حضرت عبداللہ بن مبارک رحمتہ اﷲ علیہ

سعدی کے قلم سے
اﷲ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے ہیں کہ اُن کے تذکرے سے اﷲ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے. اُمت مسلمہ کے امام، مجاہدین کے سردار حضرت عبداﷲ بن مبارک(رح) بھی اُنہی شخصیات میں سے ہیں. یہ بات اُمت کے ایک اور امام حضرت نووی(رح) ان الفاظ میں سمجھاتے ہیں: حضرت عبداﷲ بن مبارک(رح) وہ شخصیت ہیں جن کی امامت اور جلالت پر اُمت کا اتفاق ہے. وہ ایسے شخص ہیں جن کے تذکرے سے رحمت نازل ہوتی ہے. اور جن سے محبت پر مغفرت کی اُمید کی جاتی ہے﴿تہذیب الاسمائ﴾

امام نووی(رح) خود بہت بڑے آدمی ہیں. انہوں نے ماشااﷲ بہت پرنور کتابیں لکھی ہیں. آپ نے اُن کی کتاب’’ریاض الصالحین‘‘ تو ضرور دیکھی ہوگی. امام نووی(رح) ایک رات چراغ کی روشنی میں لکھ رہے تھے. اچانک وہ چراغ بجھ گیا تو اﷲ تعالیٰ نے اُن کی انگلیوں میں روشنی ظاہر فرما دی. اور وہ کافی دیر تک اپنی انگلیوں کی روشنی میں لکھتے رہے. یہ امام نووی(رح) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن مبارک(رح) کے تذکرے سے اﷲ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے. واقعی بالکل سچ فرمایا. آپ انشا اﷲ آج ہی اس کا تجربہ کر لیں گے. مجھے اصل میں تو حضرت عبداﷲ بن مبارک(رح) کا ’’جہاد‘‘ بیان کرنا ہے. وہ اُمت کے کامیاب ترین مجاہدین میں سے تھے. اور اُن کے جہاد کو دیکھ کر مجاہدین اپنے جہاد کو درست اور مقبول بنا سکتے ہیں. مگر اُن کے جہاد سے پہلے اُن کی زندگی کے کچھ دیگر حالات عرض کئے جاتے ہیں. تاکہ آپ سب حضرت عبداﷲ بن مبارک(رح) کی شخصیت اور مقام سے کسی قدر واقف ہو جائیں. اُن کے خاندان کے بارے میں چند باتیں گزشتہ کالم میں عرض کر دی گئیں تھیں. آج اُن کی کچھ دیگر صفات کو بیان کیا جارہا ہے. آپ حیران ہوں گے کہ جب اُمت مسلمہ کے بڑے مجاہدین کا تذکرہ لکھا جاتا ہے تو ان میں حضرت عبداﷲ بن مبارک(رح) پہلی صف میں نظر آتے ہیں. اور جب صوفیا کرام کا تذکرہ لکھا جاتا ہے تو اس میں بھی حضرت عبداﷲ بن مبارک(رح) پہلی صف میں موجود ہوتے ہیں. حضرت ہجویری(رح) نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں اُن کا تذکرہ بڑے صوفیا کرام میں فرمایا ہے. اسی طرح جب اُمت مسلمہ کے فقہا، حفاظ اور محدّثین کا تذکرہ آتا ہے تو اس میں بھی حضرت عبداﷲ بن مبارک(رح) پہلی صف میں شمار کئے جاتے ہیں. آپ اپنی عمر کے ابتدائی زمانے کچھ غفلت میں پڑگئے تھے. بڑے رئیس زادے تھے پیسے نے اثر دکھایا تو لہو و لعب میں مشغول ہو گئے. مگر جب عمر بیس سال کی ہوئی تو اﷲ تعالیٰ نے آپ پر توبہ، محبت، معرفت، علم اور جہاد کا دروازہ کھول دیا. آپ کی توبہ کا واقعہ بھی بہت عجیب ہے جو انشا اﷲ اگلی کسی مجلس میں عرض کیا جائے گا. آج ملاحظہ فرمائیے حیات ابن مبارک(رح) کے کچھ بکھرے اوراق.

مثالی سخاوت
آپ بڑے مالدار تھے. وراثت میں کافی مال ملا تھا اور تجارت بھی کرتے تھے تاکہ فقرا پر خرچ کریں، مجاہدین کو کھلائیں پلائیں اور طلبہ حدیث کی خدمت کریں، حج کریں. اور لوگوں کو حج کروائیں اور جہاد میں اپنا اور اپنے رفقا کا خرچہ برداشت کریں. ایک بار مشہور تارک الدنیا بزرگ حضرت فضیل بن عباس(رح) سے ارشاد فرمایا: اگر آپ اور آپ جیسے لوگ نہ ہوتے تو میں تجارت نہ کرتا﴿تہذیب التہذیب﴾

یعنی آپ جیسے لوگ دنیا چھوڑ کر عبادت اور دین کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں. میں آپ کی خدمت کرنے کے لئے تجارت کرتا ہوں. اﷲ تعالیٰ نے حضرت عبداﷲ بن مبارک(رح) کے مال میں خوب برکت عطا فرمائی تھی. وہ خیر کے کاموں میں خرچ کرتے جاتے تھے اور اُن کا مال اور بڑھتا جاتا تھا. تھوڑا سا اندازہ لگائیں کہ ہر سال فقرا کرام پر ایک لاکھ درہم خرچ کرتے تھے.

ایک سال جہاد پر جاتے اور سارا خرچہ خود کرتے اور دوسرے سال حج پر جاتے تب بھی اپنا اور اپنے رفقا کا خرچہ خود اٹھاتے. جہاد میں مال غنیمت بھی نہیں لیتے تھے اور حج پر اپنے رفقا کو اچھے کھانے کھلاتے اور گھر والوں کے لئے سامان بھی خرید کر دیتے تھے.

کبھی اکیلے کھانا نہیں کھاتے تھے، ہمیشہ علما طلبہ اور دیگر مہمانوں کو بُلاتے اور بڑے بڑے دستر خوان بچھا کر انہیں کھانا کھلاتے. اور طرح طرح کے فالودے بنوا کر انہیں پیش کرتے. انہیں اپنے والد محترم کی وراثت میں سے جو چھ لاکھ درہم ملے ان میں سے بھی. چار لاکھ ساٹھ ہزار درہم خیر کے کاموں میں خرچ کر دیئے. بے شک خیر کے کاموں میں سخاوت. اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے. بہت ہی عظیم نعمت .

حُسنِ اخلاق
حضرت عبدا ﷲ بن مبارک(رح) ’’حُسنِ اخلاق‘‘ میں اپنی مثال آپ تھے. اُن کے اخلاق بناوٹی نہیں تھے کہ. لوگوں میں شہرت اور عزت حاصل کرنے کے لئے ہوں. بلکہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کی فطرت اور خصلت ہی ایسی بنائی تھی کہ ماشا اﷲ حُسنِ اخلاق کا پیکر نظر آتے تھے. اور پھر امانتدار اور متقی والدین کی تربیت نے بھی خوب رنگ جمایا. مشہور محدّث حضرت اسماعیل بن عیاش(رح) فرماتے ہیں:

روئے زمین پر عبداﷲ بن مبارک(رح) جیسا﴿اُن کے زمانے میں﴾ کوئی نہیں ہے. اور میرے علم کے مطابق اﷲ تعالیٰ نے خیر کی جتنی بھی عادتیں اور خصلتیں پیدا فرمائی ہیں. اُن سب سے عبداﷲ بن مبارک(رح) کو حصہ عطائ فرمایا ہے ﴿ سیر اعلام النبلائ﴾

حضرت نعیم بن حماد(رح) فرماتے ہیں. میں نے عبدالرحمن بن مہدی(رح) سے پوچھا کہ. عبداﷲ بن مبارک(رح) اور سفیان بن عیینہ(رح) میں سے کون افضل ہے؟. فرمایا عبداﷲ بن مبارک!. میں نے عرض کیا لوگ آپ کی یہ بات نہیں مانتے. ارشاد فرمایا لوگوں نے قریب سے نہیں دیکھا. ورنہ عبداﷲ بن مبارک(رح) جیسا کوئی نہیں ہے﴿تہذیب الاسمائ﴾

حضرت عبداﷲ بن مبارک(رح). اتنے بلند مقام کے باوجود تواضع اختیار فرماتے تھے. اپنی گردن پر لکڑیاں لادتے. اور ننگے پاؤں بازار سے چیز خرید لاتے. اور حضرت سفیان بن عیینہ(رح) جیسے بزرگوں کے سامنے کسی کو مسئلہ بتانا بے ادبی سمجھتے تھے. ایک بار کسی نے پوچھا کہ. حضرت! تواضع کسے کہتے ہیں؟.ارشاد فرمایا مالداروں کے سامنے تکبّر کرنا. اﷲ اکبر کبیرا. یعنی انسان مال اور دنیا کے لالچ میں اپنے نفس کو ذلیل نہ کرے. آپ سے پوچھا گیا کہ تکبر کسے کہتے ہیں؟. ارشاد فرمایا لوگوں کو حقیر سمجھنا.

مثالی تقویٰ
عبادت اور تقویٰ کے معاملے میں عبداﷲ بن مبارک(رح) پر اﷲ تعالیٰ کا بہت فضل تھا. جہاد میں نکل کر ساری ساری رات عبادت کرنا. مجاہدین کے لشکر کی پہرے داری کرنا. سفر کے دوران اپنے کجاوے میں نفل نماز کا مسلسل اہتمام کرنا. راتوں کو اپنے رفقا کو سُلا کر خود چھپ کر نماز ادا کرنا. سفر کے دوران اپنے رفقا کو قیمتی حلوے کھلانا اور خود روزے سے رہنا. اﷲ تعالیٰ کے خوف سے اتنا رونا کہ داڑھی مبارک تر ہو جاتی. اور پھر اپنے تقوے اور عبادت کو لوگوں سے چھپانا. حضرت احمد بن حنبل(رح) فرماتے ہیں کہ عبداﷲ بن مبارک(رح) کواﷲ تعالیٰ نے اتنا اونچا مقام اُن کی مخفی عبادت کی وجہ سے عطا فرمایا ہے. اور خود حضرت عبداﷲ بن مبارک(رح) فرماتے تھے کہ تم میں سے جو اﷲ تعالیٰ سے جتنا ڈرتا ہے وہ اتنا بڑا عالم ہے. آپ جب بغداد تشریف لائے تو وہاں کے حکمران کچھ ظالم تھے. آپ کو شبہ ہوا کہ میرا اس شہر میں قیام کرنا ٹھیک ہے یا نہیں؟. چنانچہ آپ روزانہ ایک دینار صدقہ کرتے تھے. تاکہ اس شہر میں قیام کا جو گناہ ہے اُس کا کفارہ ہو جائے. ایک بار آپ نے ملکِ شام میں ایک شخص سے اُس کا قلم عاریۃً لیا اور اُسے واپس کرنا بھول گئے اور خراسان تشریف لے گئے. خراسان پہنچ کر آپ (رح) کو یاد آیا تو. صرف قلم واپس لوٹانے کے لئے شام کا سفر فرمایا. سفرِ وفات میں آپ کو ستّو پینے کی رغبت ہوئی. رفقا نے ستّو تلاش کیا تو وہ صرف ایک آدمی کے پاس تھا جو بادشاہ کے ہاں ملازم تھا. رفقا نے آپ کو صورتحال بتائی تو آپ نے لینے سے منع فرما دیا.اور ستّو پئے بغیر اس دنیا سے تشریف لے گئے. جی ہاں وہ شخص نے جس نے ساری زندگی لوگوں کو طرح طرح کے کھانے کھلائے اور مشروبات پلائے. وہ اپنی زندگی کی آخری گھڑیوں میں ستّو بھی نہ پی سکا. اسے کہتے ہیں امانت اور اسے کہتے ہیں تقویٰ کہ کسی حال میں بھی انسان اﷲ تعالیٰ کے خوف سے غافل نہ ہو. اور نہ ہی کسی مجبوری کا بہانہ بنا کر مشتبہ چیزوں میں منہ مارے.

سبحان اﷲ!. اﷲ تعالیٰ کے انعامات دیکھئے. اُمت کا امام ، فخر المجاہدین، تارک الدنیا لوگوں کے قائد. سخی، بہادر، باحیا، عفیف، متقی، بہادر، جانباز. بہترین گھڑسوا ر. اور زمانے کے مایہ ناز محدّث. رحمہ اﷲ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ.

سرکاری عہدوں سے پرہیز
اُس زمانے کے حکّام ہمارے دور کے حکمرانوں سے بہت نیک، متقی اور غیرت مند تھے. وہ جہاد کے لئے خود بھی نکلتے تھے اور اسلامی لشکروں کو بھی دور دراز علاقوں میں جہاد پر بھیجتے تھے. مگر اس کے باوجود حضرت عبداﷲ بن مبارک(رح) . ان حکام سے دور رہے اور انہوں نے سرکاری عہدے قبول نہ کرنے میں. اپنے محبوب استاذ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ(رح) کی مکمل پیروی کی. اورآپ(رح) ہمیشہ حضرت امام ابو حنیفہ(رح) کی اس بات پر تعریف کرتے تھے کہ انہوں نے قاضی القضاۃ کے عہدے کو ٹھکرایا. چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں: میں نے ابو حنیفہ(رح) سے زیادہ متقی کوئی نہیں دیکھا انہیں کوڑوں اور اموال کے ذریعہ آزمایا گیا﴿تاریخ بغداد للخطیب﴾

حضرت عبداﷲ بن مبارک(رح) حکمرانوں سے دور دور رہے تو اﷲ تعالیٰ نے انہیں لوگوں کے دلوں پر حکومت عطا فرما دی. ایک بار خلیفہ ہارون الرشید رقّہ شہر میں تھے. حضرت عبداﷲ بن مبارک(رح) بھی وہاں تشریف لے آئے تو لوگ اُن کی زیارت کے لئے ٹوٹ پڑے. زیارت کرنے والوں کا اتنا مجمع تھا کہ لوگوں کے جوتے ٹوٹ گئے اور فضا غبار سے بھر گئی. ہارون الرشید کی ایک باندی نے خلیفہ کے محل کے بُرج سے یہ منظر دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟. اُسے بتایا گیا کہ خراسان کے ایک عالم جن کا نام عبداﷲ بن مبارک(رح) ہے’’رقّہ‘‘ تشریف لائے ہیں. وہ کہنے لگی. اﷲ کی قسم بادشاہت تو یہ ہے. اس کے مقابلے میں ہارون الرشید کی بادشاہت کیا ہے کہ لوگوں کو پولیس کے ذریعہ جمع کیا جاتا ہے.

فقرا والی موت
آپ(رح) کا انتقال جہاد سے واپسی پر حالت سفر میں ہوا. جب موت کا وقت قریب آیا تو اپنے آزاد کردہ غلام ’’نصر‘‘ سے فرمایا. میرا سر مٹی پر رکھ دو. غلام رونے لگا. ارشاد فرمایا کیوں روتے ہو؟. وہ کہنے لگا مجھے یہ بات رُلا رہی ہے کہ آپ کیسی نازو نعمت والی زندگی میں تھے اور اب فقیری اور مسافری کی حالت میں اس دنیا سے جا رہے ہیں. ارشاد فرمایا :چپ ہو جاؤ میں نے اﷲ تبارک و تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ. مجھے اغنیا والی زندگی اور فقرا والی موت عطا فرمائے. پھر ارشاد فرمایا. اب مجھے کلمے کی تلقین کرتے رہو، کوئی اور بات نہ کرو.﴿ابن عساکر﴾

جہاد سب سے افضل عمل
مشہور عابد اور محدّث حضرت فضیل بن عیاض(رح) کے بیٹے’’محمد(رح) ‘‘ فرماتے ہیں: میں نے حضرت عبداﷲ بن مبارک(رح) کو خواب میں دیکھا تو پوچھا: آپ نے کس عمل کو افضل پایا؟. ارشاد فرمایا وہی عمل جس میں لگا ہوا تھا. میں نے پوچھا یعنی رباط اور جہاد. ارشاد فرمایا جی ہاں. میں نے عرض کیا آپ کے رب نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟.ارشاد فرمایا . میرے رب نے مجھے پکّی مغفرت عطا فرما دی اور میرے ساتھ حور عین نے گفتگو کی. ﴿صفۃ الصفوۃ﴾

اﷲ تعالیٰ حضرت عبداﷲ بن مبارک(رح) کے درجات بلند فرمائے. ہم سب مسلمانوں کو بھی اُن جیسی مبارک صفات نصیب فرمائے . آمین یا ارحم الراحمین

اللھم صل علی سیدنا و مولانا محمد النبی الطَّاہر الزکیّ صلوٰۃً تُحَلُّ بھا العُقَدُ وتُفَکُّ بھا الکُرَب وعلی الہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 210787 views A Simple Person, Nothing Special.. View More