کسی بھی ریاست کی خود مختاری کی حدود کا
تعین اس کے عوام ہی کرتے ہیں۔اس خود مختاری کے تحفظ کے فرائض ریاست اپنے
مخصوص اداروں کو تفویض کر تی ہے ۔خود مختاری کی تعریف میں ردو بدل کا
اختیار صرف اور صرف عوام کو ہی حاصل ہے۔مخصوص ادارے اس تعریف کو بدلنے کا
اختیار نہیں رکھتے ۔اسی طرح بین الاقوامی قوانین کو مدِ نظر رکھتے ہوئے
ریاستی عوام اپنی جغرافیائی حدود کا بھی تعین خود کرتے ہیں۔ان حدود کا تحفظ
بھی ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔جغرافیائی حدود میں رد و بدل کا
اختیار بھی صرف عوام کو ہی ہوتا ہے۔عوام اپنے نمائندے منتخب کر کے پارلیمان
میں بھیجتے ہیں اور وہی نمائندے عوام کے عطا کردہ اختیارات کا استعمال کرتے
ہیں۔پارلیمنٹ حکومت کا ادارہ اہم ادارہ ہوتا ہے ریاست کے باقی ادارے اسی
حکومتی ادارے کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔اگر ریاست کے معاملات اسی اصول کے
تحت چلتے رہیں تو ریاست کی عزت اور توقیر میں اضافہ ہو تا رہے گا۔کوئی
دوسری ریاست اس کے معاملات میں دخل دینے سے گریزاں رہے گی۔ایسی ریاست کی
قومی سلامتی اور قومی خود مختاری پر کبھی بھی آنچ نہیں آئے گی۔لیکن اگر اس
کے بر عکس ریاستی ادارے حکومتی اداروں سے ماوراء فیصلے کرنے لگ جائیں اور
پارلیمان کو خاطر میں نہ لائیں تو پھر ریاست کی خود مختاری اور سلامتی کو
خطرات لاحق ہونے شروع ہو جائیں گے۔ایسی ریاست کی عزت پر بھی حرف آئے گا اور
اس کی توقیر بھی متاثر ہو گی۔
بدقسمتی سے پاکستانی ریاست ان دنوں اسی قسم کے مسائل کا شکار ہے۔ پاکستان
میں ریاستی ادارے حکومتی اداروں سے زیادہ طاقتور اور بااثر ہو چکے
ہیں۔جمہوری نظام میں تسلسل کا نہ ہونا اس کی بنیادی وجہ ہے۔پاکستان میں
ابہام کی صورت ہمہ وقت موجود رہتی ہے ۔افغان طالبان رہنما ملا منصور کی
پاکستان میں ہلاکت اور انگور اڈا چیک پوسٹ کا انتظام افغان فورسز کے سپرد
کرنے کے واقعات نے اس ابہام کو مزید گہرا کر دیا ہے۔حکومت اس طرح کے
معاملات میں بے بس یا لاعلم نظر آتی ہے۔حالیہ ڈرون حملے پر وزیر اعظم کا
بیان اور انگور اڈا چیک پوسٹ کی حوالگی پر وزیرداخلہ کا بیان اس کی واضع
مثال ہے۔ڈروں حملے کے بارے میں سات گھنٹے بعد وزیر اعظم کو امریکی عہدے دار
نے اطلاع دی۔اسی طرح چیک پوسٹ کی حوالگی بھی حکومت سے پوچھے بغیر کی
گئی۔ایسی صور تِ حال ریاست کی سلامتی اور بقا کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی
ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ریاستی ادارے فیصلہ سازی بھی کرنے لگے ہیں جبکہ یہ
اختیار صرف منتخب پارلیمان کو ہی ہے۔تمام ریاستی اداروں کے فرائض آئین نے
مقرر کر رکھے ہیں ان کے حدود کا تعین بھی کر دیا گیا ہے۔جب ادارے آئین سے
انحراف اور حدود سے تجاوز کرنے لگیں تو ریاست میں انتشار پھیلنا شروع ہو
جاتا ہے۔پاکستان میں اس کے آثار نمایاں ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ان حالات میں
پارلیمنٹ کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے۔اسے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
بد قسمتی سے پاکستان کی پارلیمنٹ ان حالات میں کمزور دیکھائی دے رہی ہے۔اس
کی بے بسی عوام کو پریشان کر رہی ہے۔ریاستی اداروں نے سیاستدانوں پر کرپشن
کے الزامات کی بوچھاڑ کر رکھی ہے۔یہ تاثر زور پکڑ چکا ہے کہ سول قیادت کرپٹ
ہے۔مگر کرپشن دیگر ریاستی اداروں کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اس کرپشن
کی بدولت وہ بھی کھوکھلے ہو تے جا رہے ہیں ان کی کارکردگی پر بھی اب
انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔عوام پریشان ضرور ہیں مگر نا امید ہر گز نہیں ہیں ۔ان
کی توقعات اب بھی اپنے منتخب نمائندوں سے ہی وابستہ ہیں۔تمام تر مسائل کو
حل انہیں نمائندوں نے ہی کرنا ہے۔
آج پاکستانی قوم ریاستی اداروں کی خواہش پر قربانیاں دے رہی ہے۔عجب ستم
ظریفی ہے کہ آج جو چیک پوسٹ افغان فورسز کے حوالے کی گئی کل وہی پوسٹ
پاکستانیوں کو ایک لمبی جنگ کے بعد واپس لینی پڑے۔قربانیوں کا یہ لامتناہی
سلسلہ کب جا کے رکے گا اس کا فیصلہ ریاستی اداروں کو نہیں بلکہ عوام کے
منتخب کردہ پارلیمان کو کرنا ہو گا۔
پاکستانی پارلیمنٹ کو متحرک ہو نا ہو گا۔اسے قومی خود مختاری کا تعین خود
کرنا ہوگا۔قومی سلامتی کی پالیسی خود وضع کرنا ہو گی۔ خارجہ پالیسی از سرِ
نو خود مرتب کرنا ہو گی۔پارلیمنٹ کو عوام کے تفویض کردہ اختیارات کو
استعمال میں لاتے ہوئے تمام فیصلے خود کرنے ہوں گے۔یہی عمل ریاست کو دوام
اور عزت بخش سکتا ہے۔ |