پولیس کلچر کا کچرا
(Muhammad Nasir Iqbal Khan, Lahore)
انسان کی عزت اورعظمت اس کے اقتدارنہیں
افکاراور کردار کانتیجہ ہوتی ہے۔انسان کاحق کے حق میں انکار سرمایہ افتخار
بن جاتا ہے۔حق کیلئے ڈٹ جانایامٹ جانا حسینیت ؑ ہے ۔ایک دورمیں بدبخت فرعون
بھی سرزمین مصر پرراج کیا کرتا تھا،اقتدارتو ملعون یزید نے بھی چھین لیا
تھا،دولت نمرودکے گھر کی باندی تھی مگر یہ کردارہزاروں برس بعدبھی نفرت
اورہزیمت کی علامت ہیں۔ جس قدر طاقت فرعون جبکہ دولت نمرودکے پاس تھی ان کے
مقابلے میں ہمارے حکمرانوں کے پاس اس قدر طاقت اوردولت نہیں مگر پھر بھی ان
کے رویوں میں فرعونیت اور آمریت ہے ۔آمریت وردی نہیں غنڈہ گردی کانام ہے ،انسان
کے رویے اس کے اندرچھپی آمریت کوباہرلے آتے ہیں۔جس انسان کے اندرانسانیت
ہوگی وہ دوسروں کی عزت نہیں روندتا۔ انصاف کے تقاضوں کی پاسداری کے بغیر
کسی کوسزاسناناسمجھداری نہیں ۔ سرکاری آفیسرزاوراہلکار ریاست کے ملازم ہیں
کسی حکمران کے غلام نہیں،ان باضمیرآفیسرزاوراہلکاروں کیلئے حکومت سے زیادہ
رعایااورریاست کی اہمیت ہوتی ہے۔اگرقومی اداروں میں سے کوئی باضمیرفرد
ارباب اقتدار کے مذموم ارادوں کی راہ میں حائل ہوجائے تووہ ا س سے بدترین
انتقام لیاجاتا ہے ۔بہاؤلنگر میں ایک فرض شناس ڈی پی او شارق کمال صدیقی نے
قانون کی بالادستی قائم کرتے ہوئے ان شرپسندعناصر کی گرفتاری کاحکم دیا جو
پولیس اہلکاروں کی وردیاں پھاڑنے اوران پر تشدد کرنے میں ملوث تھے ،انہیں
کیا معلوم تھا کہ عالم دادلالیکا کے حواریوں کوقانون شکنی کا حق حاصل ہے
پاکستان کی حکمران اشرافیہ کوانکار سننے کی عادت نہیں جبکہ شارق کمال نے
دوبارانکار کیاتھاایک باراس وقت جب عالم دادلالیکا نے انہیں اپنے گرفتار
حامیوں کی رہائی کیلئے کہا تھا اوردوسراانکاراس وقت جب آئی جی پنجاب مشتاق
احمدسکھیرانے انہیں ناراض ایم این اے سے معذرت کرنے کامشورہ دیا تھا۔شارق
کمال کاانکار ان کیلئے سرمایہ افتخاربن گیا۔وہ حکمران اشرافیہ کی فسطائیت
کیخلاف مزاحمت جبکہ پولیس کی رِٹ برقراررکھنے کیلئے استقامت کامظاہرہ کرنے
پرقومی ہیروکی حیثیت سے ابھرے ہیں ۔ڈی پی اوکوہٹانا حکمرانوں کے اختیار میں
تھاانہوں نے ہٹادیا مگرانہیں ہرانا ان کے بس کی بات نہیں ۔آئی جی پنجاب
کاڈی پی او کو حکمران جماعت کے ایم این اے سے معذرت کرنے کامشورہ ان کے
منصب کے شایان شان نہیں تھا۔مشتاق احمدسکھیرا کی معذرت خواہانہ طبیعت
اورمصلحت پسندی پولیس کواس مقام پرلے آئی ہے جہاں ایک ایم این اے قانون ،
پولیس فورس اور ڈی پی اوکوبھی کچھ نہیں سمجھتا ۔اگرآج نیک نام حاجی حبیب
الرحمن کے پاس پنجاب پولیس کی کمانڈ ہوتی تووہ یقینا شارق کمال کی پشت
پرکھڑے ہوتے اوراپنے فرض شناس ڈی پی اوکوپنجاب بدرکرنے کا انتقامی فیصلہ
مستردکردیتے ۔ حاجی حبیب الرحمن کے ماتحت کام کرنے کے باوجودمشتاق
احمدسکھیرا نے ان سے کچھ نہیں سیکھا۔حاجی حبیب الرحمن نے بحیثیت آئی جی
پنجاب اپنے آفیسرزاوراہلکاروں کامورال گرنے جبکہ مشتاق احمدسکھیرا نے اٹھنے
نہیں دیا ۔
ماضی میں کہا گیا کہ میاں نوازشریف کو 1998ء میں بل کلنٹن نے ایٹمی دھماکے
کرنے سے روکنے کیلئے چھ بار فون کیاتھا اور ان کے نجی بنک اکاؤنٹ میں بڑی
رقم بھجوانے کی آفر بھی کی تھی مگر انہوں نے دباؤ کے باوجوددھماکے کئے اور
پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کاکریڈٹ اپنے نام کرلیاجبکہ یوم تکبیر کی
تقریبات میں بانی پاکستان اورایٹمی پروگرام کے بانی کانام تک نہیں لیا جاتا
۔ جووزیراعظم اپنے ایک ایم این اے کادباؤ برداشت نہیں کرسکتا وہ امریکہ
سمیت مقتدرقوتوں کادباؤکس طرح مسترد کرسکتا ہے۔جوڈی پی اوشاباش کامستحق تھا
اسے پنجاب بدرکردیا گیا اورجس ایم این اے کی سرزنش ضروری تھی اسے سیاسی
طورپرمزید طاقتوربنادیا گیا۔جس ایم این اے اورایم پی اے کے دباؤپرڈی پی
اوکوتبدیل کیا گیا یقینا ان کے ڈیروں پرجشن منایا گیا ہوگااوراب وہاں جوبھی
نیا ڈی پی اوآئے گاوہ قانون کی پاسداری سے زیادہ ان طاقتورایم این اے
اورایم پی اے کی فرمانبرداری کرے گااوردوسرے شہروں میں بھی حکمران جماعت کے
ارکان ڈی پی اوزپرحاوی ہونے کی کوشش کریں گے۔پاکستان میں آئین وقانون کی
بالادستی اورپاسداری کاحلف اٹھانے والے محض اپنی اناکی خاطر دستوراوراپنے
پارٹی منشورکی دھجیاں بکھیردیتے ہیں۔شارق کمال اپنے مزاحمتی کردار
اورآبرومندانہ انکار سے قدآورہو گئے اورانہیں اندرون ملک وبیرون ملک
جوپذیرائی ملی وہ بجاطورپراس کے مستحق ہیں ۔شارق کمال جہاں بھی جائیں گے ان
کی عزت ،شہرت اورہیبت ان کے ساتھ جائے گی جبکہ عالم دادلالیکا اب اپنے
شہرمیں آنیوالے ہرڈی پی او کے ساتھ الجھتا رہے گا ۔اب شاید کوئی فرض شناس
ڈی پی اوبہاؤلنگرجاناپسند نہ کرے کیونکہ عزت نفس ہرکسی کوعزیز ہے۔حکمرانوں
کوقانون نہیں بلکہ ان کے فرمان کی پاسداری اوران سے وفاداری کرنیوالے ارکان
اسمبلی اورآفیسرپسند ہیں ۔
جس وقت تک پولیس آفیسرز کے سیاسی جبکہ انتظامی کی بجائے انتقامی بنیادوں پر
تبادلے ہوتے رہیں گے اس وقت تک پولیس کلچر کی تبدیلی کاخواب شرمندہ تعبیر
نہیں ہوگا ۔اگرپولیس کلچر بدلنا ہے توحکمران اشرافیہ اپنامائنڈ سیٹ
اورسیاسی کلچر بدلے۔پولیس کلچرکوکچرے کاڈھیربنانیوالے کوئی اورنہیں پاکستان
کے حکمران ہیں ،انہوں نے ہمیشہ عوام کویرغمال بنانے کیلئے پولیس کواستعمال
کیا۔پولیس اہلکاراپنے ہاتھوں میں ڈنڈاضروراٹھاتے ہیں مگروہ حکمرانوں کے حکم
پر چلتایعنی عوام کی پیٹھ پربرستا ہے ۔پاکستان میں زراورزورکے مقابل ہرکسی
کاضمیر کھڑا نہیں ہوتا ۔ضمیرفروش عناصر حکمرانوں کے محبوب جبکہ آفتاب احمد
چیمہ، محمدعلی نیکوکارا ،ملک کامران یوسف،شعیب خرم جانبازاورشارق کمال سے
سرفروش آفیسر ان کیلئے ناکارہ ہیں۔ آفتاب احمدچیمہ نے اپنے اصولوں
پرسمجھوتہ نہیں کیا اورآئین وقانون کے ہوتے ہوئے حکمرانوں کی اطاعت کرنے سے
انکارکردیاتھاجس پروہ اپنے عہدے سے ہاتھ دھوبیٹھے۔اسلام آباد کے سابق
باضمیراورانسان دوست ایس ایس پی محمدعلی نیکوکارا نے دھرنے کے دوران
حکمرانوں کی خوشی اورمرضی ومنشاء کے مطابق پرامن مظاہرین پرتشددکرنے سے صاف
انکار کردیا تھا جس پر ایک نہام نہاد انکوائری کے بعدانہیں برطرف کردیا
گیااوروہ آج بھی انصاف کے منتظر جبکہ ا پنے حق کی بازیابی کیلئے پرامید
ہیں۔ایس ایس پی ملک کامران یوسف ڈی پی اوننکانہ اوراپنے منصب سے انصاف
کررہے تھے تووہاں ایک متاثرہ خاتون نے خودسوزی کرلی جس پرانہیں سنے بغیر
ہٹادیا گیامگرلاہورسمیت پنجاب بھرروزانہ جوبیسیوں خودسوزیاں اورخودکشیاں
ہوتی ہیں ان کیلئے حکومت کے کسی عہدیدار سے بازپرس نہیں کی جاتی جوووٹ
مانگتے وقت امیدیں اورخواب بیچتے ہیں ۔
حکمرانوں کازورصرف پولیس آفیسرزاوراہلکاروں پرکیوں چلتا ہے ۔شعیب خرم
جانباز نے بحیثیت ایس پی صدر گجرانوالہ میں خرم دستگیر خان کے حامیوں کو ان
کے وفاقی وزیر بننے کی خوشی میں اسلحہ لہرانے اورہوائی فائرنگ کرنے
پرگرفتارکیا توانہیں اس قانون شکنی کے ارتکاب پرفوری ٹرانسفر کردیا گیا
۔جعلی ڈگریوں والے ایم این اے ،ایم پی اے بن جاتے ہیں مگر جعلی ڈگری والے
ڈی سی اویاڈی پی اونہیں بن سکتے۔سیاسی وانتخابی میدان میں جھرلوچلتا ہے مگر
مقابلے کے امتحان میں جھرلو نہیں چلتا ۔ آفیسرقانون کی رِٹ قائم جبکہ
حکمران جماعت کے حامیوں کی قانون شکنی پران کیخلاف قانونی کاروائی کریں یا
ان کے شہر یاسرکل میں اگرکوئی افسوسناک واقعہ پیش آجائے توبھی اس صورت میں
انہیں معطل یاتبدیل کردیا جاتا ہے جبکہ وہاں کے منتخب نمائندوں کا کوئی
محاسبہ تک نہیں کرتا۔کیا جس کو ووٹ اورترقیاتی منصوبوں کے نام پرنوٹ ملتے
ہیں اس کا شہرمیں امن وامان برقراررکھنے اورشہریوں کوانصاف کی فراہمی کے
سلسلہ میں کوئی فرض نہیں بنتا ۔ پاکستان کی عدلیہ آزاد ہوگئی توپھرانصاف
کیوں یرغمال ہے ،اس ملک میں ایک شراب کی بوتل پرسوموٹو ایکشن لیا گیا
مگرہمارے منصف آفتاب احمدچیمہ ،شعیب خرم جانباز،ملک کامران یوسف، محمدعلی
نیکوکارا اورشارق کمال کے ساتھ پیش آنیوالے واقعات پرکیوں خامو ش ہیں
۔قانون شکنی یاکرپشن کرنے کی پاداش میں کسی ڈی پی اوکوتبدیل کیاجائے توبات
سمجھ آتی ہے مگرقانون شکنی روکنے پرتبادلے ریاستی نظام پرایک بڑا سوالیہ
نشان ہیں۔پاکستان کاسیاسی کلچر اورحکمران اشرافیہ کامائنڈ سیٹ پاکستان کے
قومی بحرانوں اوربرائیوں کی روٹ کاز ہے ۔ کچے میں چھوٹوگینگ کے ساتھ مقابلے
میں بدترین ناکامی اورپولیس فورس کی بدنامی کے باوجود آئی جی پنجاب کوتبدیل
کیا گیا اورنہ ان سے بازپرس کی گئی ۔کچھ نااہل آفیسرز کاوجودان کے منصب
پربوجھ بن جاتاہے جبکہ کچھ کیپٹن (ر)محمدامین وینس اورشارق کمال سے
باوفااورباصفا آفیسرز اپنے عہداورعہدے کی آبرو بن جاتے ہیں۔ لاہور کے سی سی
پی اوکیپٹن (ر)محمدامین وینس بھی ان میں سے ایک ہیں جو اپنے منصب سے
پوراپوراانصاف جبکہ اپنے وعدے وفا کرتے ہیں ،میں جب بھی پولیس فورس کی گندی
مچھلیوں کاگنددیکھتا ہوں توکالی وردی میں اجلے دامن والے کیپٹن (ر)محمدامین
وینس کاروشن چہرہ میری نگاہوں میں گھوم جاتا ہے اورمیں پولیس فورس کے
مستقبل سے پرامید ہوجاتا ہوں۔انتھک ایڈمن آفیسرز کی مجموعی کارکردگی کے سبب
ان کی اہمیت مان لی گئی ہے،اب عنقریب حافظ آباد کے تھانوں میں بھی ایڈمن
آفیسرزتھانہ کلچر کی تبدیلی کیلئے اپنا مفید کرداراداکریں گے اوراس کاکریڈٹ
کیپٹن (ر)محمدامین وینس کوجائے گا ۔
مجرموں کی گولیاں اورسیاسی مجرموں کی گالیاں پولیس آفیسرزاوراہلکاروں
کامقدر کیوں ہیں ۔یہ لوگ ہروقت جان ہتھیلی پر اٹھائے سماج دشمن عناصراورشدت
پسنددرندوں کا مردانہ وارمقابلہ کرتے ہیں مگرپھر بھی ارباب اقتدار،اہل
سیاست اوراہل صحافت کے ہاتھوں ان کی عزت نفس محفوظ نہیں۔پولیس کے لوگ کوہ
قاف سے نہیں آئے یہ ہمارے معاشرے کاحصہ اورہمارے اپنے ہیں جہاں پورامعاشرہ
کرپشن کے جوہڑمیں ڈوبا ہو وہاں پولیس اہلکاروں کادامن کس طرح پاک صاف رہ
سکتاہے۔پولیس سمیت سرکاری اداروں میں بدعنوانی اوربدانتظامی کے ڈانڈے عوام
سے جاملتے ہیں،جس دن عوام نے میرٹ اورانصاف کادامن تھام لیا اس دن پولیس
سمیت کسی ادارے میں ایک دمڑی کی بدعنوانی نہیں ہوگی ۔مظفرآبادمیں ایس ایس
پی کے سیاسی تبادلے کیخلاف وہاں کے ایس ایچ اوز کام چھوڑکر حکومت
کوپسپاہونے اوراپنا آمرانہ فیصلہ تبدیل کرنے پرمجبورکردیاتھا۔مجھے ڈر ہے کل
بہاؤلنگر سمیت پنجاب کے کسی شہر میں یہ پریکٹس شروع نہ ہوجائے ۔کاش
بہاؤلنگر کے عوام ڈی پی اوکی بجائے عالم دادلالیکااورشوکت لالیکا کووہاں سے
رخصت کرتے توایک تاریخ رقم ہوتی اوروی آئی پی کلچر کاکچرابن جاتا ۔حکمران
اورسیاستدان جس طرح پولیس اورجیل پولیس سمیت مختلف ریاستی اداروں کے ساتھ
زراورزورآزمائی کرتے ہیں،وہ یہ سب کچھ کسی کورکمانڈرتودرکنار کسی کرنل کے
ساتھ کرنے کاتصور بھی نہیں کرسکتے لہٰذاء فوج کی طرح دوسری سکیورٹی فورسز
کوبھی سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کی اشدضرورت ہے ۔
|
|