عدم مساوات، امتیازی سلوک عذاب کو دعوت دیتا ہے

پارلیمانی قائمہ کمیٹی قواعد و استحقاق کی سفارش پر ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں پر 500فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ قومی اسمبلی نے قانون کی منظوری دے دی ہے۔ سینیٹ کی منظوری کے بعد صدر کے دستخطوں سے یہ قانون پاس ہو جائے گا۔ کمیٹی دو درجن ارکان پر مشتمل ہے۔ اس نے اپنی ایک زیلی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔ جبکہ اس نے دیگر ارکان کی بھی خدمات حاصل کیں۔ کمیٹی نے یہ جواز فراہم کیا کہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں سے بھی کم ہیں۔ جب کہ انہیں22گریڈ کے وفاقی سیکریٹری کے برابر لایا جا نا ضروری ہے۔ وفاقی سیکریٹری ملک کی اعلیٰ ترین سول سروس سی ایس ایس کیڈر میں سینئر ترین افسر ہوتا ہے۔ جو انتہائی محنت اور مقابلہ کے امتحان میں شرکت کے بعد لا تعداد ٹریننگ مرحلوں سے گزرتا ہوا، میرٹ پر اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوتا ہے۔ پھر لا تعداد کٹھن مراحل کے بعد وفاقی سیکریٹری بنتا ہے۔ یہ انتہائی محنت اور تجربے کے بعد حاصل کیا گیا مقام ہوتا ہے۔ سی ایس ایس افسران نے ہر طرح کی تربیت یہاں تک کہ کمانڈوز ٹریننگ بھی کی ہوتی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ چاہتے ہیں کہ ان کی تنخواہ اور مراعات ان س کم نہ ہوں۔ ارکان پارلیمنٹ بھی ملک کے عوامی نمائیندے ہیں۔ یہ بھی قابل احترام ہیں۔ ان میں کئی ایسے ہیں جو سیاسی اور سماجی کارکن کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ مگر ایسے بھی ہیں جو نسل در نسل رکن بن جاتے ہیں۔ کئی جاگیردار، وڈیروں، زمینداروں کے نمائیندہ ہیں۔ یہ عوام کی نمائیندگی کے بجائے اپنی خاندانی نمائیندگی کرتے ہیں۔ یہ سیاستدانوں کے بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں ، نواسے نواسیاں یا دیگر عزی و اقارب بھی ہوتے ہیں۔ جن کے انتخاب کا میرٹ یا معیار صرف ان کی وراثت ہوتا ہے۔ اس لئے ان کا مقابلہ سول سروس یا قوم کے خدمتگاروں کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔ سیاست بھی قومی خدمت اور عبادت ہے۔ اگر کوئی آج بھی یہ عبادت کرے تو وہ اس میں آزاد ہے۔ لیکن آج یہ عبادت نہیں بلکہ تجارت بن رہی ہے۔ سب سے پہلے ہم ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کی کچھ معلوم تفصیل پر روشنی ڈالتے ہیں۔

قومی اسمبلی میں ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں اضافہ کی منظوری ایک دن میں نہیں ہوئی۔ ایک سال سے یہ تیاری ہو رہی تھی۔ اس کے لئے کئی ملکوں کے ارکان پارلیمٹ کی تنخواہوں کا جائزہ لیا گیا۔ جن میں سویٹزر لینڈ، جرمنی، برطانیہ، آسٹریلیا، بھارت، بنگلہ دیش جیسے ممالک شامل ہیں۔ خدا کا خوف کریں ہم سوٰیٹزر لینڈ، برطانیہ، آسٹریلیا ، جرمنی جیسی تنخواہیں طلب کر رہے ہیں۔ کیا ان ممالک میں مزدور اور ملازم کی بھی کوئی اجرت ہے۔ بلکہ مزدور ملازم کی تنخواہ افسر اور عوامی نمائیندہ سے بھی زیادہ ہے۔ ہم کیسے اپنا مقابلے ان ترقی یافتہ معاشروں سے کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے عوام کو ان ممالک کا عشر عشیر تک فائدہ نہیں پہنچایا۔ ہماری سہولیات کا فقدان ایک المیہ ہے۔ اس کے باوجود ہم قومی خزانہ سے مراعات بھی لے رہے ہیں۔ ترقیاتی فندز بھی لیتے ہیں۔ ان کو اپنوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان پر کمیشن وصول کئے جاتے ہیں۔ ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ رہتے اپنے گھر میں ہیں اور کرایہ حکومت سے لیتے ہیں۔ سرکاری گاڑی کو اپنی نجی مصروفیات میں استعمال کرتے ہیں۔ سرکاری سہولیات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ سرکاری ٹیلیفون کی بل نکالیں تو اپنے گھر اور دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں گھنٹوں کالیں کی ہوتی ہیں۔ تا ہم ایمان دارا ور دیانت دار لوگ بھی ہیں۔ اﷲ انہیں سلامت رکھے۔

ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہ میں 500گنا سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ اب وہ ماہانہ 2لاکھ روپے تنخواہ لیں گے۔ ٹرانسپورٹ الاؤنس میں 50ہزارماہانہ وصول کریں گے۔ سفر کے دوران 20روپے فی کلو میٹر ملے گا۔ تین لاکھ روپے تک کے ووچر کیش کر سکیں گے۔ اب انہیں 30ریٹرن ہوائی جہاز کے ٹکٹ ملیں گے۔ جو ان کے فیملی ارکان کو بھی منتقل ہو سکیں گے۔ رکنیت میں ایک بار تین لاکھ روپے آئی ٹی الاؤنس لے سکیں گے۔ ماہانہ آفس مینٹننس کے لئے ایک لاکھ روپے، کنسچونسی الاؤنس میں 70ہزار روپے اور یوٹیلیٹی الاؤنس میں 50ہزار ملیں گے۔ علاوہ ازیں ان کا نامزد ہسپتالوں میں بالکل مفت علاج ہو گا۔ یہ سب جمع کریں تو دیکھیں کتنے لاکھ روپے بنتے ہیں۔ آ پ تو ڈیولپمنٹ فنڈ بھی کروڑوں روپے لیتے ہیں۔ جو کہاں خرچ ہوتا ہے کوئی نہیں جانتا۔ اس کی کوئی جوابدہی نہیں۔ پروٹوکول الگ سے ہے۔ اپنے اثر ورسوخ کا استعمال بھی کون نہیں کرتا۔

پارلیمنٹ ملک کو سب سے بڑا ادارہ ہے۔ یہ قانون سازی کرتا ہے۔ اس نے اپنے لئے قانون سازی کی۔ سب خاموش رہے۔ ن لیگ، پی ٹی آئی، پی پی پی، ایم کیو ایم، ق لیگ وغیرہ کسی نے واک آؤٹ نہ کیا۔ ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ ویسے بھی لا تعدا ارکان پارلیمنٹ ہیں جو اسمبلی میں نہیں آتے۔ کئی ایسے ہیں جنھوں نے آج تک ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ یہ عوام کے نمائیندے ہیں ۔ جو خاموشی سے وقت گزار لیتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے ساتھ دیگر اداروں میں بھی طبقہ بندیاں ہیں۔ منیجمنٹ یا انتطامیہ والے، جو پالیسی ساز ہوتے ہیں۔ وہ دیگر ملازمین کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔ ہ پروٹوکول کے چکر میں رہتے ہیں۔ کسی چھوٹے ملازم کو عزت دی یا اس کے ساتھ کسی محفل یا پروگرام میں شرکت کو یہ اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔ اپنے لئے بھاری تنخواہیں، مراعات یک دم منظور کر لیتے ہیں۔ کوئی ملازم تنخواہ میں اضافے یا مراعات کی بات کرے تو انہیں موت آ جاتی ہے۔ یہ اسے جرم قرار دیتے ہیں۔ خود لابیاں ، گروہ بندیاں بناتے ہیں۔ ملازمین کو آلہ کار بنا کر اچھالتے ہیں۔ ان سے مخبریاں کراتے ہیں۔ انتظامیہ کے لوگ ایک دوسرے کی جڑیں کاٹتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکاھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ادارے کی توانائی اپنی زاتیات اور لابی ازم میں ضائع کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی کردار کشی کرتے ہیں۔ ادارے کی ترقی میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ چھوٹے ملازمین اور ان کی تنخواہوں میں لاکھوں کا فرق ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ بڑی کرسیوں پر بہت چھوٹے لوگ بھی براجمان ہو جاتے ہیں۔ مگر اپنی مراعات میں پلک جھپکتے ہی اضافہ کر لیتے ہیں۔ اس کے لئے یہ ایک ہو اجاتے ہیں۔ کوئی ملازم تنخواہ میں اضافے کی بات کرے تو اس کا جینا حرام ہے۔ اسے ادارے کا دشمن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

ہماری پارلیمنٹ مجلس شوریٰ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مجلس شوریٰ مگر ہمارے پیارے نبیﷺ اور ان کے صحابہ کرام ٖ(اﷲ ان سے راضی ہو)کی مثال کو دقیا نوسی باتیں قرار دیتے ہیں۔ نعوذ باﷲ۔ خلفاء راشدین قومی خزانے یا بیت المال سے وظیفہ لیتے تھے۔ جب وہ اقتدار میں آتے تو تمام دیگر مصروفیات ترک کر دیتے۔ تجارت سے الگ ہوجاتے۔ مفادات کے تصادم کا مسلہ تھا۔ جسے ہم Conflict of Interestکہتے ہیں۔ آج ہمارے لوگ حکمران بھی ہیں۔ بڑے عہدوں پر فائز بھی ہیں۔ اور اپنی کمپنی ، کاروبار بھی چلا رہے ہیں۔ اپنی سرکاری حیثیت کو اپنی زاتی سرگرمیوں کے لئے بروئے کار لاتے ہیں۔ سفارش اور رشوت بھی عام ہے۔ حضرت عمرؓجب خلیفہ بنے تو اتنا وظیفہ مقرر کیا جس قدر ضرورت تھی۔ جب کبھی اس میں سے بچت کرتے ہوئے کوئی نیا پکوان تیار ہو جاتا تو وظیفے میں کمی کر دیتے۔ جب کبھی وظیفہ میں اضافہ کی بات چلتی تو فرماتے کہ ضرورت ہوئی تو پہلے میں مزدور کی اجرت میں اضافہ کریں گے اور اس کے برابر اپنا وظیفہ مقرر کریں گے۔ دنیا کی عظیم شخصیت، جنت کی بشارت، اس پر دیانت، امانت، ایمانداری، خلوص ۔ اﷲ اکبر۔ ہمارے خلیفہ نے اپنی تنخواہ مزدور کے برابر رکھی۔ لیکن ہم فرعون بن رہے ہیں۔ مزدور ، ملازم کی تنخواہ بڑھانے کی کوئی فکر نہیں ۔یہ امتیاز، طبقہ بندیاں، اونچ نیچ ہی ظلم اور نا انصافی ہے۔ جس نے مساوات کے تصور کو برباد کر دیا ہے۔
 
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555815 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More