دیوبندی بریلوی ہی نہیں، تمام مسلمان متحد ہوں!

مئی (2016ء)کے دوسرے ہفتے کی ابتدا میں ایک ایسی حیرت انگیز مگر خوش گوار خبر شایع ہوئی، جسے پڑھ سن کر واقعی اکثر مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔خبر یہ تھی کہ مولانا توقیر رضا بریلوی(نبیرۂ مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی) نے ایک سفر کے دوران دارالعلوم دیوبند و دارالعلوم دیوبند وقف کے اربابِ اہتمام سے ملاقاتیں کیں اور حالاتِ حاضرہ کے سنگین و نازک مسائل پر تبادلۂ خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی پوری دنیا کے لیے ایک لعنت ہے اورکوئی بھی مسلمان آتنک وادی ہرگزنہیں ہوسکتا۔اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف ایک منظم سازش چل رہی ہے اور ملک میں آر،ایس،ایس کی ذہنیت والے افسران علماوزعماے قوم کو آتنکی گردان کر مسلمان اور اسلام کو بدنام کرنا چاہتے ہیں! انھوں نے واضح کیا کہ دیوبند حاضری کا مقصد صرف یہ ہے کہ عقائد میں اختلاف کے باوجود ہم سارے مسلمان سیکولرزم اور جمہوریت کی حفاظت کریں!عقائد میں سمجھوتا نا کرکے بھی ہم ملک وملت کے لیے سارے مسلمان بلاتفریقِ مسلک کل بھی ایک تھے آج بھی ایک ہیں! بریلوی یادیوبندی کے نام پرہم آپس میں لڑکر دوسروں کو ہمارے اتحاد میں سیندھ لگانے نہیں دیں گے!انھوں نے یہ بھی کہا کہ مسلم نوجوانوں کوحکومتی اہل کار اور تفتیشی ایجنسیاں جس طرح بغیر کسی ثبوت کے پابندِ سلاسل کررہی ہیں،ہم سب اس کے خلاف ہمہ وقت سینہ سپرہیں،شاکر اور اس جیسے جتنے بھی بے گناہ گرفتار کیے گئے ہیں وہ سب میرے اور ہمارے بچّے ہیں اور میں اس یقین کے ساتھ ہی دیوبند شاکر کی والدہ سے ملنے آیا ہوں کہ شاکر بالکل بے قصور ہے،اسے جلد ازجلد رہا کیا جائے۔ اس موقع پر انھوں نے مولانا ارشد مدنی کو بھی ان کی کارکردگی پر مبارک باد پیش کی۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے اس تاریخی ملاقات پر مولانا توقیر رضا کاشکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ فرضی طور پر جس طرح سے ہمارے بچوں کو گرفتار کرکے زدو کوب کیا جارہا ہے ہم دیوبند و بریلوی مسلک کے نمائندے،ایک آواز میں حکومتِ ہندسے مطالبہ کرتے ہیں کہ انصاف کے اس دوہرے رویّے کو بندکرکے اپنے بے مہار افسران پرقدغن لگائے۔بعدہٗ مولانا توقیر رضا آستانۂ قاسمی تشریف لے گئے،جہاں دارالعلوم دیوبند وقف کے مہتمم مولانا محمد سفیان قاسمی اور ان کے صاحب زادے مولانامحمد شکیب قاسمی نے ان کاپُرتپاک استقبال کیا اور مولانا توقیر رضا صاحب نے مولانا محمد سالم صاحب قاسمی(صدر مہتمم دارالعلوم دیوبند وقف و صاحب زادہ حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ) سے دعا اور سرپرستی کی درخواست کی۔

کُل ملا کر اس ملاقات کا ملخّص یہ سمجھنا چاہیے کہ مولانا توقیر رضا کی دیوبند آمد ، ملی مسائل پردیوبندی اور بریلوی علماکے اتحاد کی غرض سے تھی تاکہ ملک کے دستور اور نظامِ جمہوریت کی حفاظت ہو سکے اور ملت کے نام پر عقائد و مسلک کے اختلاف کے باوجود دیوبندی و بریلوی علما ایک ساتھ کھڑے رہیں۔ اس طرح تقریباً ڈیڑھ صدی میں یہ اپنی نوعیت کاعظیم اور مثبت اقدام ہے جس کی جتنی تعریف و تحسین کی جائے کم ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس خوش گوار خبر پر جس طرح وسیع ظرفی کا مظاہر کرتے ہوئے اکثر لوگوں نے تعریف و تحسین کی اور تقریباً تمام اردو اخبارات میں اس خبر کو شہ سرخی میں شایع کیا گیا اور اس کے بعد صحافیوں میں درجن بھر سے زائد مضامین اس اقدام کی تحسین میں شایع ہوئے، اسی کے ساتھ بعض لوگ ایسے بھی نکل آئے جو اپنی پرانی خُو نہیں چھوڑنا چاہتے، گویا انھیں ملک و ملت کے سنگین مسائل سے کوئی لینا دینا ہے نہ فکر۔یہ المیہ ہے کہ ایسے خوش گوار ماحول میں ان کا دست و بازو بننے کے بہ جائے مولانا توقیر رضا کے متعلق اعلیٰ حضرت درگاہ کے صدر مولانا سبحان رضا خان نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ اگر توقیر رضا خان اپنی اس حرکت پر اعلانِ توبہ نہیں کرتے ہیں تو خاندانِ اعلیٰ حضرت اور اہلِ سنت سے جڑے لوگ ان کا بائیکاٹ کریں گے۔یہ ایک اچھی بات ہے کہ اجمیر شریف درگاہ کے سجادہ نشین نے مولانا توقیر رضا کی حمایت و ستائش کی ہے، ہم تمام اہلِ نظر سے اپیل کریں گے کہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے سچ کا ساتھ دیں اور محض جذبات میں آکر کچھ کہنے اور کرنے سے مکمل پرہیز کریں۔ نیز اس ملاقات نے جس طرح دیوبندی و بریلوی اتحاد کی کرنیں چار سو بکھیری ہیں، ہم دعا گو ہیں کہ اس کی ضیاپاشیاں چہار دانگِ عالم میں پھیلیں اور صرف دیوبندی و بریلوی ہی نہیں ملت کے لیے تمام مسالک متحد ہوں تاکہ شر پسندوں کا غرور ٹوٹے اور بے قصوروں کو ظلم و جبر سے نجات ملے۔

واضح رہنا چاہیے کہ اس ملاقات میں ہر دو فریق نے مسلکی اختلافات کو بر طرف رکھ کر ایک عظیم مقصد کے لیے متحد ہونے کی بات کہی ہے اور ضرورت بھی اسی کی ہے، اس لیے کہ اگر ایسے نازک حالات میں بھی ہاتھ کی ان انگلیوں نے مٹھی بن کر باطل کا مقابلہ نہیں کیا تو دشمن کے لیے ان انگلیوں کو توڑنا آسان رہے گا۔ یاد رکھیں ہم سب اس نبیِ رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں جنھوں نے بر بناے مصلحت و حکمت حدیبیہ میں مشرکوں سے بعض کٹھن شرطوں پر بھی صلح کی، جنھوں نے یہودیوں کے ساتھ میثاقِ مدینہ کیا۔ پھر ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ جس کسی کو اپنے نظریات سے ذرا منحرف دیکھتے ہیں، اسے پس پا کرنے کے در پے ہو جاتے ہیں، آخر وہ وقت کب آئے گا کہ ہم ایک ملت بنیں گے !یہ وقت مسلکی بنیادوں پر منتشر ہونے کا نہیں بلکہ ملی تقاضوں پر متحد ہونے کا ہے، جس کا ہر وقت دھیان رکھا جانا ضروری ہے۔ اسلام تو وہ مذہب ہے جس میں پرایوں کو گلے لگانے کی تعلیم دی گئی ہے تو کیا جو ہمارے اپنے ہیں۔۔ خواہ ان کے نظریات ہم سے مختلف ہی ہوں۔۔ہم ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہو سکتے؟ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ہم ہر ایک کو اپنے جیسے نظریات کا حامل کیوں بنانا چاہتے ہیں، کیا تمام اذہان کا ایک نقطے پر اتفاق ممکن ہے؟ کیا خدا کو یہ مقصود ہی ہوتا تو وہ ایسا نہیں کر سکتا؟ تاریخ میں ایک دو نہیں سیکڑوں واقعات اکابرین کی اعلیٰ ظرفی کے اس بات پر دال ہیں کہ کس طرح انھوں نے باوجود متعدد اختلافات کے ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر میدانوں کو سر کیا ہے۔ یہ بھی تو سوچیں کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں وہ اگر دلائل کی روشنی میں آپ کے نزدیک درست ہے تو جو دوسرا کر رہا ہے، وہ بھی تو اسے دلائل کی روشنی میں درست سمجھ کر ہی کر رہا ہے، پھر دونوں میں سے کوئی بھی اپنا موقف کیسے چھوڑ سکتا ہے؟ اس موضوع پر اس سے زیادہ عرض کرنے کا یہ موقع نہیں، سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب ہم مذہب کے اختلاف کے باوجود کسی سے انسانیت کی خاطر حسنِ سلوک و خندہ پیشانی سے پیش آنے کے لیے مامور کیے گئے ہیں تو کیا اپنے ظرف کو وسیع کرکے مسلک کے اختلافات کو باقی رکھتے ہوئے ہی سہی، اپنے دینی بھائیوں سے حسنِ سلوک نہیں کر سکتے؟ یہ وہ چند سوالات ہیں کہ اگر ان پر ٹھندے دل و دماغ سے غور کیا جائے، وہ بھی حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھتے ہوئے، تو یقین ہے کہ بہت سی مشکلیں ختم ہو جائیں گی اور کتنے ہی گلے شکوے خود بہ خود دور ہو جائیں گے، کاش کہ ایسا ہو! ٭٭

Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 347122 views (M.A., Journalist).. View More