کتاب ۔۔گہرائیوں تک رسائی کے لئے چراخ

 ایک بارملک ’’بخارا ‘‘کا بادشاہ سخت بیمار ہو گیا۔شاہی حکیموں اور طبیبوں نے بہت علاج کیا مگر بادشاہ سلامت کو آرام نہ آیا۔ چونکہ بادشاہ بہت رحم دل ،انصاف پسند اور اپنی رعایا کا خیال رکھنے والا تھا اس لیے بادشاہ کی بیماری کی وجہ سے ہر شخص پریشان تھا ۔ ملک بھر میں اعلان کروا دیا گیا کہ جو شخص بادشاہ کا کامیاب علاج کرے گا اور اگر اس کے علاج کے نتیجے میں بادشاہ سلامت تندرست ہو جا ئیں گے تو اسے منہ مانگا انعام دیا جاے گا۔ یہ اعلان سن کر دوردراز سے حکیم آنے لگے مگر کسی کو بھی بادشاہ کی بیماری کا پتہ نہ چل سکا۔چندروز اسی کشمکش میں گزر گئے۔بڑے بڑے سیانے ،سمجھداراور تجربہ کار حکیم و طبیب آئے مگر ناکام رہے۔آخر ایک روز دور کے علاقے سے ایک سترہ سالہ نوجوان آیا اور اس نے بادشاہ کاعلاج کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔وزراء اس لڑکے کو دیکھ کر پہلے تو بہت حیران ہوئے مگر پھر قسمت آزمائی کے طور پر اسے اجازت دے دی۔نوجوان نے بادشاہ کو دیکھا۔ ان کی بیماری کا اندازہ لگایا اور پھر علاج شروع کر دیا۔ْقدرت خدا کی دیکھیے کہ اس نوجوان کے علاج سے بادشاہ سلامت آہستہ آہستہ تندرست ہونے لگے۔ہر روز بادشاہ کی حالت میں بہتری آنے لگی۔جوں جوں دن گزرتے گئے بادشاہ کی حالت بہتر ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ کچھ ہی دنوں میں بادشاہ سلامت بالکل ٹھیک ہو گئے اور خدا کے فضل و کرم سے چلنے پھرنے لگے۔بادشاہ سلامت اس نوجوان حکیم کی فہم و فراست اور حکمت و لیاقت سے بہت متاثر ہوئے جس نے بڑے بڑے تجربہ کار حکیموں کو بھی مات دے دی۔بادشاہ کی صحت یابی پر مملکت کا ہر شہری بہت خوش تھا۔آخر ایک روز بادشاہ نے اس نو جوان کودربار میں بلایا اور وعدے کے مطابق اس سے پوچھا کہ’’ نوجوان طبیب ! تمہارے علاج سے اﷲ نے ہمیں صحت و سلامتی عطا کی۔ بتاؤ کیا مانگتے ہو ؟؟؟ میرے خزانے حاضر ہیں ۔جو مانگو گے انعام میں تمہیں دیا جاے گا‘‘ بادشاہ کی بات سن کر پہلے تو وہ نوجوان کچھ دیر خاموش رہا۔ دربار میں موجود ہر امیر ،وزیر ، اور عام درباری یہی سوچ رہا تھا کہ یہ لڑکا ہیرے جوہرات، سونا چاندی یا محل و باغات مانگے گا مگر وہ سب نوجوان کا جواب سن کر حیران و پریشان رہ گئے۔بادشاہ کے جواب میں لڑکا آگے بڑھا اور نہایت ادب و احترام سے بولا’’ بادشاہ سلامت! آپ مُجھے اپنے کُتب خانے میں سے چند کتابیں پڑھنے کی اجازت دے دیں۔یہی میرا انعام ہو گا‘‘ لڑکے کی یہ بات سن کر سب درباری تو پہلے ہی حیران رہ گئے تھے خود بادشاہ کو بھی بہت حیرت ہوئی تاہم بادشاہ خود بڑے کتاب دوست تھے اور ان کے کتب خانے میں ہزاروں لاکھوں کتابیں پڑھنے کے لیے موجود تھیں۔بادشاہ فوراً جان گئے کہ یہ نوجوان علم کا شوق رکھتا ہے اور اسی شوق کی وجہ سے اس نے بڑے بڑ ے انعام و اکرام کو ٹھکرا کر کتابوں کے مطالعے کی درخواست کی ہے۔ ویسے بھی ہیرے کی پہچا ن صرف جوہری کر سکتا ہے اور ہیرے کی قدرو منزلت اور اس کی قیمت صرف اور صرف جوہری جان سکتا ہے۔ بادشاہ سے بڑھ کر جوہری کے احساسات اور پرکھنے کی صلاحیت کون رکھ سکتا؟؟؟ بادشاہ سمجھ گیا کہ یہ ایک انمول ہیرا ہے۔ اس کی قدر کرنی چایئے۔بادشاہ اس نوجوان حکیم کے شوق اور علم کی طلب دیکھ کر بہت خوش ہوئے اوراس نوجوان کو نہ صرف پوری آزادی کے ساتھ کتب خانے میں آ کر مطالعے کی اجازت دے دی بلکہ اس کے تمام اخراجات و کفالت کے لیے سرکاری انتظام بھی کر دیا۔اس طرح یہ نوجوان مزید علم حاصل کرنے کے لیے کتب خانے میں آنے لگااور کتابوں کے مطالعے سے علم کی پیاس بجھانے لگا۔ یہ لائق فائق نوجوان کون تھا َ؟؟؟ یہ نوجوان ، جسے علم حاصل کرنے اور کتابیں پڑھنے کا اس قدر شوق تھا کہ اس نے ہیرے جوہرات اور سونے چاندی کی بجائے کتابوں کے مطالعے کی اجازت مانگی۔ بعد میں بڑا نامور حکیم اور سائنسدان بنا ، اتنا عظیم کہ آج دنیا اس کی تحقیقات اور کتابوں سے استفادہ کر رہی ہے ۔ اس شہرہ آفاق طبیب کو انسانی تاریخ ’’ حکیم بو علی سینا‘‘کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہیکتابوں کے مطالعے یا کُتب بینی کی ا ہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ بو علی سینا نے سترہ سال کی عمر میں کتابوں کے مطالعے کی خاطر ہیرے جوہرات جیسے قیمتی انعامات کو ٹھوکر مار دی۔ایک مشہور عالم کا قول ہے کہا’’ا گر مُجھے بادشاہت عطا کی جائے اورمیرے رہنے سہنے کے لے محلات ہوں مگر مُجھے کُتب بینی سے منع یا محروم کر دیا جائے تو میں ایسے محلات اور ایسی بادشاہت کو چھوڑ دوں گا اور مطالعہ کو ترجیح دوں گا کیونکہ میں مطالعہ کے بغیر بالکل زندہ نہیں رہ سکوں گا‘‘کتاب بینی ہمیں زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ رکھتی ہے۔کتاب ایک ایسے معلم کی حیثیت رکھتی ہے جس سے ہم لوگ بہت فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ کتاب سیدھے اور بُرے راستے کا فرق بتاتی ہے اورہماری راہنمائی کرتی ہے۔کامیاب زندگی گزارنے کے ڈھنگ بتاتی ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ کتاب ایک خاموش معلم کا درجہ رکھتی ہے۔ایک اچھی کتاب کا مطالعہ کرنا اور اس پر عمل کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک شفیق نصیحت کرنے والا شخص ہمیں زندگی کے اُتار چڑھاؤ کے بارے میں آگاہ کر رہا ہواور اس کا پیار بھرا انداز ہمارے دل میں اُتر جاتاہے اور ہم پرانجانے میں اثرانداز ہوتا ہے۔اچھی کتاب کا مطالعہ ہماری زندگی کا رخ بدل دیتی ہے۔اس کی بہترین مثال ’’قرآن مجید‘‘ہے جو قدم قدم پہ ہماری راہنمائی کرتی ہے۔قرآن پاک کے مطالعے سے ہم پر زندگی کے اسرار و رموز کھلتے جاتے ہیں کہ کائنات کیا ہے ؟؟؟ زمین کیا ہے ؟؟؟اس کے اندر کون کون سے راز پوشیدہ ہیں ؟؟؟ ہمیں زندگی کس طرح گزارنی ہے ؟؟؟اگر اس عظیم کتاب کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کی جائے تو نہ صرف ہم اچھے مسلمان و انسان بن سکتے ہیں بلکہ معاشرے میں دوسروں کے لیے باعث ِ فخر ثابت ہو سکتے ہیں۔کتاب ہمارے دُکھ درد کا بہترین ساتھی ہے ۔اکثر اوقات ہم سوچتے ہیں کہ وقت کس طرح گزاریں؟اور ساتھ میں کوئی دوست بھی نہ ہو تو اس وقت یہ کتاب ہی ہے جو ہمارا ساتھ دے سکتی ہے۔اگر ہم کسی وقت کسی وجہ سے غم زدہ ہیں تو کتاب کی شگفتہ تحریریں وقتی طور پر ہماری پریشانی کا ازالہ کر سکتی ہے ۔ ہماری تکلیفوں کو دور کر سکتی ہے ۔کتابیں ہماری تنہائی کی بہترین ساتھی ہیں جو ہمیں حالات و واقعات سے آگاہ رکھتی ہیں۔ کتابوں کی موجودگی اور مطالعے سے انسان کبھی تنہائی محسوس نہیں کرتا اور کبھی بھی اپنی زندگی سے بورنہیں ہوتا ۔کتابیں پڑھنے سے ہماری معلومات میں بے پناہ اضافہ ہوتاہے اور ہم گھربیٹھے بیٹھے تمام دنیا کے بارے میں جان سکتے ہیں ، معلومات حاصل کر سکتے ہیں ، نت نئی باتوں سے آگاہ ہو سکتے ہیں اور ایجادات سے استفادہ کر سکتے ہیں۔کتاب بینی سے ہم نہ صرف آئندہ پیش آنے والے واقعات کی سائنسی پیشین گوئیان جان سکتے ہیں بلکہ گزرے ہوئے تاریخی واقعات بھی جان پاتے ہیں اسی لیے جو لوگ مطالعے کے شوقین ہوتے ہیں ان کی معلومات عام انسان سے بہت زیادہ ہوتی ہیں جو ان کے لیے مفید ثابت ہوتی ہیں۔کتاب ایک ایسا اچھا اور مخلص دوست ہے جو سفر و حضر میں ہروقت اورہرجگہ ساتھ دینے اور دل بہلانے کا کام کرتا ہے مگر انسانی دوستوں کی طرح کبھی گلہ و شکوہ زبان پر نہیں آتا۔جب تک پڑھنا چاھو پڑھتے رہو جب چاہو نہ پڑھو لیکن یہ عام دوستوں کی طرح ناراض نہیں ہوتی ہے۔کتابوں کے مطالعے سے ہم حالات ِ حاضرہ کے بارے میں ہر قسم کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں ۔تجارت،صنعت و حرفت،سیاست،صحت و تعلیم ،لین دین اور کاروباری تفصیلات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کامیابی کے گُر بھی سیکھ سکتے ہیں۔کتاب ایک جہاں نما ہے جس کی بدولت ہم ساری دنیا سے واقفیت حاصل کر سکتے ہیں۔ دنیا کے عظیم مورخ اپنی سوانح حیات میں تجربات لکھ کر ہمیں تاریخ سے آگاہ کرتے ہیں۔کتاب گہرائیوں تک رسائی کے لئے چراخ ِ ہدایت ہے ۔ ایسی کتابوں کی بدولت تاریخیں بدلتی ہیں، تخت و تاج چھن جاتے ہیں کتابوں کے مطالعے سے انسان بہت سی ایسی معلومات حاصل کر لیتا ہے جو اپنے طور پر صدیوں میں بھی حاصل نہیں کر سکتا۔کتاب نہ صرف ہمارے گزرے ہوئے حالات و واقعات کے بارے میں بتاتی ہے بلکہ ہمارے ماضی کی شان و شوکت اور فاتحین کے کارناموں سے بھی آگاہ کرتی ہے۔تاریخی کتب کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتاہے کہ ہمارے بزرگوں نے کس طرح دینِ اسلام کی خدمت کی اور ظلم کے سامنے کس طرح ڈٹے رہے۔سائنسی معلومات میں دلچسپی رکھنے والے حضرات سائنسی کتب کے مطالعے سے اپنی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔ایسی تحقیقات جن پر مغربی دنیا میں تجربات ہو چکے ہیں ان کے بارے میں جان کر ان سے استفادہ کرتے ہیں۔اب تو اکیسویں صدی کا دور دورہ ہے۔ کامیاب زندگی گزارنے اور ترقی کی منازل طے کرنے کے لئے سائنسی تحقیقات و مشاہدات کا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے اور یہ سب کچھ صرف کتاب بینی سے ہی ممکن ہے۔اچھی کتاب کا انتخاب ایک اہم مسئلہ ہے ۔بازار میں ہزاروں کتابیں پڑی ہو ئی ہیں۔لیکن اپنے ذوق وشوق کی خاطر انہیں پڑھنے کے لئے ان کا چناؤ بہت احتیاط اور غور و فکر سے کرنا چاہیے۔جس طرح اچھا دوست بُرائی سے بچاتا ہے اسی طرح اچھی کتاب بھی دل و دماغ اور عادات و اطوار پر اچھا اثر ڈالتی ہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ بُری کتابیں پڑھ کر اپنا اخلاق تباہ نہ کریں
 
Rasheed Ahmed Naeem
About the Author: Rasheed Ahmed Naeem Read More Articles by Rasheed Ahmed Naeem: 126 Articles with 122269 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.