اس پیار کو کیا نام دوں ( قسط نمبر ٢)

’’ ویلڈن مسٹر دانش۔۔ آپ کی بیٹی بہت ذہین ہے۔ پوری کلاس میں صرف مہک کی پرفارمنس ہی سو فیصد رہی ہے۔‘‘پرنسپل صاحبہ ہاتھ میں کارڈ لئے دانش سے گفتگو میں مصروف تھیں
’’شکریہ میڈم۔۔ مگر اس کا کریڈٹ تو آپ کے سکول اور ٹیچرز کو جاتا ہے جنہوں نے اتنی محنت سے بچوں کو پڑھایا۔‘‘دانش نے مہک کے بالوں کو پیار سے سہلاتے ہوئے کہا تھا۔
’’ ویسے اگر برا نہ مانیں تو ایک بات پوچھ سکتی ہوں؟‘‘پرنسپل صاحبہ نے جھجکتے ہوئے پوچھا تھا
’’ جی پوچھیے۔۔‘‘ شائد وہ جان چکا تھا کہ وہ کیا پوچھنے والی ہیں۔ اسی لئے اس کے چہرے پر سنجیدگی چھا گئی
’’مہک کی والدہ کبھی میٹینگ میں نہیں آئیں ، کہیں۔۔‘‘ وہ بات کرتے کرتے رک گئیں
’’نہیں میڈم۔۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے ، وہ دراصل گھر کے کاموں میں مصروف تھیں ، بس اس لئے نہیں آسکیں۔‘‘ مصنوعی مسکراہٹ سے جواب دیا
’’اوہ۔۔۔ آئی ۔۔ سی۔۔‘‘ان کو تو جھوٹ بول کر مطمئن کروا دیا مگر دنیا کو کیسے کروائے گا خاموش؟ اور آخر کب تک؟کبھی نہ کبھی تو اسے ماضی سے نکل کر حال میں آنا ہی پڑے گا۔ انسان کو ماضی میں جینے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا آخر ایک نہ ایک دن تو وہ یہ سمجھ پائے گی لیکن کہیں اس دن کے آنے سے پہلے بہت دیر نہ ہوجائے۔
’’ پاپا۔۔ اب ہم کہاں جا رہے ہیں؟‘‘آئس کریم کھاتے ہوئے مہک نے سوال کیا تھا
’’ ماما کو لینے۔۔۔!!‘‘ سنجیدگی اس کے چہرے سے واضح تھی لیکن وہ اپنے دل کی بے چینی ننھی سی جان پر وا نہیں کرنا چاہتا تھا۔
’’ ماما کو لینے؟ آپ کو پتا تھا کہ ماما کہاں گئی؟‘‘مہک نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا
’’ جی میری جان ۔۔۔‘‘ اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کو چہرے پر لاتے ہوئے جواب دیا
’’ تو پھر آپ پہلے کیوں نہیں لے کر مجھے وہاں۔۔ میں ماما کو بھی ساتھ لے کر سکول جاتی۔۔۔‘‘اس نے غصے کا اظہار کیا
’’اوہ۔۔۔ یہ تو میں بھول ہی گیا۔۔۔ چلو کوئی بات نہیں نیکسٹ ٹائم۔۔‘‘اس کے پھولے ہوئے منہ کو اس نے پیار سے چھوا مگر اس کا غصہ ٹھیک نہ ہوا۔ کار کو قبرستان کے مین گیٹ کے ساتھ پارک کیا۔مہک کو وہی رکنے کا کہا اور خود کار سے اتر کرقبرستان کے اندر داخل ہوا۔ دور سے ہی اس کا وجود صاف نظر آرہا تھا۔وہ اس کی قبر کے ساتھ ایسے بیٹھی تھی جیسے اس سے محو گفتگو ہو۔ اور وہ بھی اس کی باتیں سن رہا ہو۔ ڈھیلے قدموں کے ساتھ وہ اس کے پاس گیا۔اپنا داہنا ہاتھ اس کے شانے پر رکھاتو اس نے پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا
’’وقت چاہے کتنے ہی پنے کیوں نہ بدل لے لیکن محبت کبھی نہیں مرتی۔جانے والے چلے جاتے ہیں مگر یادوں کا انبار چھوڑ جاتے ہیں اور پیچھے رہ جانے والے انہی یادوں کے سہارے اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔۔‘‘آنکھوں سے اشک رواں تھے
’’لیکن زندگی جمود کانام نہیں ہے کرن۔۔۔‘‘
’’ جمود۔۔؟؟‘‘ وہ طنزیہ مسکرائی
’’صحیح کہا تم نے۔ زندگی جمود کا نام نہیں مگر محبت چھیننے کا بھی نام نہیں۔۔‘‘ وہ یہ کہہ کر اٹھی اور بنا اس کی طرف دیکھے باہر کی طرف چل دی اور وہ وہیں کھڑا دانیال کی قبر کو دیکھتا رہا
’’ دیکھ رہے ہو دانیال۔۔تمہارے ایک وعدے نے ہماری زندگی کو کتنی گرہوں میں باندھ دیا ہے۔کاش تم اس وقت مجھ سے وہ وعدہ نہ لیتے تو شائد آج کرن اس تکلیف سے نہ گزرتی، جس سے وہ اب گزر رہی ہے۔ میرا چہرہ اسے کبھی ماضی سے نکلنے نہیں دیتا۔میری آواز میں آج بھی اسے فریب نظر آتا ہے۔میں اس کے پاس ہوتے ہوئے بھی بہ دور ہوں۔کاش تم وہ وعدہ نہ لیتے مجھ سے۔ کاش۔۔ تو کب کا میں کرن کو اس اذیت بھری زندگی سے آزاد کر دیتا۔۔‘‘ اس کا دل بھر آیا تھا مگر جانے کا وقت ہوچکا تھا۔وہ الٹے قدم لوٹ آیا۔ کار کو ڈرائیو کرتے ہوئے اس نے ایک بار بھی دانش کی طرف نہیں دیکھا۔ ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے بھی دو اجنبی کی طرح تھے۔دو کنارے تھے۔ جو شائد اب ساتھ ساتھ چلتے تو رہیں گے مگر کبھی ایک نہ ہو پائے گیں
’’ دانیال۔۔‘‘غیر دانستہ طور پر کرن کے منہ سے اس کا نام نکلا تو وہ چونک گیا اور حیرانی سے کرن کی طرف دیکھا
’’ کار روکو۔۔‘‘ اس نے فوراً بریک لگائی تو کرن نے اترنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگایا۔ وہ دوڑتے ہوئے فٹ پاتھ کی طرف بھاگی۔دانش بھی اتر کر اس کے پیچھے ہو لیا
’’ کرن۔۔ کیا ہوا؟‘‘ اس نے پوچھا مگر وہ کچھ نہ بولی، بس ادھر ادھر کسی کو تلاش کرتی رہی
’’کرن؟ کیا ہوا‘‘ اس نے گھبرا کر وہی سوال کیا
’’ دانش۔۔میں نے ابھی ابھی دانیال کو دیکھا۔۔‘‘ اس نے تین سالوں میں کبھی دانش سے ایسے لہجے میں بات نہیں کی تھی۔تین سالوں میں پہلی بار اس نے دانش کو چھوا تھا۔وہ اس کو کالر سے پکڑ کر جھنجوڑ رہی تھی
’’دانیال؟‘‘ وہ حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا
’’ہاں دانش۔۔۔ میں نے ابھی ابھی دانیال کو دیکھا۔۔ ابھی سی جگہ پر۔۔‘‘وہ گلو گیر لہجے میں بولی تھی۔
’’ کرن۔۔ یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟‘‘ وہ اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگا
’’ہاں دانش۔۔ میں نے سچ مچ اسے دیکھا تھا۔ وہ ابھی یہیں پر تھا۔ اسی جگہ پر۔۔‘‘ اس نے ایک ہاتھ سے اس کے کالر کو پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے اس جگہ کی طرف اشارہ کرنے لگی جہاں اس نے اسے دیکھا تھا
’’کرن۔۔ وہ تمہارا وہم ہوگا۔۔‘‘اس نے ایک بار پھر کہا
’’نہیں۔۔ میرا وہم نہیں تھا ، وہ دانیال ہی تھا۔۔ میرا دانیال۔۔‘‘‘وہ بچوں کی طرح اسے یقین دلانے کی کوشش کر رہی تھی
’’کرن۔۔ تم نے کسی اور کو دیکھا ہوگا۔ وہ دانیال نہیں ہو سکتا۔۔‘‘اس نے اپنے ہاتھوں میں اس کا چہرہ سموتے ہوئے کہا مگر ا س نے اس کے ہاتھوں کو جھٹک دیا
’’ میں نے کہا ناں۔۔ کہ وہ دانیال ہی تھا۔۔ میری نظریں دھوکہ نہیں کھا سکتیں۔۔‘‘ وہ اپنی بات پر قائم تھی
’’ کرن۔۔ وہ دانیال نہیں ہو سکتا۔۔میں نے کہاناں۔۔ اب چلو یہاں سے۔۔‘‘اس کے انداز میں سختی تھی
’’ مگر کیوں؟‘‘وہ جھلا کر بولی
’’کیونکہ وہ مر چکا ہے۔۔‘‘پہلی بار اس نے گھورتے ہوئے کرن کو دیکھا۔وہ ہمیشہ سے دانیال کو کرن کی محبت سمجھتا تھا لیکن آج جب وہ دانیال کا نام لے رہی تھی تو اس کے وجود میں ایک عجیب سی ہلچل مچ گئی۔وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر غصہ ہوا تھا
’’وہ مر چکا ہے۔۔ آئی بات سمجھ میں۔۔ اب چلو یہاں سے۔۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی وہاں سے لے گیا۔ وہ چپ چاپ اس کے ساتھ چلنے پر مجبور تھی او ر کوئی راستہ بھی نہیں تھامگر دل کہہ رہا تھا کہ وہ دانیال ہی تھا۔ اس کا دانیال مگر اتنی جلدی کہاں چلا گیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ مہک نے دونوں کے انداز بدلے ہوئے دیکھے تو گھبرا گئی۔کار میں ایک سناٹا رہا۔وہ سوالیہ انداز میں دانش کی طرف دیکھ رہی تھی جیسے اس سے پوچھ رہی ہو کہ تم میری بات کا یقین کیوں نہیں کر رہے۔وہ بھی خاموش انداز میں اس کی باتوں کا جواب دے رہا تھا کہ مرے ہوئے لوگ کبھی نہیں لوٹتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اسی پیار کو کیا نام دوں؟‘‘ میں پیش آنے والے واقعات کو جاننے کے لئے انتظار کیجئے اگلی قسط کا

Muhammad Shoaib
About the Author: Muhammad Shoaib Read More Articles by Muhammad Shoaib: 64 Articles with 106974 views I'm a student of Software Engineering but i also like to write something new. You can give me your precious feedback at my fb page www.facebook.com/Mu.. View More