امن کوششوں پر حملہ……!
(Rana AIjaz Hussain, Multan)
جب سے پاکستان اور برادر دوست ملک چین کے
مابین اقتصادی راہداری منصوبے کا معاہد ہ ہوا ہے ، پاکستان دشمن ممالک اور
بیشتر عالمی قوتوں کی نیندیں اڑچکی ہیں۔یہ معاہدہ پاکستان کی ترقی کے
دشمنوں کی آنکھ کا شہتیر بنا ہوا ہے ، جس پر یہ ممالک کوئی ایسا موقع ہاتھ
سے نہیں جانے دیتے کہ جس سے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو نقصان
پہنچتا ہوں۔ حالیہ دنوں بلوچستان میں امریکی ڈرون حملہ بھی بظاہر پاکستان
کی امن کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی سازش دیکھائی دیتا ہے کہ کسی طرح پاکستان
اور خطے کے دیگر ممالک دہشت گردی کی لپیٹ میں رہیں، اور پاک چین اقتصادی
راہداری منصوبہ آسانی سے پائیہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔بلوچستان کے علاقے میں
موجود ایک گاڑی کو تباہ کرکے کہا جارہا ہے کہ یہاں موجود تحریک طالبان کے
سربرا ہ ملا اختر منصور کو ہلاک کیا گیا ہے ۔ طالبان رہنما ملا اختر منصور
کے ہلاک ہوجانے کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، البتہ شکوک و
شبہات اس حوالے سے پیدا ہو رہے ہیں کہ ملا اختر منصور کی ہلاکت فی الواقع
ڈرون حملے میں ہوئی یا وہ اس حملے سے پہلے ہی ہلاک ہوچکا ہے۔ اس سلسلہ میں
سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے مذہبی امور کے چیئرمین حافظ حمداﷲ نے گزشتہ
روز یہ بیان دیا ہے کہ ملا اختر منصور تو دس ماہ قبل ہی ہلاک ہو چکا ہے
جبکہ ڈرون حملے میں اس کے مارے جانے کی اطلاع امریکہ کا ڈرامہ ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس ڈرون حملے سے ان مذاکرات کو شدید دھچکا لگا ہے
جو پاکستان کی خصوصی کوشش سے بیک ڈور کے ذریعے طالبان ، افغانستان اور
امریکہ کے درمیان مصالحت کرانے کی کوشش میں جاری تھے ۔ ماضی میں امریکہ کی
جانب سے ڈرون حملوں کے ذریعے امن مذاکرات سبوتاژ کئے جاتے رہے ہیں۔ اسی
حکمت عملی کے تحت گزشتہ سال طالبان لیڈر ملا عمر کی ہلاکت کا اعلان عین اس
وقت کیا گیا جب پاکستان کی معاونت سے طالبان کے مختلف گروپوں اور افغان
حکومت کے مابین جاری مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہونے کے قریب تھے۔ چنانچہ
ملا عمر کی ہلاکت کے اعلان کے ساتھ ہی مری میں جاری امن مذاکرات کی بساط
الٹ گئی، اس وقت بھی سیاسی اور عسکری حلقوں میں یہی تاثر پیدا ہوا تھا کہ
ملا عمر تو سخت علالت کے باعث دو سال پہلے ہی انتقال کر گئے تھے جن کے
انتقال کی خبر امن مذاکرات کامیاب بنانے کی خاطر چھپائے رکھی گئی مگر
امریکی لابی کے ایماء پر افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداﷲ عبداﷲ نے ملا عمر
کے انتقال کی خبر افشا کرکے امن مذاکرات سبوتاژکرنے کی امریکی حکمت عملی
کامیاب بنا دی۔ اگر حالیہ ڈرون حملے کا ڈرامہ ایک طے شدہ سکرپٹ کے مطابق
رچایا گیا ہے تو ہمارے لئے اس میں یہی سبق ہے کہ ہمیں بھی بہرصورت اپنے
مفادات ہی مقدم ہونے چاہئیں۔ امریکہ اپنے مفادات کی خاطر ہماری ساری
قربانیاں یکسر فراموش کرکے یکدم طوطا چشم ہو سکتا ہے تو بلوچستان ڈرون حملے
کی بنیاد پر قومی مفادات کے تحت ہم امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی
کیوں نہیں کر سکتے۔
گزشتہ روز امریکی صدر بارک اوباما نے طالبان کے امیر ملا اختر منصور کے
مارے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ امریکی افواج پاکستانی سرزمین پر پائے
جانے والے خطرات کیخلاف کارروائیاں جاری رکھیں گی۔ ‘‘ اس کے جواب میں
چوہدری نثار علی خان نے بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے میں افغان طالبان کے
سربراہ ملا منصور کی ہلاکت کی تصدیق سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی
اور عسکری قیادت اس بات پر متفق ہے کہ پاکستان میں امریکی ڈرون حملے
پاکستان کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ، غیرقانونی
اور ناقابل قبول ہیں، امریکی صدر کا پاکستان میں دشمن کو ہر جگہ نشانہ
بنانے کا بیان بھی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور ناقابل قبول ہے،
ڈرون حملوں سے پاکستان امریکہ تعلقات پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں،
امریکہ کے کہنے پر سب چلیں تو پھر دنیا میں جنگل کا قانون بن جائے گا،
امریکی منطق کو مان کر کیا ہم افغانستان میں دہشت گردوں پر گولہ باری کر
دیں۔ پاکستان میں دھماکے کرنے والے افغانستان میں بیٹھے اور پاکستان کی
مخالفت کرنے والے مغرب میں آزاد پھر رہے ہیں۔ اگر افغان طالبان کے سربراہ
کو پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کی حمایت حاصل ہوتی تو کیا وہ ایک گاڑی میں
صرف ڈرائیور کے ساتھ محو سفرہوتا۔ امریکہ کیلئے خطرہ بننے والے لوگ صرف
پاکستان میں نشانہ کیوں؟ سرحد پار دہشت گرد بیٹھے ہیں، پاکستان تو گولہ
باری نہیں کرتا۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ امریکہ اس خطے میں پالیسیز
کا فیصلہ کر لے۔
‘‘
بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے نے خطے میں جاری امن کوششوں اور مذاکرات کی
بساط لپیٹ دی ہے ، اب افغان حکومت کو امن مذاکرات کی بساط نئے سرے سے
بچھانا ہو گی جس پر طالبان گروپوں میں سے کوئی آ کر بیٹھتا ہے یا نہیں، یہ
بعد کی بات ہے،فی الحال تو کامیابی کی جانب بڑھتے مذاکرات ختم ہو گئے ہیں۔
یہ حیرت کی بات ہے کہ اسامہ بن لادن ہو یا ملا اختر منصور یہ ہمیشہ پاکستان
کے کھاتے میں ہی کیوں لکھ دیے جاتے ہیں۔ اسامہ بن لادن کی ڈیڈ باڈی کی
تصویر آج تک ریلیز نہیں ہوئی اور اب ملا اختر منصور گاڑی سمیت زندہ جل گئے
مگراچنبے کی بات ہے کہ ان کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کیسے بچ گیا۔حیران کن
بات ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے اتحادی
ملک پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کو امریکا چیلنج کر رہا ہے، اور پاکستان کی
لائق تحسین خدمات کا اعتراف کرنے کی بجائے اسے شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔
پاکستان کو میلی آنکھ سے دیکھنے والے ، پاکستان پر دہشت گردوں کی معاونت کا
الزام لگا نے والے، پاکستان کی امن کوششوں کو سبوتاژ کرنے والے یاد رکھیں
کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اور خطے میں عدم توازن کا باعث بننے والے
دہشت گرد ملکوں کی کھلی اور چھپی دہشت گردی کا شکار ہے ۔ پاکستان کی بہادر
مسلح افواج جس محنت اور جانفشانی سے دہشت گردوں ، ان کے معاونین، سرپرستوں
اور سہولت کاروں کا قلع قمع کرنے کے لئے برسرپیکار ہے، اس کی مثال نہیں
ملتی۔ آج خالق کائنات کے خصوصی فضل و کرم سے پاک افواج کو یہ صلاحیت حاصل
ہے کہ وہ ملکی ترقی میں حائل ہونے والی دشمن کی ہر چال کو ناکام بنادے۔
|
|