بجٹ اور پاناما لیکس

ایک مشہور پنجابی محاورہ ہے ؛آپ لڑی ویندی ہائی دوجھیاں نو متیں پئی دیندی ہائی؛وفاقی حکومت اس وقت نام نہاد عوام دوست بجٹ دینے کے قریب ہے جو کہ بنیادی طور پر عوام کو اور زیادہ ذلیل کرنے کے مترادف ہے ۔بجٹ میں ان ضروریات زندگی کی اشیاء پر با لعموم ٹیکس لگایا جا رہا ہے جس پر ہر ایک شخص کا سالانہ 34 فیصد بجٹ خرچ ہوتا ہے اور اس پرظلم یہ کہ ان سے بنائی گئی دیگر اشیاء دودھ پر اور دودھ سے بنے دہی پر الگ الگ شرح میں ٹیکس ایسے ہی گوشت پر الگ اور گوشت سے بنی مصنوعات پر الگ سے ٹیکس جبکہ پیٹرولیم مصنوعات اور پیٹرول کی قیمتوں میں پہلے ہی اضافہ کیا جا چکا ہے اور آگے ماہ رمضان کی بھی آمد ہے مطلب کہنے کا یہ ہے کہ پھر سے غریب کو ختم کرنے کا ایک بڑا لائحہ عمل تیار کر لیا گیا ہے!انڈیا میں اور کئی دیگر غیر مسلم ممالک جن میں مسلمان اقلیتی قوم بن کر رہ رہے ہیں کو ماہ رمضان میں اشیا ء خوردونوش کی قیمتوں میں واضع ریلیف دیا جاتاہے اور ہر ممکن ان کے ساتھ تعاون کیا جاتا ہے یہاں تک کہ مسلمانوں کے جذبات کا بھی بالخصوص خیال رکھا جاتا ہے لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سب جاننے کے با وجود کہ رمضان المبارک میں ایک عام عادمی کا گزر بسر کن مشکلات میں ہو تا ہے اور زیادہ مہنگائی کر دی جاتی ہے اور ہمیشہ ہی سے کاروباری لوگوں کی کمر پر تھپکی دی جاتی ہے نہ کہ غریب کا احساس کیا جاتا ہے ۔ٹیکس کاقانون حضرت عمرؓکے دور حکومت میں رائج کیا گیا تھا جس کے بارے میں انکا مشہورزما نہ قول ہے کہ اگر کسی کے پاس ایک اونٹ کی رسی بھی رہ گئی ہو گی تو میں وہ بھی وصول کروں گا ۔اصل میں ٹیکس کی صورت میں اس وقت زکوٰۃاکٹھی کی جاتی تھی جس سے غریبوں کو بلا تفریق فائدہ ہوتا تھا اورہر شخص اپنے حصے کا ٹیکس پورے وقت پر دیا کرتا تھا اس وقت اسلامی قوانین کو اتنی مضبوطی کے ساتھ رائج کیا گیا تھا کہ ہر جرم کرنے والے کو وقت پر سزابلاامتیاز دی جاتی تھی جو چور ہوتا اسکے ہاتھ کاٹ دئے جاتے اور جو نا حق قتل کرتا تھا اس کا سر قلم کر دیا جاتا! اصل میں اس وقت کی خلافت ہی حقیقی جمہوریت تھی کہ جس میں اقتدار کی طاقت گورنروں کے روپ میں نچلی سطح تک پھیلا دی گئی تھی ۔ لیکن اب جمہوریت اس کے برعکس ہے اس جمہوریت میں لبرل ازم کا چہرہ جھلکتا ہے جس میں اسلامی قوانین کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے اس وقت جو پاکستانی حکومت بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے وہ با لکل عوام مخالف ہے اور بجلی کے شارٹ فال سے لے کر بے وجہ ٹیکس لگانے تک سب بڑے مظالم ہیں۔ ٹیکس لگانے کے پیچھے حکومت جو فیکٹر بتاتی ہے وہ آئی ایم ایف کا قرض ہے جو کہ اس وقت 70 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور امسال آئی ایم ایف سے پانچ ارب ڈالر قرض لیا جا چکا ہے اگر اسی لحاظ سے دیکھا جائے تو ایک اندازے کے مطابق یہ ہی قرض 2018 تک اسی سے پچاسی ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا لیکن پاکستانی عوام اور پاکستان کو کچھ بھی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ جب پہلے ہی اتنے قرض لینے اور اتنے بڑے بڑے پروجیکٹس کے معاہدو ں کے با وجود عوام کو ریلیف دینے کی بجائے عوام پر ہی اس کا ملبہ ڈال دیا گیا یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے بڑے معاہدے کئے گئے ،کیا حکومت نے کبھی کریڈیبلٹی بھی دیکھی کہ کیا اس کیلئے ہمارے پاس وسائل موجود ہیں یا نہیں یا اگر ہم ان کوتعمیل کرنا شروع کرتے ہیں تو اس سے پاکستان کی معیشت پر کیا بحران متوقع ہے؟ ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ حکومت عوام سے کس منہ سے ٹیکس مانگ رہی ہے کہ جب وہ خود تو ٹیکس چور ہیں اور ٹیکس چوری کر کے قوم کے پیسے سے آف شور کمپنیاں کھڑی کر دیں ہیں اورٹیکس سے بھرا بجٹ بنا کر لے آئے ہیں ؟؟ انکے بچے خود تو باہر پڑھتے ہیں اور یہ ٹیکس عوام سے مانگتے ہیں ؟ ٹیکس چوری کر کے انگلینڈ اور دوسرے ممالک میں ہوٹل وغیرہ خریدے گئے ہیں کئی فلیٹس اور یہاں تک سٹریٹس بھی خریدی گئیں ہیں پہلے عوام کا وہ پیسہ تو واپس کریں اس کے بعد نئے ٹیکس کی ڈیمانڈ کریں !!یہاں یہ بھی کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ تو صرف ایک روپیہ پکڑا گیا ہے ابھی نو ہزار نو سو ننانوے روپے تو باقی ہیں کیونکہ جب بھی کوئی چوری پکڑی جائے تو جو منظر عام پر اعدادوشمار ہوتے ہیں وہ ایک فیصد سے بھی کم ہوتے ہیں۔اس بار تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ملک کا بجٹ پاناما لیکس کے ساتھ جڑ جائے گا۔ سب لوگ جن کا نام پاناما لیکس میں ہے آف شور کمپنیوں کے مالک نکلے ہیں حقیقت میں ان کا اصل پیسہ اس سے دس ہزار گناہ زیادہ ہے اور یہ حقیقت آنے والے وقتوں میں ننگی ہونے والی ہے۔ملک کا قرض 70 ارب ڈالر ہے اور انکا پیسہ 200 ارب ڈالر ہے جو باہر پڑا ہے ؟خود کو احتساب کیلئے پیش کرنے کی بجائے سو سال کی کہانی سناتے ہیں کہ یہ کیسے امیر ہوئے اور یہ کتنے کامیاب بزنس مین ہیں ؟میاں صاحب قوم کو یہ جواب دینا پسند نہیں کرتے کہ جب 1972 میں آپ کے پاس صرف اسی ہزار روپیہ رہ گیا تھا جیسا کہ آپنے اپنے خطاب میں قبول بھی کیا تھا !آپ نے دوبئی میں آئرن مل کیسے خرید لی ؟؟اس دفعہ جمہوریت کے ساتھ ساتھ روایات اور سب سے بڑا خطرہ اسلام کو بھی ہے ۔اسکے علاوہ بڑے بڑے ماہر معاشیات کو بھی بقدر جثہ خریدا گیا ہے کہ جو ٹی وی پر بیٹھ کر بجٹ اور حکومت کے گن گائیں گے کہ یہ بہت اچھا قدم ہے اور عوام دوست بجٹ ہے اور تو اور کئی بڑے میڈیا پرسن کی بھی قیمتیں لگائی جاتیں ہیں جو حکومت کے گن گاتے ہیں سب چیزیں سامنے آ رہی ہیں چاہے جو مرضی خرید لیں !اگر عوام اس بات پر ایک ہو جائیں گے کہ ٹیکس کیوں دیں !یہ تو ملزمان ہیں! اور یہ ٹیکس لینے والے کون ہیں ؟یہ باتیں سامنے ہیں کہ اس بار پاناما لیکس سے ان کی جان نہیں چھوٹنے والی یہ آخر تک ان کا پیچھا کرے گی ۔ سیاست کا بنیادی اصول یہ ہے کہ خود کو احتساب کیلئے پیش کرتے جیسا کہ عمران خان نے کہا کہ ہے میں تیار ہوں میرا احتساب کیا جا ئے اسی طرح میاں صاحب کو بھی چاہئے تھا کہ وہ خود کو احتساب کیلئے پیش کرنے کا اعلان کردیں لیکن وہ ابھی تک سوچ رہے ہیں اور مشاورت جاری ہے نظریاتی طور پر اسلامی جماعتوں کو چاہئے تھاکہ جس جس نے آف شور کمپنیاں بنائی ہیں اور ٹیکس چوری کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں ان کے خلاف ہاتھ کاٹ دینے والے اسلامی قانون کو رائج کروانے پر زور دیتے ۔ اور تمام مذہبی جماعتوں کے سربراہان کو بھی کھلے عام خود کو احتساب کیلئے پیش کر دینا چاہئے تھا لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا!کسی نے اخلاقی جرأت نہیں کی سوائے عمران خان کے اس کے علاوہ عام لوگوں میں یہ چہ مگوئیاں بھی زیر لب ہیں کہ یہ سارے چور ہیں !سب فراڈ ہیں !میاں صاحب چور ہیں عوام کا پیسہ لے کر بھاگ رہے ہیں پارلیمنٹ والے سارے کے سارے چور ہیں!انہوں نے ملک کیلئے کچھ نہیں کرنا اور نہ ہی کچھ کر سکتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح سے گورنمنٹ کیسے کام چلا سکتی ہے؟ ہیڈ آف سٹیٹ کے ساتھ مل رہے ہیں معاہدے سائن ہو رہے ہیں لیکن کریڈیبلٹی نہ ہو! اور دو اداروں کے چیف سپریم کورٹ آف پاکستان اور آرمڈ فورسز وارن کر چکے ہوں تو ان کو سوچنا چاہئے کہ جمہوریت کیسے چلنی چاہئے؟ اور جمہوریت کا چلنا بھی ضروری ہے! لیکن ایسے لوگ کرنے بھی نہیں دیں گے کہ یہ ہر بار کی طرح نیچے اوپر ہو کر نکل جائیں چوہے بلی کا کھیل آخرکب تک چلنے دیں گے؟ ایسے میں وفاقی حکومت سے ایک التماس ہے کہ وہ عوام سے ٹیکس لینے کو یقینی بنانے کیلئے سب سے پہلے خود ٹیکس مکمل ادا کرے اور خود کو احتساب کیلئے پیش کرے جو پیسہ آف شور کمپنیوں کی مد میں اکٹھا کیاگیا اور ٹیکس چوری کیا ایک ایک پائی حکومتی خزانے میں جمع کروائیں اور اگر ان کا یہ غصب کردہ دو سو ارب ڈالر حکومتی خزانے میں بڑی ایمانداری کے ساتھ جمع کروا دیں تو ملک کی معیشت بھی بہتر ہو جائے گی اور اس اخلاقی جرأت سے عمر بھر کیلئے یہ قوم کے ہیرو بھی بن جائیں گے ۔یوں نظر آتا ہے کہ ملک کے معاشی حالات میں بہتری اسی برائی میں سے ہی نکلے گی! پاناما لیکس ان کی جان نہیں چھوڑے گی اور جمہوریت کے خلاف تو کوئی نہیں ہے لیکن جمہوریت کے نام پر ایسی ڈکٹیٹر شپ کے سبھی خلاف ہیں کہ جس میں کوئی احتساب نہ رکھا گیا ہو عدل و انصاف کا معیار ٹرمز آف ریفرنس پر مروجہ ہو۔عوام اچھی طرح سے جانتی ہے کہ جمہوریت کو کیسے رکھنا ہے اور ان چوروں کو ان کے منطقی انجام تک کیسے پہنچانا ہے ۔
 
Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 190196 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More