مانا کہ زندگی بہت دشوارہے ۔۔۔۔۔۔ آج کل مہنگائی عروج پر
اور عام آدمی کی جیب اکثر خالی رہتی ہے ۔۔۔۔۔ مانا کہ چور بازاری لوٹ مار
اور دہشت گردی عام ہے اور شاید ہم پاکستانی زیادہ تر خوف کےعالم میں زندگی
بسر کر رہے ہیں ۔۔۔۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے ۔۔۔ کیا واقعی یہ ساری برائیاں
ہمارے حکمرانوں اور دیگر اداروں کا کیا دھرا ہے ۔۔۔۔ کیا واقعی ہم میں کوئی
کھوٹ نہیں ۔۔۔۔ دل پر ہاتھ رکھ کر ذرا خود کو کٹھہرے میں کھڑا کر کر دیکھئے
اور سوچئے کیا ہم پر بھی فردِجرم عائد ہوتی ہے یا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہم
اپنے حصے کا کام پوری دیانت داری سے کر رہے ہیں یا نہیں ۔۔۔ جن جن قوموں کا
قرآن میں ذکر ہے جن پر عزابِ الہیٰ نازل ہوا اور وہ اقوام نیست نابود کردی
گئیں ۔۔۔۔ کیا وہ تمام برائیاں ہم میں پنپ نہیں رہیں ۔۔۔۔ ناپ تول میں کمی
اور ناقص اشیاء دھوکےسے فروخت کرنا کوئی بڑی بات نہیں ۔۔۔۔ قومی اداروں میں
رشوت اپنا حق سمجھ کر وصول کی جاتی ہے ۔۔۔۔ سود کو جائز قرار دینے کے لئے
کتنے ہیلے استعمال کرتے ہیں ہم ۔۔۔۔ کئی اسکیمیں بینکوں نے نکالیں اور اس
پر نام نہاد مولویوں نے فتوے بھی دے دئے ۔۔۔ اپنے مال سے کچھ خرچنا ہم
چاہتے نہیں ۔۔۔۔ بے جا اِسراف کے لئے ہمارے پاس اگر پیسے کم پڑ جائیں تو
ادھار لینے سے بھی ہچکچاتے نہیں بس لوگوں پر امپریشن اچھا پڑے ۔۔۔ ذرا سی
تکلیف ہمیں برداشت نہیں مگر کسی اور کے دکھ درد کی تکلیف کی ہمیں کوئی
پرواہ نہیں ۔۔۔۔ ہاں زبانی جمع خرچ خوب کروالیں ہم سے ۔۔۔ یہ سب خامیوں کے
باوجود ہم مظلوم ہیں ۔۔۔۔ اور ہمارے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے ۔۔۔۔ عورتوں نے
بھی چادر اور چاردیواری سے باہر قدم کیا رکھا مانو پر لگ گئے ہیں انہیں ۔۔۔
حیا شرم بس دیدوں تک رہ گئی ہے ۔۔۔ اور بس ۔۔پہناوے پڑوسی ملک سے یا ہمارے
صاحب بہادر (گورے) کے ۔۔۔۔ حجاب اور شرم و حیا کی نئی تھیوری پیش کرتیں یہ
خواتین دوپٹے کی جھنجھٹ سے بھی آزاد اور خودمختار ۔۔۔۔ حقوقِ نسواں کا
جھنڈا ہاتھ میں پکڑے خراماں خراماں بس چلی جارہی ہیں دنیاوی لوازمات سے لیس
مگر اپنے انجام سے بے خبر ۔۔۔۔۔ اور یہی عورتیں جب مائیں بنتی ہیں تو بچوں
کی تربیت کس ڈھنگ سے کرینگی ۔۔۔۔ ذرا سوچ لیجئے ۔۔
ہر کوئی بے چین و بیقرار ۔۔۔۔ دلی سکون کی تلاش میں سرگرداں ۔۔۔۔ وحشت
چہروں سے عیاں ۔۔۔۔ ماتھے پر پڑی شکنیں کر رہی ہیں دلوں کا حال بیاں ۔۔۔
روزِمعاش کی تنگی کہیں بےجا اِسراف ۔۔۔ اشرافیاء سے لے کر ایک عام آدمی تک
سب ہی اپنی جگہ بےایمانی کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔۔۔۔ جس کو جیسا
بن پڑا وہ کر رہا ہے پھر رب سے شکوہ کیسا ،گلہ کیسا ۔۔۔۔ اس دشتِ جنوں میں
ایک قلم کار پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے
معاشرتی برائیوں کے خلاف لکھے ۔۔۔۔ اور اپنے قلم کی کبھی قیمت نہ لگنے دے
۔۔۔ آج کل افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے کچھ قلم کار بھائی ان باتوں کا
خیال نہیں رکھتے ۔۔ اور طاغوتی قوتوں کے ہاتھوں کٹ پتلی بن جاتے ہیں ۔۔۔۔
قلم بھی ایک جہاد ہے ۔۔۔ اگر اس کا مثبت استعمال ہوگا تو آخرت میں ہمیں
شرمندہ نہیں ہونا پڑیگا ۔۔۔۔ ورنہ لگے رہئے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہئے
اور اسی طرح گناہوں کا بوجھ لئے آخر میں اس پاک رب سے ملنے چل دیجئے ۔۔۔۔
فی امان اللہ
بہت دل تڑپتا ہے بہت تکلیف ہوتی ہے
سچ کڑوا تو ہے پر بات جب صحیح ہوتی ہے
جھوٹ کے پلندے میں دبے یہ کرارے سچ
جب حقیقت کھلتی ہے تو شرمندہ کرتی ہے
آج کون ہے جو حق کی بات کرتا ہے
سچ کا ساتھ دینا کون گوارا کرتاہے
قلم بھی زہر اگلتے ہیں
آنکھوں پر پٹی باندھے سب پھرتے ہیں
گونگے بہرے اندھی تقلید کے ہم پیرو کار
رسول اللہ کی شفاعت کے متمنی
ان سے کوسوں دور جا پڑے ہیں
اللہ ہی بچائے اللہ ہی سمجھائے
اسلام کو ڈبونے خود مسلم چل پڑے ہیں ۔۔۔ |