بڑے بڑے ادارے اب
تو ہاتھ کھڑے کرتے دکھائی دے رہے ہیں دوسری طرف دنیا میں موجود نظام
جمہوریت اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے ۔اہل جمہوریت سب سے سب
کرپشن،بدیانتی،ہیرا پھیری،لوٹ مار،جرائم کے حمام میں ننگے ہیں ،کرپشن کے
خلاف آواز بلند کرنے والے لیڈران اور ان کے سرمایہ کار بھی کرپشن ،ٹیکس
چوری، پامانالیکس کے جرم میں شریک پائے گئے ہیں ماسوائے اسلام پسندایک دو
جماعتوں کے۔
اس صورت حال میں ہم سمجھتے ہیں کہ دینی قیادت پر فرض اولین عائد ہوتا ہے کہ
وہ میدان میں اترے، اسلام کیلئے ،صرف اور صرف اسلام کیلئے۔۔۔۔۔ اس سلسلے
میں تمام مذہبی ودینی طاقتوں کو اپنے فروعی اختلافات ،مفادات ،ذاتی رنجشیں
بالائے طاق رکھ کر مسنون طریقے کو مد نظر رکھتے ہوئے میدان میں اترنا ہوگا
سب کو اپنے اپنے تحفظات کو ختم یامناسب حد تک کم کرنے کیلئے مل جل کر
بیٹھنا ہوگا منصوبہ بندی کرنا ہوگی اسلامی نظام کیلئے کیونکہ اب آخری آپشن
اسلامی نظام ہی رہ گیا ہے ۔دنیا نے ایک صدی تک جمہوریت کے رنگ دیکھ لئے اور
اس سے پہلے اسلام کے عادلانا نظام کا دور دورہ بھی لوگوں نے دیکھا جس کا
تذکرہ تاریخ کی کتب میں ملتا ہے جو اپنے طورپر بہترین نظام حکومت تھا جس کی
کہانیاں ضرب المثل بن گئی ہیں ۔دینی قوتوں کی ڈیوٹی ہے کہ وہ اب ایک بار
پھر ازسرنواسلامی نظام کا تعارف ،اس کے قیام کی فرضیت واہمیت از سرنو عوام
کو یاد دلائیں ،منظم صف بندی کی جائے تا کہ پاکستان کے قیام کا مقصد پورا
ہو سکے۔بصورت دیگردینی جماعتیں جتنی مرضی نظام مصطفیٰ ﷺ تحریکوں کا اعلان
کر لیں ۔نتیجہ صفر کی بجائے منفی برآمد ہوگا کیونکہ اس وقت اسلام،اسلام کے
نظام سیاست کو متنازعہ بنانے کی بھرپور کوششیں ہورہی ہیں ۔سب سے پہلے عوام
کو دینی قیادت بتائے کہ اسلامی نظام صرف اور صرف خلافت کو کہتے ہیں جو
ہمارا منشور ودستور ہے ۔
اسلامی نظام کے قیام کے سلسلے میں میڈیا کو بھی دیانتداری کا مظاہرہ کرنا
ہوگا۔کم ازکم اسلامی ممالک میں سفید جھوٹ کو بالکل سچ کرکے دیکھانے کا عمل
اب بند ہونا چاہیے ۔اسلام پسند طاقتوں کی مثبت انداز میں میڈیا کوریج کی
جائے تاکہ لوگوں میں اسلام کے بارے میں مزید شعور بیدار ہو سکے ۔اب تک ہوا
یوں کہ اسلامی نظام کے داعیان کو میڈیا نے وہ اہمیت نہیں دی جو ان کا حق
بنتا تھا ۔اسلامی فکر کے حامل افراد کو ایک میڈیا نے ایک کونے میں لگائے
رکھا ۔دینی لوگ ابھی تک اسی کونے میں ہیں آگئے نہیں آنے دیا جا رہا ۔
اسلامی ممالک کے میڈیاکو چاہیے کہ وہ اسلام کا تصور وحدت (خلافت ) کو دنیا
کے مسلمانوں کے سامنے پیش کرے۔
ایک اہم سوال کہ عالمی سطح پراسلام آئے گا کیسے فرقہ واریت اور تقسیم کا
عمل بہت گہرا ہے ۔ ایسے میں اسلام کیسے آسکتا ہے ؟اس سلسلے میں گزارش ہے کہ
سب سے پہلے ساری دنیا کے مسلم ممالک کو اس بات کا عزم کرنا ہوگا کہ ہم اﷲ ،رسولﷺ
اور اسلام کے حوالے سے کسی سے کمپرومائز نہیں کریں گے ۔پھر سب ممالک متحد
ہوکر عالمی سطح پر اسلام کا نفاذ کر سکتے ۔ابھی تک مسلم دنیا میں ایسی کوئی
مخلصانہ کوشش کبھی نہیں ہوئی جس کا مرکز ومحور اسلامی نظام ہو۔اگر موجودہ
مسلم حکمران ایسا کرلیں تو عوام کاکئی دہائیوں کا سفر ختم ہو سکتا ہے ۔ترکی
کے جرأت مندانہ اقدام سے کچھ نہ کچھ خوشبو آرہی ہے۔ |