گرتی عمارتوں کا روزگار

عموما کسی بھی عمارت کی بنیاد سے اس کی تکمیل کے اختتام تک روزگار کے مواقع ہوا کرتے ہیں ، محنت کش اس عمارت کو بنانے کیلئے دن بھر کام کرتے ہیں اور اگر عمارت کو بنائے جانے کی مالکان کو جلد ہوتو شب میں بھی کام کو رواں رکھا جاتا ہے۔ دن او ررات میں دوشفٹوں کے ذریعے عمارت جلد پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ جس کے بعد اس عمارت کے مالکان اپنے کاروباری یا رہائشی مقاصد کیلئے اس کا استعمال کرتے ہیں جبکہ اس عمارت کی تکمیل میں حصہ لینے والے مختلف مزدور ایک نئے منصوبے کیلئے کام لینے والوں کی آوازکا انتظار کرتے ہیں۔ اس وقت تک شہر قائد کی مختلف شاہراہوں ، چورنگیوں سمیت دیگر مقامات پر بیٹھ کر اپنے دن بھر کے روز گار لگنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔

دفاتر ، فلیٹس، کمپنی و دیگر اعراض کیلئے عمارت بنانے کیلئے روزگار فراہم کیا جاتا ہے ، تاہم پرانی عمارت کو گرا کر نئی عمارت بنانے کیلئے ، نئے انداز میں تزئین و آرائش کیلئے کم وقت کے ایک منصوبے پر بھی کام کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں گراتی عمارتوں کو گرانے کے مرحلے پر روز گار کے متعدد مواقع فراہم کئے جاتے ہیں ۔ دیہاڑی کے حصول کیلئے منتظر مزدوروں میں اب ایسے بھی مزدور بھی پایء جاتے ہیں جو کہ پرانی عمارت کو گرانے اور نئی عمارت کیلئے زمین بالکل صحیح حالت میں لے کر آتے ہیں۔ یہ کام عمارت بنانے کے کام سے قدرے مختلف ہونے کے ساتھ خطرات سے بھر اہوتا ہے۔ کسی بھی حصے کو گراتے وقت ذرا سی بے احتیاطی کے سبب مزدور ہسپتال تک پہنچ جاتے ہیں ۔ جس کے منفی اثرات اس مریض کے اہل خانہ پر مرتب ہوتے ہیں ۔

ایسی ہی عمارتیں گرانے اور ان کی جگہ نئی عمارت کیلئے موضوں جگہ فراہم کرنے والے ٹھیکیدار شیر خان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی بنگلہ ، فلیٹس، یا کسی بھی طرز کی اور عمارت گرانے کیلئے اس عمارت کے مالک سے براہ راست بات ہوتی ہے اور سارے معاملات کو ایک ٹھیکے کی صورت میں طے کیا جاتا ہے۔ جس کے تحریری معاہدے کے بعد کام کا آغاز کیا جاتا ہے اور وقت مقررہ پر مالکان کو ان کی مرضی کے مطابق جگہ فراہم کر دی جاتی ہے۔ شیر حان کے ایک اور ساتھی منصور عباس نے مزید بتا یا کہ عمارت گرانے کیلئے رقبے اور عمارت کی ساخت کو لازمی دیکھا جاتا ہے ، اس عمل کے بعد رقم کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ان کا کہا کہ اس نوعیت کے کام کئی برسوں سے وہ سرانجام دے رہے ہیں ، لہذا کام کے آغاز سے اختتام تک ان کے پاس متعدد پیشہ ور افراد موجود ہیں جو کہ عمارتوں کو گرانے کا فن بہترین انداز میں جانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ گل اکبر صاحب نے بتایا کہ حال ہی میں گلشن چورنگی کے قریب واقع کے ڈی اے مارکیٹ میں ایک بنگلے کو گرا کر اسے کاروباری مقاصد کیلئے استعمال کرنے کیلئے ٹھیکہ دیا گیا ۔ چار سوگز پر دومنزلہ عمارت 400گز پر بنی ہوئی تھی ۔اس کو جس پارٹی کے خریدا تھا ان سے ہمارا معاہدہ ہوا اور یہ طے پا یا کہ بنگلے کو دس روز میں گراکر، اور ملبہ جس میں لوہا و فرنیچر بھی شامل ہوگا اسے اٹھوا کر نئے بنگلے کی تعمیر کیلئے تیار کر لیا جائیگا۔

شیرخان نے بتایا کہ اس طرح کے ٹھیکے میں فریق متعدد ہوتے ہیں ، عمارت کو گرانے ، اس میں موجود لوہا نکالنے ، راڈ و سلاخوں کو الگ کرنے اور انہیں دوبارہ استعمال کے قابل بنانے ، بجلی کی تاریں نکالنے ، پانی کی ٹنکی جو کہ زیرزمین ہوتی ہے اسے رہنے دینے یا اسے بھی صاف کر کے نئی عمارت کے قابل بنانے سمیت ایسے کئی اور چھوٹے چھوٹے کام ہوتے ہیں جن کو ان ہی کاموں کے کرنے والوں کو ٹھیکے پر دیا جاتا ہے۔

شہر قائد میں گلشن اقبال کے علاقے میں بازار سے متصل رہائشی بستی میں چار سو گز پر تعمیر ایک بنگلے کو گرانے ، اس کے ملبے کو صاف کرنے ، اور اسے نئے مکان کے تعمیر کیلئے خالی پلاٹ کی صورت میں لانے کیلئے ڈھائی لاکھ روپے میں معاہدہ ہوا ۔ جس کے بعد بنگلے کو گرانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ، ماہر مزدوروں کو بنگلے گرانے کے کام پر لگا دیا گیا ، گرتے ملبے کو ایک جگہ اکھٹا کرنے کیلئے دیگر مزدورں کا بھی انتظام کیا گیا ، بجلی کا کام کرنے والوں کو بھی بنگلے کے تمام تاروں کو ضائع کرنے کا کام دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی لوہا جو کہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور اس کی فروخت کیلئے اسپیئرپارٹس والے حضرات ازخود رابطہ کرتے ہیں ۔ ابتدائی طور پر عمارت کو محنت کش انفرادی طورہر تھوڑ کر گرا رہے ہوتے ہیں اس کے بعد مضبوط حصے کو گرانے کیلئے بڑی مشین جسے کرین کا نام بھی دیا جاسکتا ہے اسے کی کا استعمال ہوتا ہے ۔ مشینری کے ذریعے عمارت کے بڑے حصوں کو گرانے اور انہیں ہٹانے کے ساتھ اس عمارت کی بنیادوں تک کو کھود کر صاف کر دیا جاتا ہے۔ ان کے وقت اور کام کے حساب سے ان کے اخراجات بھی ہم ہی طے کرتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ملبہ لینے والے اس ملبے کو اٹھانے اور مقررہ جگہ تک پہنچانے کا بھی الگ سے کام ہوتا ہے جس کو ٹھیکے کی صورت میں دے دیا جاتا ہے۔ عمارت گرانے کے دوران جو سلاخیں ، لوہے کے پیلر و دیگر اشیاء سامنے آتی ہیں ان کی ساخت ٹیڑھی ہوتی ہے جس کو سیدھا کرنے اور استعمال کے قابل بنانے کیلئے اس شعبے کے ماہرین کو بلایا جاتا ہے جو ان سلاخوں ، راڈز ، و پیلر کو وہیں پر سیدھا کر استعمال کے قابل بنادیتے ہیں اس مرحلے کے بعد ان کی خرید و فروخت کا معاملہ جاری ہوجاتاہے۔

شیرخان نے بتایا کہ پورے منصوبے میں کام کرنے والے تمام مزدروں کے کھانے پینے کا خصوصی طور پر خیال رکھا جاتا ہے۔ گرانے کے عمل میں خطرات کا تناسب زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہم ان کی خصوصی نگرانی کرتے ہیں اور انہیں اپنے بچاؤ کی تلقین و تاکید کرتے ہیں ۔ ان کی اجرت طے ہونے کے بھی اپنے انداز ہوتے ہیں کچھ کا اصرار روزانہ کی اجرت پر ہوتا ہے جبکہ کچھ مزدور کام کی تکمیل کے بعد معاوضے طلب کرتے ہیں۔

بنگلے کو خریدنے والے مالک کا کہنا تھا کہ اس بات سے قطع نظر کہ ہم نے یہ بنگلہ کتنے میں خریدا تاہم اس عمارت کو گرانے اور صاف جگہ کی فراہمی کیلئے ہم نے انہیں ڈھائی لاکھ روپے دیئے ۔ انہوں نے اپنے وقت مقررہ پر کام کی تکمیل کی جس پر ہمیں خوشی ہوئی ۔ ان کا کہنا تھا اب اس جگہ پر نئی عمارت بنائی جائیگی جس میں دکانوں کی تعداد زیادہ ہوگی اور اس عمارت کو مکمل طور پر کاروباری مقاصد کیلئے استعمال کیا جائیگا۔

ملک منصور اور شیر خان نے اس موقع پر مزید بتایا کہ بسا اوقات بنگلہ گرانے کے معاہدے میں یہ نقطہ الگ سے طے ہوتا ہے کہ اس کام میں دستیاب ہونے والا لوہا مالکان کا ہوگا یا ان کااس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ یہی معاملہ دیگر اشیاء کے حوالے بھی طے ہوجاتا ہے۔ تاہم اس بنگلے میں یہ طے ہوگیا تھا کہ مالکان کا لوہے و ملبے سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔

محنت ومشقت کرنے والے مزدورں کو حلال رزق کمانے کیلئے کام چاہئے ہوتا ہے ، شہر قائد میں اس نئے انداز کے کام کیلئے ان محنتیوں کی تعداد اب بڑھتی جارہی ہے۔ شہر قائد میں جہاں نئی عمارتیں بن رہی ہیں وہاں پر مزدوروں کی ایک بڑی تعداد اپنے حصے کا کام کرہی ہوتی ہے ، عمارت کو گرانے والے مزدور اک نئے فن کے عملی مظاہرے کیلئے بھی منتظر ہوتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عمارت گرانے کے ان مراحل میں مزدورں کی حفاظت کا خصوصی خیال رکھا جانا چاہئے اور کسی مزدور کے زخمی ہونے کی صورت میں اس کے علاج کا بھی خصوصی خیال رکھا جانا چاہئے۔

 
Hafeez khattak
About the Author: Hafeez khattak Read More Articles by Hafeez khattak: 201 Articles with 182472 views came to the journalism through an accident, now trying to become a journalist from last 12 years,
write to express and share me feeling as well taug
.. View More