شہریوں کو حج کی سعادت سے محروم کرنے کیلئے ایرانی حکومت، اﷲ اور اقوامِ عالم کے سامنے جوابدہ
(Dr M.A Rasheed Junaid, )
گذشتہ سال مکہ معظمہ میں تیز ہواؤں اور
بارش کے بیچ پیش آئے کرین سانحہ نے اقوامِ عالم کے مسلمانوں کو غمزدہ کردیا
تھا اور اس بڑے سانحہ کے چنددن بعد یعنی ایام ِحج کے دوران منیٰ میں حجاج
کرام کارمی جمار جانے کے دوران پیش آنے والے بھگڈرواقعہ نے سینکڑوں حجاج
کرام کی شہادت کا باعث بنا۔ مملکت ِ سعودی عرب کی شاہی حکومت نے منیٰ سانحہ
کے فوراً بعد اعلیٰ سطحی تحقیقات کا حکم دیدیا تھا اور سیکیوریٹی خامیوں کا
جائزہ لیا اس دوران تحقیقات سے پتہ چلا کہ بعض حجاج کرام بشمول ایرانی حجاج
کی جانب سے سیکیوریٹی حصار کو توڑکر مخالف سمت سے آنے کی کوشش کی گئی جس کی
وجہ سے منیٰ میں ایک بڑا سانحہ پیش آیاجس میں ہزار سے زائد حجاج انتقال
کرگئے۔ مملکتِ سعودی عرب کی جانب سے حجاج کرام کی سہولت اور حفاظت کے لئے
مؤثر انتظامات کئے جاتے ہیں اس کے باوجود ایسے واقعات پیش آنا یہ اﷲ کی
مرضی ہی سمجھاجائے گا۔ اس سانحہ کے بعد ایران نے سعودی شاہی حکومت کو اس
سانحہ کی ذمہ داری قبول کرنے پر زور دیتا رہا ہے ۔ منیٰ سانحہ کے بعد سے
سعودی شاہی حکومت اور ایرانی حکومت کے درمیان تعلقات بگڑتے دکھائی دے رہے
ہیں گذشتہ کئی ماہ سے ایران اپنے عازمین معتمرین کو سفر کرنے سے روکے رکھا
ہے یہی نہیں بلکہ ایران نے اعلان کیا ہے کہ ان کے عازمین حج و عمرہ اس سال
حجاز مقدس کا سفر نہیں کریں گے جب تک کہ سعودی عرب کی شاہی حکومت منیٰ
سانحہ پر معافی نہ مانگے اس کے علاوہ ایرانی حکومت نے سعودی شاہی حکومت پر
کچھ شرائط لاگو کرنے کی کوشش کی جسے سعودی حکومت ان شرائط کو ماننے سے
انکار کردیا۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی صدارت میں سعودی کابینہ کا ایک
خصوصی اجلاس منعقد ہوا ۔ جس میں مملکتِ سعودی عربیہ کی کابینہ نے واضح کیا
کہ اس نے کسی مسلمان کو مقدس سرزمین میں حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے
لئے آنے سے نہیں روکا ہے۔ وہ اس امر کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں ہے کہ
دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے مسلمان حج و عمرہ کے لئے حجاز مقدس آئیں۔
سعودی کابینہ نے ایران کی جانب سے اس کے شہریوں پر اس سال حج کے لئے جانے
پر پابندی عائد کرنے کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ سعودی مملکت تمام قوموں
سے تعلق رکھنے والے عازمین حج اور عمرہ کی خدمت کو اپنے لئے ایک اعزاز
سمجھتی ہے اور ان کے خیر مقدم کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔ کابینہ نے سعودی
حکام کے اسلامی جمہوریہ ایران کے امور حج کے ذمہ دار حکام سے ملاقات اور ان
سے دنیا بھر سے آنے والے دوسرے عازمین حج کی طرح ایرانی عازمین حج سے متعلق
انتظامات پر بات چیت کے حوالے سے غور کیا ہے۔ کابینہ کے اجلاس کے دوران
واضح کیا گیا کہ ایرانی وفد نے عازمین حج کے انتظامات سے متعلق سمجھوتے کے
مندرجات پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا اور یہ کہ ایرانی حکام نے ایرانی
شہریوں کو حج کے لئے آنے سے روکنے کا ازخود فیصلہ کیا ہے اور و ہ اس پر اﷲ
تعالیٰ اور پوری دنیا کے سامنے جواب دہ ہونگے۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس
بی اے کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق کابینہ نے سعودی عرب کے اس موقف
کا اعادہ کیا ہے کہ ایران کی جانب سے ایرانی عازمین کی حجاز مقدس میں آمد
کو روکنے اور اس میں رکاوٹیں حائل کرنے کا مقصد حج کے فریضے کو سیاسی بنانا
اور اس صورتحال سے ناجائز فائدہ اٹھاکر سعودی مملکت کو نقصان پہنچانا ہے۔
سعودی عرب حج کے انتظامات کے لئے گذشتہ چند برسوں کے دوران وسیع تر
سیکیوریٹی انتظامات کو قطیعت دے رہی ہے کیونکہ خطے میں نام نہاد جہادی شدت
پسند تنظیموں کی وجہ سے دنیا بھر سے آنے والے عازمین حج و عمرہ کی حفاظت کو
یقینی بنایا جائے اور انہیں مکمل سہولتیں مہیا کرنے میں کسی قسم کی دشواری
نہ ہوں اس کے باوجود اگر ان ایام میں کوئی حادثہ یا سانحہ پیش آتا ہے کہ یہ
مرضی الی اﷲ کے سوا کچھ نہیں ۔ سعودی کابینہ کے فیصلہ سے قبل ایران نے
حاجیوں کے انتظامات کے معاہدے میں ناکامی کی تمام تر ذمہ داری سعودی عرب پر
عائد کی ہے ، ایرانی حکام کے مطابق سعودی عرب نے مذاکرات میں سردمہری
دکھائی اور اس کا رویہ غیر مناسب اور منفی تھا۔ ایرانی خبررساں ادارے ارنا
کے مطابق وزیر ثقافت اور مذہبی امور علی جنتی کا کہنا ہیکہ سعودی عرب نے
مذاکرات میں ’’تباہ کن‘‘ کردار ادا کیا ہے۔ایرانی شہریوں کی اس سال حج میں
عدم شرکت دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید کشیدگی تصور کی جارہی ہے ۔
جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہیکہ سعودی عرب اقوام عالم کے تمام عازمین کی آمد
کا خیر مقدم کرتا ہے اور اس کے لئے تمام اقوام عالم کے عازمین کی خدمت
اعزاز ہے۔سعودی عرب اور ایران کے درمیان بڑھتی کشیدگی مستقبل میں خطرناک رخ
اختیار کرسکتی ہے اگر اس سال ایرانی شہری حج کی سعادت سے محروم رہتے ہیں تو
ہوسکتا ہے کہ ایرانی حکومت اور سعودی حکومت کے خلاف وہاں کے عوام احتجاج
کریں۰۰۰
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات
ایک طرف سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات بگڑتے جارہے ہیں تودوسری
جانب سعودی اور دیگر عرب و اسلامی ممالک کے درمیان متحدہ طور پر کئی ایک
معاہدوں کو عملی شکل دی جارہی ہے۔ اہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے جدہ کے
السلام محل میں ولیعہد ابوظہبی ونائب سربراہ اعلی مسلح افواج متحدہ عرب
امارات شیخ محمد بن زاید آلنہیان کا استقبال کیا اس موقع پر شہزادہ خالد
الفیصل امیر مکہ مکرمہ بھی موجود تھے ۔دونوں ممالک کے ما بین بہتر تعاون و
رابطہ کمیٹی تشکیل دی گئی۔اس موقع پر دونوں ممالک کے ما بین آپسی تعاون کا
معاہدہ طے پایا جسکو شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور شیخ محمد بن زاید آلنہیان
کی موجودگی میں دونوں ممالک کے متعلقہ عہدیداروں نے دستخط کئے۔
سعودی عرب کے مملکتی وزیر خارجہ ڈاکٹر نذار مدنی اور متحدہ عرب امارات کے
ڈپٹی سکریٹری جنرل آف دی سپریم کونسل فار سیکیوریٹی علی بن محمد الشمسی نے
نمایندگی کی۔ اس موقع پر سعودی ولیعہدشہزادہ محمد بن نائف ، شہزادہ خالد
الفیصل , ابراہیم العصاف , عادل الطریفی اور دونوں ممالک کے دیگر اعلیٰ
عہدیدارموجود تھے۔ قبل ازیں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے شیخ محمد بن زاید
آلنہیان کا اپنے محل میں استقبال کیا اور دونوں سربراہو ں نے آپسی تعلقات
اور تعاون کومزید فروغ دینے پر اتفاق کیا، انہوں نے علاقائی اور بین
الاقوامی حالات پر بھی تبصرہ کیا۔
مکہ مکرمہ میں مشرق وسطیٰ کے سب سے بڑے سیکیورٹی مرکز کا قیام
سعودی عرب کے شہر مکہ میں مشرق وسطی کے سب سے جدید اور بڑے سیکیورٹی کمانڈ
سنٹر کا افتتاح ہو گا۔عرب خبر رساں ادارے کے مطابق سعودی عرب کی وزارت
داخلہ نے قومی مرکز برائے مشترکہ سیکیورٹی کے انتظام کے لئے 16سوافسروں اور
پرائیویٹ اہلکاروں کو تربیت دی ہے۔ گزشتہ سال سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن
نائف نے کمان مرکز میں قائم روڈ سیکیورٹی کنٹرول روم کا افتتاح کیا تھا جسے
911کے ذریعے رپورٹس موصول ہو رہی ہیں جبکہ نئے سیکیورٹی مرکز کے قیام کے
بعد اس کمان کے نمبر 911 کو بتدریج مختلف سیکیورٹی کے شعبوں سے تبدیل کر
دیا جائے گا۔ اس مشترکہ نمبر سے معلومات چند سیکنڈ میں ایک شعبے سے دوسرے
شعبے تک پہنچائی جا سکتی ہیں۔ جدید سیکیورٹی مرکز کے قیام کے بعد وزارت
داخلہ موجودہ آپریشنز روم بھی ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ انھیں ایک جگہ
منتقل کیا جائے گا جہاں وقتِ واحد میں 400 سے زائد افسران اور پر ائیویٹ
اہلکار خدمات سر انجام دیں گے۔ سیکیورٹی کی نگرانی کے اس جدید ترین مرکز
میں 18ہزار کیمروں کے ذریعہ مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔ انہیں مستقبل میں
اسمارٹ ایپلی کیشنز کے ذریعہ منسلک کیا جائے گا۔اس مرکز میں مشرق وسطی کی
سب سے بڑی ا سکرینیں نصب کی گئی ہیں۔
جان کیری کی سعودی شاہ سے ملاقات
خادم حرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزکے ساتھ امریکی وزیر خارجہ جان
کیری نے ملاقات کی جس میں دو طرفہ تعلقات خطے کی صورتحال سمیت مختلف شعبوں
میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔عرب خبر رساں ادارے کے مطابق شاہ سلمان
خادم الحرمین الشریفین سے امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے ہمراہ آئے
وفد نے جدہ کے قصر السلام میں ملاقات کی۔ملاقات کے دوران دونوں ملکوں کے
درمیان تعاون،خطے کی صورتحال اور اس سلسلے میں پیشرفت کے حوالے سے کی
جانیوالی کوششوں پر بات چیت کی گئی۔ملاقات کے دوران سعودی ولی عہد اور وزیر
داخلہ شہزادہ محمد بن نائف وزیر ثقافت و ابلاغ ڈاکٹر عادل بن زید الطریفی
وزیر خارجہ عادل الجبیر،وزیر مملکت اور شاہی دفتر کے سربراہ خا لد بن عبد
الرحمن العین کے علاوہ سعودی عرب میں امریکی سفیر جوزف ویسٹ فال موجود
تھے۔اس سے قبل سعودی ولی عہد اور شہزادہ محمد بن نائف نے جان کیری سے
ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان خصوصی تعلقات اور متعدد شعبوں با لخصوص
دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مشترکہ تعاون کے بارے تبادلہ خیال کیا ۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلام سے حسینہ کا انتقام
توقع کے مطابق بنگلہ دیش کے امیر جماعت اسلامی مولانا مطیع الرحمن نظامی کو
شیخ حسینہ واجد حکومت نے تختہ دار پر لٹکاکر انتقام لے ہی لیااس سے قبل
جماعت اسلامی کے ملا عبدالقادر اور غلام اعظم کو پھانسی دی گئی۔ مولانا
مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی کی سزاکو کسی نہ کسی طرح انجام دینے کا عزم
مصمم لئے ہوئے بنگلہ دیشی شیخ حسینہ واجد حکومت کے خلاف بنگلہ دیش میں بڑے
پیمانے پر احتجاج ہوااور بنگلہ دیش کے اس ظالمانہ اقدام سے پاکستان نے بھی
ناراضگی کا ظاہر کی، جبکہ ساری دنیا کے مسلمانوں نے حسینہ کی مذمت کی ۔
مولانا مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی دیئے جانے کے بعد عالمی سطح پر احتجاجی
بیانا ت اور عملی اقدامات دیکھنے میں آئے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے
بطور احتجاج بنگلہ دیش سے اپنے سفیر کو واپس طلب کرلیا۔ رجب طیب اردغان نے
مطیع الرحمن کی پھانسی کی سزا کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے یوروپی یونین
کی جانب سے خاموشی اختیار کئے جانے اورپھانسی کے خلاف آواز نہ اٹھائے جانے
کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسی طرح جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا سید
جلال الدین عمری نے مولانا مطیع الرحمن نظامی کو دیئے جانے والی پھانسی کے
خلاف کہاکہ یہ عدل و انصاف اور اسلامی و انسانی روایت کے خون کے مترادف ہے۔
اس ظالمانہ و سفاکانہ عمل کی انہو ں نے شدید مذمت کی۔ مولانا نے کہا کہ جس
نام نہاد جنگی جرائم ٹریبونل کے فیصلوں کے تحت ملک کی عظیم شخصیات کی
زندگیوں سے کھلواڑ کیا جارہا ہے اس کے متعلق یہ صرف ہماری ہی رائے نہیں ہے
بلکہ مختلف انسانی حقوق کے مختلف بین الاقوامی اداروں کی جانب سے بھی یہ
بات عیاں ہوتی رہی ہے کہ یہ ٹریبونل اور اس کے فیصلے انصاف کے بین الاقوامی
معیار کے مطابق نہیں ہیں۔انہوں نے مولانا مطیع الرحمن نظامی اور دیگر جماعت
اسلامی کے رہنماؤں کا پے در پے قتل شیخ حسینہ واجد کی کھلی ہوئی سیاسی
انتقامی کارروائی سے تعبیر کیا ہے ۔
|
|