مزید لیکس؛
پانامہ لیکس کا معاملہ طول پکڑتا جارہا ہے، وزیراعظم میاں نواز شریف کے
خاندان کا مسئلہ ابھی اسمبلی میں لانے کی تیاریاں کی جارہی تھیں، ابھی سات
سوالوں کا پرچہ تیار کیا جارہاتھا، ابھی زورِ خطابت اور اپنی سی دلیلیں
تلاش کرکے میڈیا میں جگہ بنائی جارہی تھی کہ اپوزیشن کے بارے میں بھی
پانامہ لیکس کی خبریں برآمد ہونے لگیں۔ ایک طرف پانامہ لیکس سے آف شور
کمپنیوں کے مالکان کی دوسری قسط جاری ہوئی ، جس میں اپوزیشن کے بھی کئی لوگ
منظر پر آگئے، دوسری طرف تحریک انصاف کے قائد اور حکومت کے سب سے سرگرم
مخالف عمران خان نے خود اپنی ایک آف شور کمپنی کا اعتراف فرمادیا، یہ کمپنی
33برس پرانی ہے، انہوں نے اس کے قیام، فلیٹ کی خریداری اور اس کو فروخت
کرکے پاکستان میں سرمایہ لانے کی بات کرکے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی
کوشش کی ہے، مگر معاملہ تحقیق طلب ہے، کہ آخر دال میں کالا تو ضرور ہے۔
اُدھر گجرات کے چوہدریوں کا نام بھی بسلسلہ مونس الہٰی اس فہرست میں شامل
ہے، اور تو اور ڈاکٹر قدیر خان کے خاندان کا نام بھی لیا جارہاہے۔ اگرچہ
بعض رشتہ داروں سے کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا ، مگر معاشرے کو مطمئن کرنا
آسان کام نہیں۔
اب جبکہ اکثر لوگ پانامہ لیکس میں ملوث دکھائی دیتے ہیں، جو بچ رہے ہیں نہ
جانے اگلی اقساط میں منظر عام پر آجائیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پانامہ لیکس سے
بچ نکلنے والے بہت سے لوگ ایسے بھی ہوں، جو اور بہت سے معاملات میں کرپشن
میں ملوث ہوں۔ کیونکہ کرپشن صرف پانامہ لیکس کے ذریعے ہی نہیں کی گئی، اس
کارِ خیر کی انجام دہی کے اور بھی ہزار راستے ہیں۔ جن حضرات کو پانامہ لیکس
کے ذریعے شہرت ِ دوام حاصل نہیں ہوسکی، وہ بھی دل چھوٹانہ کریں، کوشش کریں
پاکستان میں بھی اس قسم کے مواقع موجود ہیں، بلوچستان کے سیکریٹری خزانہ کی
مثال بھی ان کے سامنے ہے۔ پانامہ لیکس کا انجام یا نتیجہ جو بھی ہو، مگر یہ
حقیقت ہے کہ عوام کی اپنے سیاسی قائدین سے محبت میں کمی کا باعث نہیں بن
سکتی۔
جائزہ؛
وزیراعظم میاں نواز شریف ڈیرہ اسماعیل خان میں جلسہ سے خطاب کریں گے، جلسہ
کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے مولانا فضل الرحمن خود اپنے آبائی شہر
پہنچ گئے۔ اب دراصل محبتوں کا عروج ہے، یہی موقع ہے کہ ایک دوسرے سے فائدہ
حاصل کیا جائے۔ مولانا کو اتحادی ہونے کے باوجود جس طرح ترسا ترسا کر
وزارتیں دی گئی تھیں، اسی طرح ان کو ملاقاتوں کا وقت بھی اسی رفتار سے ملتا
رہا۔ مگر اب چونکہ پانامہ لیکس کی سختی سر پر سوار ہے، جس کے لئے وزیراعظم
کو اپنے ساتھیوں اور اتحادیوں کو قریب کرنے کی ضرورت ہے، لہٰذا ایک خاص
منصوبہ بندی پر عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ دونوں حضرات ایک دوسرے کی مجبوری
سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ مولانا اپنے
خطاب میں کیا لب ولہجہ اپناتے ہیں، بنوں جلسے جیسا خطاب کرتے ہیں یا اپنے
آبائی علاقے کے لئے کوئی اور رخ ظاہر کرتے ہیں، زورِ خطابت عمران خان کی
سیاست کے خلاف صرف کرتے ہیں، یا ساتھ میں میاں صاحب کی تعریفوں کے پُل بھی
باندھتے ہیں، یا پھر اپنی سیاست اور پارٹی کے بارے میں بھی کچھ وضاحت
فرمائیں گے؟
خوش بخت مسافر؛
ملتان ائیر پورٹ پر ایک مسافر کو گرفتار کرلیا گیا، وہ مدینہ منورہ جارہا
تھا۔ اس نے نہ جانے کتنے ارمانوں سے یہ سفر اختیار کیا تھا۔ گرفتاری کی وجہ
یہ ہوئی کہ اس کے سامان میں سے 420گرام ہیروئن برآمد ہوگئی۔ مسافر کا نام
اﷲ دتہ بتایا گیا ہے، کوئی بعید نہیں کہ اسے بیوقوف بنا کر اس سے یہ کام
لیا جارہا ہو، یا وہ خود ہی سادگی کے بھیس میں یہ خدمت سرانجام دے رہا ہو۔
جیسا بھی ہوا، وہ خوش قسمت ہی قرار پائے گا کہ پاکستان میں پکڑا گیا، یہاں
کسٹم یا پولیس وغیرہ والے کچھ ہیروئن آپس میں تقسیم کر لیں گے، ممکن ہے
ملزم کو کچھ سزا بھی ہو جائے، مگر وہ مسافر خوش قسمت ہی قرار پائے گا
کیونکہ یہاں تو کبھی نہ کبھی چھُوٹ جائے گا، سعودیہ میں تو سر قلم کرواتے
ہی بنتی۔ |