ٹی وی چینلز پر اخلاق کا کھلواڑ
(عابد محمود عزام, Karachi)
ٹی وی چینلز پر اخلاقیات کا کھلواڑ....حکومت
و پیمرا خاموش تماشائی
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ میڈیا انتہائی پراثر اور وسیع حلقہ رکھنے والی
طاقت ہے۔ ماضی میں میڈیا صرف اخبار کا نام تھا، اب میڈیا سیکٹر میں
الیکٹرانک میڈیا کا طوطی بولتا ہے۔ اگرچہ زمانہ تیز سے تیزتر ہورہا ہے، مگر
ہمارا میڈیا اس سے بھی دو چار قدم آگے نکلنے کو بے تاب ہے، چاہے اس کے لیے
سماجی قدروں، تہذیبی اطوار اور مذہبی تعلیمات کی حرمت کو پامال کرنا پڑے۔
ملک میں سو سے زاید ٹی وی چینل ہیں۔ ایک زمانے میں صرف سرکاری ٹی وی کا راج
تھا، لیکن ملک میں مواصلات کے شعبے میں انقلاب آیا تو ٹی وی چینلوں کی لائن
لگ گئی۔ پرویز مشرف کے دور میں لائسنس کے ساتھ انہیں ہر طرح کی آزادی بھی
دے دی گئی۔ میڈیا نے صنعت کی شکل اختیار کی، اشتہارات اس صنعت کی نشونما و
تزئین و آرایش کا میٹریل بنے اور اشتہارات کی سالانہ مالیت لگ بھگ ساٹھ ستر
ارب روپے کا تعین ریٹنگ پر ہوتا ہے۔ ریٹنگ کی بنا پر چینلوں کوکم یا زیادہ
اشتہارات ملتے ہیں، اسی لیے ہر چینل میں بعض لوگوں کی دل کی دھڑکن ریٹنگ کے
ساتھ اوپر نیچے ہوتی ہے، ریٹنگ کی خاطر ان کے ہاں مداری بننا بھی کوئی عیب
نہیں اور ساری دنیا کے سامنے نیچ حرکتیں کرنا بھی کوئی عار کی بات نہیں۔ اس
لیے ریٹنگ کی دوڑ میں بازی لے جانے کے لیے دوسرے چینلوں کو چت کرناضروری
ٹھہرا۔ چینلزکی آپسی مسابقت میں جہاں میڈیا نے عوام میں قائم اپنے اعتماد،
اعتبار اور وقار کا گلاگھونٹا،وہیں مقصدیت کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ دوسرے
چینلز کو شکست دینے کے لیے ہر وہ چیز دکھائی جانے لگی جس سے ریٹنگ بڑھتی ہو،
خواہ قوم کے اذہان پر منفی اثرات ہی مرتب ہوں اور مذہب و عبادات کے ساتھ
کھلواڑ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ ریٹنگ کی اس دوڑ میں ایک طرف تو چینلز نے
گرماگرم ٹاک شوز، مار دھاڑ پر مبنی پروگرام اور چیختی چنگھاڑتی بریکنگ نیوز
کا سلسلہ شروع کیا، جبکہ دوسری جانب ناظرین کی آنکھوں کو خیرہ کرنے کے لیے
عورت کو بطور آلہ اور ذریعہ استعمال کرتے ہوئے ٹی وی اسکرین پراخلاقی اقدار
سے گرے ہوئے اشتہارات اور مغربی و بھارتی تہذیب میں گندھے ہوئے پروگرام
دکھائے جانے لگے، جن کے خلاف کئی بار ملک میں عوامی سطح پر بڑے مظاہرے کیے
گئے اور سپریم کورٹ میں ان کی روک تھام کے لیے درخواستیں بھی دائر کئی گئیں،
لیکن اس کے باوجود آج تک ٹی وی پر وہی کچھ دکھایا جارہا ہے جو ہماری
معاشرتی اقدار سے کسی طور بھی میل نہیں کھاتا۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے ٹی
وی چینلز پر فحش اور غیر اخلاقی پروگرام نشر کر نے کے خلاف آئینی درخواستو
ں کی سماعت کرتے ہوئے پیمرا اور پی ٹی اے سے مفصل جواب طلب کیا ہے۔ دوران
سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جما لی نے ریمارکس د یتے ہوئے کہا کہ ٹی وی چینلز
پر پروگرام کرنے کے لیے پیسے طے ہوتے ہیں اور جس کی چاہے پگڑی اچھال دی
جاتی ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ٹاک شوز میں بد زبانی کی جاتی ہے ،
میڈیا کو تنقید کا حق حاصل ہے لیکن ریڈ لائن پار نہیں کرنی چا ہیے۔ ضابطہ
اخلاق کو پیمرا والوں نے بھی ٹھیک سے نہیں سمجھا۔پیمرا کے وکیل نے بتایا کہ
پیمرانے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے ٹی وی چینلز کو نوٹس جاری کیے
ہیں، پیمرا قوانین کو مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ
پیمرا صرف ہدایات اور وار ننگ ہی جاری کرتا ہے ، اگر ضابطہ اخلاق پر
باضابطہ عملدرآمد ہوتو سارے مسائل حل ہو جائیں، ایسی سزائیں دینے کی ضرورت
ہے جو مثال بن جائیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ حیرت کی بات ہے ایک طرف ممتاز
قادری کی پھانسی کے بعد پیمرا یعنی پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری
اتھارٹی ایک انتباہ جاری کرتا ہے تو تمام چینلز آزادی اظہار رائے کو بھول
کر چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں، لیکن ٹی وی چینلز پر بے ہودگی و بے حیائی کی
روک تھام کی بات آتی ہے تو سب کو اپنی مرضی کے مطابق پروگرام دکھانے کی
آزادی ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ پیمرا نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے
والے ٹی وی چینلز کو نوٹس جاری کیے ہیں۔ اگر ممتاز قادری کے معاملے میں
پیمرا کی وارننگ پر تمام چینلز پر خاموشی چھا سکتی ہے تو پھر بے ہودگی و بے
حیائی کی روک تھام کیوں نہیں ہوسکتی؟ جسٹس شیخ عظمت نے بجا کہا ہے کہ پیمرا
صرف ہدایات اور وار ننگ ہی جاری کرتا ہے ، اگر ضابطہ اخلاق پر باضابطہ
عملدرآمد ہوتو سارے مسائل حل ہو جائیں۔
واضح رہے کہ قانونی طور پر ملک میں میڈیا کی تشہیر اور کیبل آپریٹرز کے
حوالے سے ضابطہ اخلاق یہ ہے کہ کسی بھی طریقے سے بے شرمی پر ابھارنے،
شہوانی جذبات بھڑکانے، غیر شائستہ اور توہین آمیز خیالات کی تشہیر کی اجازت
نہیں ہے اور پاکستانی قوم بھی تہذیب و تمدن اور مذہب کے حوالے سے کسی بھی
قسم کا سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتی۔ اس لیے متعلقہ ادارے پیمرا
کی ذمہ داری ہے کہ وہ ذرایع ابلاغ کو ناشائستگی، غیر سنجیدگی، قومی اقدار
کے منافی میڈیائی تفریح سے محفوظ رکھے، لیکن ٹی وی چینلز ریٹنگ کے چکر میں
تمام حدود پار کرجاتے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ چند روز کے بعد
رمضان المبارک شروع ہونے والا ہے اور ہر سال رمضان المبارک کے مہینے میں ٹی
وی چینلز پر رمضان پروگرام کے نام پر جو کچھ دکھایا جاتا ہے، وہ سراسر بے
ہودگی اور مذہب و عبادات سے مذاق ہے۔ رمضان نیکیوں کے موسم بہار کا مہینہ
ہے۔ اس ماہ مبارک میں ہر مسلمان نیکی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔ عام دنوں
کے مقابلے میں اس ماہ اللہ کے ہاں بھی نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا
ہے اور نیکیوں کے مواقع بھی بڑھ جاتے ہیں، جن کا تقاضا ہے کہ ہر مسلمان بڑھ
چڑھ کر اپنے مولا کو راضی کرنے کی فکر کرے اور اس ماہ کا ایک ایک لمحہ ضایع
ہونے سے بچائے، لیکن یہاں تو سارا معاملہ برعکس ہے۔ اس بابرکت مہینے میں
شیطان تو قید ہوجاتا ہے، لیکن انسانوں کے روپ میں شیطان کے چیلے آزاد ہو
جاتے ہیں، جوٹی وی چینلوں کے رمضان کے نام پر مخصوص پروگراموں میں عوام کو
عین سحر و افطار کے بابرکت اوقات میں لایعنی باتوں میں مصروف کر کے انہیں
اللہ کی عبادت سے دور کردیتے ہیں۔ سحر و افطار کا قیمتی وقت مسجدوں میں
جاکر دین سیکھنے کی بجائے ٹی وی چینلوں سے بے دینی سیکھنے میں برباد کیا
جاتا ہے۔ اسٹیڈیم کے تماشائیوں کی طرح مخلوط محفلیں سجاکر ماہ مبارک کو
مذاق بنادیا جاتا ہے۔ جو وقت سنجیدگی کے ساتھ اللہ کے سامنے گڑگڑانے کا تھا،
اسے مخلوط محفلوں میں ٹھٹھا مخول اور ہنسی مذاق میں گنوایا جاتا ہے۔رمضان
المبارک اللہ سے عافیت و بھلائی مانگنے کا مہینہ ہے، لیکن ٹی وی چینلوں پر
مداری فنکاروں نے عوام کو موبائل اور لان کے کپڑے مانگنے کے لیے مضحکہ خیز
حرکتیں کرنے پر لگادیا ہے۔
ٹی وی چینلز پر رمضان المبارک کی ٹرانسمیشن میں اکثر چینلوں کے میزبان یا
تو فنکار ہوتے ہیں یا ماڈلز یا سنگرز ہوتے ہیں اور یہ میزبان بغیر کسی
تحقیق کے اظہار خیال فرما رہے ہوتے ہیں، بعض خواتین اینکرز جو بالخصوص
مارننگ شوز اور ماڈلنگ بھی کرتی ہیں۔ ان میں سے اکثر کو دین کی بنیادی
معلومات تک نہیں ہوتیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے مالکان و اینکرز نے رمضان
المبارک کو بھی کھیل تماشا بنا لیا ہے۔ سحری کی نشریات ہوں یا افطار کی،
اچھل کود کے تمام لوازمات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہر چینل ریٹنگ کے چکر میں
زیادہ سنسنی خیزی اور دلچسپی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ دین کا معاملہ ایسا بالکل
نہیں، جیسا میڈیا پیش کرتا ہے۔ ماڈلز، سیاسی پروگراموں، مارننگ شوز اور
کامیڈی شوز کرنے والے لوگ ہرگز کسی عالم دین کی جگہ نہیں لے سکتے۔ ماضی میں
تو رمضان المبارک میں جید علمائے کرام لوگوں کو دین سکھایا کرتے تھے اور
روزے کی برکات، فضائل اور فوائد بیان کرتے تھے۔ ان علمائے کرام کی وجہ سے
دین اسلام کے حوالے سے مستند اور جامع معلومات ہر خاص و عام تک پہنچ جاتی
تھیں، لیکن اب چینلوں نے لوگوں کو جہالت سکھانے والے بھانڈوں کو بھی
علماءبنا کر پیش کردیا ہے، جو عوام الناس کو دین سکھارہے ہیں، چینلز نے
رمضان المبارک کو بھی ایک تہوار کے طور پر پیش کردیا اور اسکالرز اور جید
علمائے کرام کی جگہ ٹی وی فنکاروں اور اینکرز نے لے لی ہے۔ اس میں ہماری
سوسائٹی کا بھی قصور ہے کہ وہ ٹی وی پر علمائے کرام کی بجائے فنکاروں کو
دیکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ٹی وی مالکان یکم رمضان سے عوام کے روزوں کے
ساتھ کھلواڑ کرنے کا سلسلہ شروع کرتے ہیں جو آخر رمضان تک جاری رہتا ہے اور
ملک میں کئی برسوں سے ایسا ہی ہورہا ہے۔ اجتماعی طور پر پوری قوم کو دین کے
نام پر اس بے ہودگی کے پیچھے لگادینا سراسر غیر سنجیدہ و غیر شرعی فعل ہے۔
علمائے کرام کو ان لغو حرکات کے خلاف آواز اٹھانا چاہیے اور چینل مالکان کو
اس بات پر مجبور کرنا چاہیے کہ وہ پیسے اور ریٹنگ کے چکر میں سادہ لوح عوام
کے ساتھ گھناﺅنا مذاق نہ کریں اور حکومت کو ایسے غیرسنجیدہ پروگراموں کی
بندش پر مجبور کرنا چاہیے۔ وقت آگیا ہے کہ بے مہار میڈیا کو لگام دی جائے
اور اسے اصول و ضوابط کا پابند بنایا جائے، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ |
|