تہی دست

ھماری ویب پر ناول آرٹیکلز کےتحت چھپنے والا ایک سیریل "چچا برساتی" اتفاقاً ہی نظر سے گذرا ۔ فرحین ناز طارق کے قلم سے تحریر کردہ اسکی صرف ایک ہی یعنی تازہ ترین قسط پڑھ کر ہم پچھلی تمام اقساط بھی پڑھنے پر مجبور ہو گئے ۔ اور تقریباً ہر قسط کو پڑھ کر ہمارے ذہن میں جو رائے موزوں ہوئی اسکو کمنٹس کی صورت میں لکھنے کی بجائے ہم نے بہتر سمجھا کہ کیوں نہ اسے ایک کالم کی شکل دے دی جائے ۔

یہ تحریر جو بظاہر فکشن نظر آرہی ہے درحقیقت سوسائٹی میں پائے جانے والے ایک فیکٹ ہی پر مبنی تخلیق ہے ۔ ایسے کئی کیس ہم نے دیکھے ہیں کہ پردیس میں دن رات جان توڑ محنت اور اپنا خون پسینہ ایک کرنے والوں کی کمائی پر عیش کرنے والے خود انکے اپنوں خونی رشتوں نے انکی کمر میں خنجر گھونپا ۔ ایک واقعہ تو ابھی حال ہی میں پیش آیا ہے ۔ سالہا سال پردیس میں محنت کرنے والے ایک صاحب کے پاکستان میں خود بنوائے ہوئے بہت اچھے اور بڑے سے مکان کے کاغذات انکے والد کے نام پر تھے جس میں نہ صرف انکے شادی شدہ بھائی رہائش پذیر تھے بلکہ بہنوں نے تک ایک حصہ اپنے قیام کے لئے مخصوص کر رکھا تھا ۔ حقیقت حال سے واقف کئی بہی خواہوں نے انہیں والد کی زندگی میں اسکی ملکیت اپنے نام کرا لینے کا مشورہ دیا ۔ مگر وہ ہنس کے ٹال جاتے تھے انہیں اپنے والدین اور بہن بھائیوں پر بہت اعتماد تھا انکا خیال تھا کہ حقیقت سے تو وہ بھی واقف ہیں لہٰذا مکان کی فروخت کا مسئلہ کبھی اٹھے گا ہی نہیں ۔ لیکن والد کی وفات کے کچھ ہی عرصے بعد بہن بھائیوں نے مکان میں اپنے اپنے حصے کا مطالبہ کر دیا ۔ انہوں نے بہت سمجھایا روکنے کی بہت کوشش کی شرم بھی دلائی مگر وہ نہیں مانے ۔ تنگ آ کر انہوں نے نہ صرف مکان کو فروخت کرنے کی اجازت دے دی بلکہ احتجاجاً خود اپنے حصے سے بھی دستبردار ہو گئے کہ مجھے کچھ بھی نہیں چاہیئے ۔ انہوں نے پاکستان جا کر پیپر سائن کرنے سے انکار کر دیا لہذا اس قانونی سقم کو دور کرنے کے لئے انکا اولادوں کی فہرست میں سے نام ہی خارج کر دیا گیا ۔

تو جناب! یہ صلہ ملتا ہے اپنوں کو ایک خوشحال زندگی دینے کی آرزو لے کر پردیسوں کی خاک چھاننے والے اور اندھا دھند قربانیاں دینے والے سادہ لوحوں کو ۔ خدا کی دی ہوئی عقل اور آنکھوں پر اندھی محبت کی پٹی باندھ کر اپنوں کی سیان پتیوں کو نظرانداز کرتے ہی چلے جانے والوں کا آخر میں یہی حشر ہوتا ہے ۔

اور موجودہ حالات میں دونوں ملکوں کے درمیان جو سردمہری اور کشیدگی کی فضا پیدا ہوئی ہے اور آنے والے حالات بھی غیریقینی ہیں تو اس امکان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ نہ جانے کس وقت پاکستانیوں کو یہاں سے اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑ جائے ۔ جن لوگوں نے اپنا جینا مرنا اس سرزمین کے نام کر دیا ہے اور وہ لوگ جنہوں نے وطن میں اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں بنایا بس اپنوں کے ہاتھوں بیوقوف بننے میں لگے رہے تو خدانخواستہ جب بڑے بےآبرو ہو کے اس کوچے سے نکلیں گے تو وہاں کیسے دو کوڑی کے ہو کے رہ جائیں گے اسکا اندازہ لگانا کوئی مشکل بات نہیں ہے ۔
Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1854463 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.