آج میں نے اپنے کالم کو سیاست،میڈیااور عوام کے عنوان سے
منتخب کیا ہے، اس موضوع کی ضرورت دور حاضر کے سیاسی بے چینی اور سیاسی
ابتری کی بنا پر کرنا ناگزیر ہوگیا، میں نے اپنے کالم کو تین حصوں پر منقسم
کیا ہے جو آپس میں لازمی جز بھی ہیں ، پاکستان کی سیاست کی بدنمائی
پاکستان کی ریاست پر براہ راست اثر انداز ہورہی ہے اسی بنا پر ادارے ناپید
اور کمزور ہوچکے ہیں اسی بابت کرپشن، بدعنوانی، لاقانیت کے سمندر کی تہہ تک
پہنچ چکے ہیں، اب بھی اگر پاکستانی سیاست اور نظام ریاست کی سدھار ا نہ گیا
تو خدا نہ خواستہ پاکستان نا قابل تلافی تقصان سے دوچار ہوسکتا ہے، جمہوری
حکومتوں میںنظام حکومت اور ریاست کی باگ دوڑ منتخب شدہ لوگوں کے ذمہ براہ
راست ہوتی ہے اور یہ ریاست کی ذمہ داری سب سے بڑی اور انتہائی سنجیدہ ہوتی
ہے، اس ذمہ داری میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ ذرا سی غلطی بڑی
تباہی، نقصان اور پریشانی کا باعث بھی بن سکتی ہے ۔۔!! پاکستان ایک اسلامی
جمہوریہ ملک ہے لیکن کیا ہماری ریاست اور نظام حکومت اسلامی ادوار کے تحت
چلتے ہیں۔۔ ؟؟ برصغیر پاک و ہند میں پہلی یہ ریاست ہے جو خالصتاً اسلام کے
نام پر وجود میں آئی مگر افسوس اس کے وجود میں آنے کے بعد چند سالوں میں
نظام حکومت دہریوں، منافقوں، جھوٹوں، مکاروں، دھوکے بازوں کے ہاتھوں چلی
گئی پھر زمانے نے دیکھا کہ سیاست اور حکومت خاندانوں پر محیط ہوکر رہ گئی
کچھ چند ایک دیگر سیاسی جماعتوں نے اپنی کوششوں سے جگہ تو بنالی مگر وہ بھی
انہی کے رنگ میں رنگ گئے، مال و دولت کی لوٹ کھوسٹ ، قتل و غارت گری، ظلم و
تشدد ان کا تمغہ امتیاز بن گیا، پاکستانی عوام اب سوچنے پر مجبور ہوگئی ہے
کہ کئی سالوں سے یہ سیاسی لیڈران، سیاسی جماعتیں اور گروہ صرف اور صرف ان
پر ظلم کرتے چلے آئے ہیں کوئی مستقل اور مستقبل کیلئے مضبوط پلان نہیں دیا
اور اگر ترقی و تعمراتی عوامل کیئے بھی تو ان میں اس قدر کرپشن رہی جو چند
سالوں میں خستہ حال ہوگئے!! حقیقت تویہ ہے کہ ہمارا سیاسی نظام کرپشن اور
بدعنوانی گھرا ہوا ہے اور لاقانونیت، بدعنوانی کے شکنجے میں قیدبھی
ہے،اسلامی جمہوریہ ریاست میں جو نظام ہونا چاہیئے اس کے متعلق دیکھتے ہیں
کہ قرآن ہمیں کس طرح کا سیاسی نظام بتاتا ہے۔۔!!سیاست اور نظم و نسق کا
مسئلہ اسلام میں زیادہ اہم اور نمایاں ہے، حکومت ، ولایت ، امر بہ معروف ،
نھی عن المنکر ، جہاد ، دفاع ، قضاوت ، شھادات ، حدود ، قصاص ، تجارت ،
معاملات ، نا بالغوں ، یتیموں اور مجانین کی ولایت ، سماجی اور گھریلو حقوق
، تربیتی اور ثقافتی امور ، اقتصادی مسائل ، زکوٰۃ ، خمس ، غنائم ، ذمّی
اور اہل کتاب کے احکام ، دوسری ملتوں سے امت مسلمہ کے تعلقات ، جنگ و صلح
اور اسی طرح کے دوسرے مسائل ان فقہی اور اسلامی معارف کے زمرے میں شامل ہیں
جنہیں معاشرے کی سیاست و تدبیر سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا یہ کہنا غلط ہے
کہ رسول خدا محض عبادات ، اعتقادات کی تعلیم اور لوگوں کی تربیت و ہدایت ہی
کرتے رہے ۔۔ اسلامی ملک کی اندرونی و بیرونی سیاست سے ان کا کوئی واسطہ نہ
تھا۔۔! ! مختلف ملکی سر براہوں کے نام آنحضرت کے خطوط ، عملی طور پر ظالم
و جابر افراد کے خلاف اقدامات ، شیطانی سیاست اور سیاست مداروں سے ٹکر ،
باطل کے خلاف جنگ میں لوگوں کو جمع کرنا ، مسند قضاوت پر بیٹھنا ، (عدل و
انصاف قائم کرنا ) اور تمام سماجی امور میں رہنمائی کرنا۔۔!!ایسے رویّے اور
طور طریقے ہیں جن کو پیغمبر کی سنت و سیرت سے جدا نہیں کیا جاسکتا لہٰذا
سیاسی مسائل کی اہمیت ، ان کا شریعت سے تعلق اور بانی ٴاسلام کی ان معاملات
میں براہ راست رہنما ئی ، نیز اسلامی معاشرے کی ہدایت کی ذمہ داری نہ صرف
عقل و شرع کے بدیہی امور میں شمار کی جاتی ہے بلکہ ان میں ابہام کی کوئی
گنجائش نہیں ہے۔ ۔۔سیاست کے معنی عوام پر احکام جاری کرنے اور پابندی عائد
کرنے کے ہیں ۔۔ حدیث میں ہے ’’دین اور امت مسلمہ سے وابستہ امور کی ذمہ
داری پیغمبر اسلام کو سونپی گئی تاکہ لوگوں کو سیاست اور راہنمائی کریں‘‘۔۔
۔ آج کی سیاست اور سیاسی رہنماؤں کی منطق کے درمیان مکمل تضاد ہے اس لئے
کہ ان لوگوں نے عوامی مصلحت ، ترقی اور سر حدوں کی حفاظت کے بجائے اپنی
سیاست کی بنیاد ، مکاری ، قتل و غارت گری ، جاہ طلبی ، ریاست اور وسعت طلبی
،نیز محروموں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے پر رکھی ہے،یہ عوام دشمن
غریبوں کو موت کے حوالے کرنے ، انھیں علمی ، فنی اور فکری افلاس کے حوالے
کرنے کو نصب العین بنائے ہوئے ہیں ، ظاہر ہے اس سیاست کی دین، ضمیر اور عقل
میں کوئی گنجائش نہیں۔۔۔!!قرآن مجید نے دو طرح کے سر براہوں کا ذکر کیا ہے
۔ایک الٰہی رہبراوردوسرا شیطانی سربراہ جو ایک دوسرے کی مخالف جہت میں چلتے
رہتے ہیں ۔ قرآن میں جہاں بھی ان دونوں طرح کے سربراہوں کا ذکر ہوا ہے
وہاں ان کے حکمرانی کے طریقوں کی بھی وضاحت کی گئی ہے۔۔۔!!قرآن میں مسرفین
، مستکبرین ، مفسدین اور مترفین جیسی تعبیریں طاغوتوں اور صاحب مال و قدرت
سربراہوں کےلئے بارہا استعمال ہوئی ہیں قرآن میں ایسے واقعات بھی ہیں جن
میں ایسے سر براہوں کا ذکر ہے جنہوں نے عوام کی مصلحت کو مد نظر رکھتے ہوئے
صحیح اقدامات کئے ہیں اور دوسری جانب ملکوں کی تباہی اور انسانوں کی گمراہی
زیادہ تر ظالم و جابر حکام کے زیر نگرانی ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن
مجید بار بار ان کا ذکر کرتا ہے!! اور ہم نے ہر قوم کے لئے ایک رسول بھیجا
جوان سے کہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت ( شیطان ) سے دوری اختیار
کرو۔۔!! در اصل ارتقاء و وحدت ، صالح افراد کی حاکمیت یعنی قانون ، سیاست
اور دینی ثبات ہی کے زیر سایہ ممکن ہے اور کفر ، ضلالت اور تباہی طاغوتی سر
براہوں کا وہ پیشہ ہے جس سے وہ باز نہیں آسکتے ۔لہٰذا اصلاح طلب افراد کا
ایمانی و انسانی فریضہ ہے کہ انسانی ارتقا کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والے
عناصر کو فناکے حوالے کر دیں تاکہ انسانیت بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی منزل
مقصود تک رسائی حاصل کر سکے اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم
علیہ السلام ،موسیٰ اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺاور اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء
و اولیاء نے عمل کیا اسی طرح عمل کیا جائے ۔۔۔۔!! معزز قائرین آپ اور ہم
عوام اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ہمارا یہ ایوان تمام تر دین اسلام کے
اصولوں سے نا واقف ہے یا یوں کہ لیجئے کہ وہ دین اسلام کے مروج سیاسی
اصولوں کو اپنانے سے گھبراتے ہیں جبکہ اکثریت ایسے ممبران کی ہیں جو نام
نہاد مسلمان ہیں اور جنہیں دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں !! آئین اور دستور
کا مطالعہ کیا جائے تو اس کی شق یعنی آرٹیکل 61,62,63 بتایا ہے کہ ممبر کو
ابتدائی معلومات قرآن و حدیث کے متعلق ہونی چاہیئے لیکن یہاں تو سورۃ کوثر
ہو یا سورۃ اخلاص یاد ہی نہیں پھر بھی وزرات کی منصب پر برجمان ہوتے رہتے
ہیں انہیں یہ معلوم ہے کہ قومی دولت کو کس طرح لوٹ کھسوٹ کرنا ہے ، اداروں
کو کس طرح تباہ و برباد کرنا ہے ، اقربہ پروری، رشوت، شفارش کو کس طرح فروغ
دینا ہے اور بےانتہا اپنی مالک کا انبار کھڑا کرنا ہے ، قوم کو کس طرح
قرضوں کے چنگل میں جگڑنا ہے ، ان سیاسی لیڈران اور سیاسی جماعتوں کو خوب
شعور ہے اپنے مفادات کی تکمیل کس طرح ممکن بنائی جاسکتے ہے، انہیں معلوم ہے
کہ عوام پرکس طرح دادا گیری اور شاہی گیری دیکھانی ہے۔۔۔!! ان سیاستدانوں
کی حوصلہ افزائی افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری میڈیا کرتی ہے جس میں
چند ایک ایسے چینلز ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر ان کے کرپشن اور بدعنوانیوں
پر پردہ پوشی کرتے تھکتے نہیں، ان میڈیا میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک
میڈیا کے صرف چند ایک عناصر ہیں، ان عناصر کی وجہ سے تمام میڈیا بدنامی کا
شکار ہو رہے ہیں ، ہمارے صحافی اور اداروں کے مالکان شب و روز اپنی
ذمہدارانہ فرائض کو انجام دیتے ہیں ان میں کئی ایسے صحافی ہیں جن کی زندگی
انتہائی کسمہ پرسی میں گزر ہورہی ہے لیکن اپنے ایمان اور منصب فرائض کو
انتہائی ایمانداری اور سچائی سے انجام دے رہے ہیں۔ ۔۔!! میڈیا میں ایسے
نمائندگان، اینکرز اور مالکان جو اپنے چینل اور اخبارات کی ترویج کیلئے زرد
راستہ اپنائے بیٹھے ہیں ان کی وجہ سے یہ مقدس پیشہ بدنامی کی زد میں ہے
لیکن عوام کو اب شعور آچکا ہے کہ کون سا اخبار اور کون سا چینل ایسا ہے جو
حق و سچ کے بجائے غلط سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں کی تعریف اور کارناموں کی
کہانیاں سناتے پھرتے ہیں اور ایسے ہی لوگ ان کرپٹ، بدعنوان اور ظالم سیاسی
لیڈران سے مالی معاونت حاصل کرتے رہتے ہیں ،اگر یہ چند صحافی اور چینل کے
مالکان اپنا قبلہ درست کرلیں تو یقینا ًکرپٹ اور بدعنوان سیاسی لیڈران کے
عزائم خاک میں مٹ جائیں گے۔اے آر وائی ابتک الیکٹرونک میڈیا میں واحد چینل
ہے جو اپنے ملازمین کو سب سے زیادہ نہ صرف تنخواہ دے رہا ہے بلکہ دیگر
مراعات سے بھی نواز رہا ہے ،اے آر وائی سمجھتا ہے کہ اپنے ملازمین کو بہتر
مشاہراہ دینے سے ان کے ملازمین بہک نہیں سکیں گے اور وہ بڑی ذمہ داری
کیساتھ اپنے فرائض انجام دیں گے اور عوام نے دیکھا بھی ہے کہ اے آر وائی
اپنی صحافتی امور میں سچائی اور ایمانداری کیساتھ آگے بڑھ رہا ہے ۔میڈیا
کے بڑے معتبر لوگوں میں کامران خان، ڈاکٹر شاہد مسعود، ارشد شریف، مبشر
لقمان، سمیع ابراہیم ، مجاہد بریلوی، کامران شاہد، نصر اللہ ملک، اویس
توحید،محسن رضا، مظہر عباس اور جاوید چوہدری نے جس طرح حالیہ بین الاقوامی
اشو پاناما لیکس پر اپنی ذمہ دارانہ فرائض کو انجام دیئے ہیں وہ ایک قابل
ستائش اور قابل تعریف ہے، عوام میں پاناما اشو پر میڈیا کے ان صحافی و
اینکرز پر بڑا اعتماد ہوا ہے اور انھوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ شکر ہے
میڈیا کو ذمہدار لوگ ایک پیچ پر ہوئے۔عوام کے ایک حلقے نے امید ظاہر کی ہے
کہ میڈیا ان ظالم حکمرانوں اور ظالم کرپٹ سیاسی رہنماؤں کے اطراف سخت سے
سخت گھیرا تنگ کردیں اور ان کے مکروہ چہروں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کردیں
تاکہ آئندہ کسی بھی سیاسی جماعت اور سیاسی رہنماؤں کو کرپشن کرنی کی ہمت
نہ ہو اس کے علاوہ عوامی حلقے کا کہنا ہے کہ احتساب سب کا ہی ہونا چاہیئے
لیکن وقت ضرورت یہ ہے کہ سب سے پہلے موجودہ حکمرانوںکا احتساب کیا جائے،
عوامی حلقوں نے اس بات کو بھی واضع کیا کہ اب وقت ہے کہ پاکستان میں پوشیدہ
اور ظاہری بدعنوانی کرنے والے ہرسیاسی جماعت کا محاسبہ کرکے احتسابی عمل سے
گزارا جائے ایسا احتسابی عمل ہو جو مکمل طور پر خود مختار آزاد اور کسی
بھی دباؤ میں نہ ہو اگر اب بھی ان سیاسی ملزمان کا احتساب نہ کیا گیا اور
مک مکا کی سیاست سے دوچار کیا گیا تو وطن عزیز پاکستان میں افواج پاکستان
کی تمام تر امن و سلامتی کی کوششیں رائیگاں چلی جائیں گی اور ملک پاش پاش
بھی ہوسکتا ہے جس میں انارکی بھی پھیل سکتی ہے ، ان کے شفاف احتسابی عمل سے
لوٹی ہوئی دولت قومی خذانے میں آنے سے نہ صرف مہنگائی کا خاتمہ ہوگا بلکہ
ملک بہت تیزی کیساتھ ترقی کی جانب گامزن بھی ہوگا۔عوامی حلقوں کا یہ بھی
کہنا ہے کہ ان تمام کرپٹ سیاسی لیڈران اوررہنماؤں کو ملک سے فرار نہ ہونے
دیا جائے اور جو ملک سے فرار ہیں انہیں انٹر پول کے ذریعے پاکستان لاکر
پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا جائے تاکہ ان کی موت عبرت کا نشان بن سکے۔عوام
کا یہ بھی کہا ہے کہ یہ وہ وقت ہے جب صرف اور صرف عدلیہ اور افواج اپنا
کردار ادا کرسکتے ہیں کیونکہ اب تک نہ ایوان میں فیصلے درست ہورہے ہیں اور
نہ سڑکوں کے دھرنے سے کچھ ہو رہا ہے ہر کوئی کسی نہ کسی نقطے سے سیاسی
رہنما پر الزام ہے اسی لیئے پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ عدلیہ، میڈیا اور
افواج کے ہاتھوں ہے۔اب انہیں تینوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شفاف،
فلاحی سیاست کو اجاگر کرنا ہے تاکہ حقیقی معنوں میں جمہوری فلاحی ریاست کا
قیام عمل میں آئے۔۔۔اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے،پاکستان زنادہ باد،
پاکستان پائندہ باد ۔۔۔۔!! |